تزکئیہ نفس
نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کا قرآن میں ذکر ہوا ہے۔ ان تینوں لفظوں کی تشریح وہی کرے گا جس کے پاس علم ہو گا، اسلئے کوئی بھی بندہ اپنا تزکئیہ نفس نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس اچھائی یا برائی کا علم نہ ہو۔
پاکستان کی 80 پرسنٹ آبادی بے نمازی ہو گی، ان کا تزکئیہ نفس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تزکئیہ نفس کے لئے اتنا بھی کافی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے شر سے مسلمان محفوظ رہیں یا اُس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اپنے شر سے کسی کو بچانا بھی تزکئیہ نفس ہے مگر اس کے لئے بھی علم کا ہونا لازمی ہے۔
مثال: چنگیز خاں کے پاس ایک ماں گئی جس کابیٹا ظالم چنگیز خاں نے پکڑ رکھا تھا اور اُس ماں نے ایک دفعہ جنگل میں چنگیز خاں کو پیاسی حالت میں پانی پلایا تھا۔ ماں نے چنگیز خاں سے کہا کہ میرے بیٹے کو آزاد کر دے، چنگیز خان نے اُس کے بیٹے کو بُلایا اور اُس کے سینے میں نیزہ مار کر قتل کیا اور کہا کہ اے ماں تجھ پر احسان کیا اور تیرا بیٹا آزاد کیا۔
اسطرح جس کو علم نہیں کہ آزاد کرنا کسے کہتے ہیں، اُس کے نزدیک آزاد کرنا یہی ہوتا ہے، اسلئے تزکئیہ نفس کے لئے علم کا ہونا لازمی ہے جس پر عمل کیا جائے۔
مثال: ایک مرید نے اپنے پیر کی خدمت کے لئے 12 قلم (pointer) لئے اور دفتر میں رکھ لئے، وہاں دفتر میں سے کسی نے ایک قلم چوری کر لیا، خیر وہ 11 قلم لے کر اپنے پیر کے پاس گیا، پیر نے کاونٹ کئے اور کہا اس ڈبیہ پر تو 12 لکھا ہے مگر اندر 11 ہیں تو اُس مرید نے کہا کہ حضرت ایک دفتر میں کسی نے چوری کر لیا تو پیر صاحب نے کنفرم کیا کہ کیا آپ دفتر کا مال چوری کر کے تو نہیں لائے اور اُس مرید کے تاثرات چیک کئے تو اُس نے کہا کہ حضرت نہیں اپنے پیسوں سے خریدے تھے۔
اس مثال میں ایک بڑا ہے جس کا ادب کرنا اور خدمت کرنا لازمی ہے تاکہ تزکئیہ نفس ہو سکے لیکن اس میں مرید کو علم ہے کہ پیر کے پاس اپنے پیسوں کی چیز لے کر جانی ہے کیونکہ چوری کا صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ اسلئے پیر نے جب کنفرم کیا تو اُس نے کوئی بُرا نہیں منایا اور جو بُرا منائے اور دوبارہ پیر کے پاس نہ جائے تو اُس کا تزکئیہ نفس کرنا اُس پیر کے بس کی بات نہیں۔
تقریر کے دوران دل پر جو وارد ہو جائے وہ بیان کرنا حق ہے اور اُس پر جو عوام ری ایکٹ کرے وہ بھی حق ہے، اسلئے اُس کو برداشت کرنے سے اپنا تزکئیہ نفس ہو جاتا ہے۔ عوام کے بھیس میں کوئی اُس مقرر کا بھی تزکئیہ نفس کر رہا ہوتا ہے مگر علم کا ہونا لازمی ہے۔
نفس مطمئنہ ، لوامہ، امارہ
اس نفس کو ضمیر کی آواز کہہ لیں، ساتھی کہہ لیں، رب کی آواز سمجھ لیں، دوست سمجھ لیں کیونکہ پہلے ہر مسلمان نفس امارہ میں ہوتا ہے، پھر نفس لوامہ اور پھر نفس مطمئنہ میں ہوتا ہے اور یہ حالتیں بدلتی بھی رہتی ہیں کیونکہ گناہ اور نیکی میں کبھی کبھی متقی بھی ہار جاتے ہیں۔
1۔ يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ترجمہ: اے اطمینان والے نفس (الفجر) یہ ایسا نفس ہے جو انسان کو اللہ کریم کی بندگی کرنے کی ہمیشہ دعوت دیتا ہے اور گناہوں کی طرف توجہ نہیں ہونے دیتا۔
2۔ وَ لَاۤ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ترجمہ: اور مجھے اس جان کی قسم ہے جو اپنے اوپر ملامت کرے۔ (القیامہ) یعنی جو انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام بہت برا تھا تم نے کیوں کیا، اسلئے توبہ کرو۔
3۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ ترجمہ: بیشک نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے۔ (یوسف)
تزکیہ: ایک باطنی قوت ہے۔ جو شخص خیر،بھلائی یا نیکی کاکام کرنا چاہتا ہے اسے سب سے پہلے جس قوت کی ضرورت پیش آتی ہے وہ تزکیہ ہے۔ پہلے اپنا تزکیہ کریں اور اپنے آپ کو درست کریں، دوسروں کا تزکیہ کرنا اور دوسروں کو درست کرنا بعد کی بات ہے۔