Quran Aur Hazoor (SAW)ka Farman (قرآن اور حضور ﷺ کا فرمان)

عمر رضی اللہ عنہ کی شان قرآن اور حضور ﷺ کا فرمان

 

ہمیں کسی جماعت کا سربراہ، خزانچی، لیڈروغیرہ نہیں بننا بلکہ جسطرح حضورﷺ نے کافروں کی دی ہوئی ”عورت، پیسہ اور سربراہی“ کی آفر ٹھکرا دی، اس طرح ہم ہر دنیا کا اعزاز ٹھکرا کر اللہ واسطے دین کی خدمت کریں گے۔ ہمارے نزدیک اہلبیت کے لاکھوں فضائل ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بھی کثیر فضائل ہیں کیونکہ دونوں کے بارے میں قرآن و نبیﷺ کا فرمان موجود ہے اور ان دونوں کو الگ کرنا اپنے دین کو برباد کرنا ہے۔ البتہ قرآن و احادیث میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے یہ فضائل آئے ہیں:

قرآن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی موافقت میں

1۔ حجاب کے احکام سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! ازواجِ مطہرات کے سامنے طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اس لیے آپ انہیں پردے کا حکم دیجیے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی:اور جب مانگنے جاؤ بیبیوں سے کچھ چیز کام کی تو مانگ لو پردہ کے باہر سے(الاحزاب:٥٣)

2۔ ایک بار آپ نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم مقامِ ابراہیم کو مصلیٰ نہ بنالیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوگئی:اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ(البقرۃ:١٢٥)

3۔ بدر کے قیدیوں کے متعلق بعض نے فدیہ کی رائے دی جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ اس پر آپ کی موافقت میں یہ آیت نازل ہوئی:اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب (الانفال:٦٨)

4۔ نبی کریم ﷺ کا اپنی کنیز حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا بعض ازواجِ مطہرات کو ناگوار لگا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا:اگر نبی چھوڑ دے تم سب کو ابھی اُس کا رب بدلے میں دیدے اُسکو عورتیں تم سے بہتر”۔ (التحریم:۵) بالکل انہی الفاظ کے ساتھ وحی نازل ہوگئی۔

5۔ حرمت سے قبل مدینہ طیبہ میں شراب اور جوئے کا عام رواج تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہِ نبوی میں عرض کی، ہمیں شراب اور جوئے کے متعلق ہدایت دیجیے کیونکہ یہ مال اور عقل دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اور جوئے کا کہدے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے (البقرۃ:٢١٩)

6۔ ایک بار ایک شخص نے شراب کے نشہ میں نماز پڑھائی تو قرآن غلط پڑھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر وہی عرض کی تو یہ آیت نازل ہوئی:اے ایمان والو نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو (النسائ:٤٣)

7۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بار بار دعا کی ، الٰہی! شراب اور جوئے کے متعلق ہمارے لئے واضح حکم نازل فرما۔ یہان تک کہ شراب اور جوئے کے حرام ہونے پر یہ آیت نازل ہوگئی:اے ایمان والو یہ جو ہے شراب اور جوا اور بت اور پانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ (المائدۃ:٩٠)

8۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت: "اور ہم نے بنایا آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے” نازل ہوئی۔ (المؤمنون:١٢) تو اِسے سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بے ساختہ کہا:، فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ۔(المؤمنون:14) ” تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا”۔ اس کے بعد اِنہی لفظوں سے یہ آیت نازل ہوگئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم)

9۔ جب منافق عبداللہ ابن اُبی مرا تو اُس کے لوگوں نے رسول اللہ سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے درخواست کی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ! عبداللہ ابن اُبی تو آپ کا سخت دشمن اور منافق تھا ،آپ اُس کا جنازہ پڑھیں گے؟ رحمتِ عالمﷺ نے تبلیغ دین کی حکمت کے پیشِ نظر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ یہ آیت نازل ہوگئی ، وَلاَ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا۔ ”اور جب ان (منافقوں) میں سے کوئی مرے تو اس پر نماز نہ پڑھیے”۔{9:84}

یہ خیال رہے کہ حضور اکرمﷺ کا یہ فعل صحیح اور کئی حکمتوں پر مبنی تھا جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس نماز کی وجہ سے اس منافق کی قوم کے ایک ہزار افراد اسلام لے آئے۔ اگر آپ کا یہ فعل مبارک رب تعالیٰ کو پسند نہ ہوتا تو وہ وحی کے ذریعے آپ کو اسکی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرما دیتا۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کا صحیح ہونا عام منافقوں کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ہے۔

10۔ اسی نماز جنازہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۔{63:6} ”ان منافقوں کے لیے استغفار کرنا نہ کرنا برابر ہے”۔ اس پر سورۃ المنافقون کی یہ آیت نازل ہوئی۔ (طبرانی )

11۔ جس وقت رسول اکرم نے جنگ بدر کے سلسلہ میں صحابہ کرام سے باہر نکل کر لڑنے کے سلسلہ میں مشورہ کیا تو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نکلنے ہی کا مشورہ دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:جیسے نکالا تجھ کو تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کام کے واسطے اور ایک جماعت اہل ایمان کی راضی نہ تھی”۔(الانفال:٥)

12۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جب منافقوں نے بہتان لگایا تو رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ فرمایا۔ آپ نے عرض کی، اے الله کے رسول ﷺ! آپ کا اُن سے نکاح کس نے کیا تھا؟ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا، اللہ نے! اس پر آپ نے عرض کی، کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے رب نے آپ سے اُن کے عیب کو چھپایا ہوگا، بخدا یہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر عظیم بہتان ہے۔ سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُہْتَان” عَظِیْم” ۔ اسی طرح آیت نازل ہوئی۔ (النور:١٦)

13۔ ابتدائے اسلام میں رمضان شریف کی رات میں بھی بیوی سے قربت منع تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں کچھ عرض کیا۔ اس کے بعد شب میں مجامعت کو جائز قرار دے دیا گیا اور آیت نازل ہوئی:حلال ہوا تم کو روزہ کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی عورتوں سے”۔ (البقرۃ:١٨٧)

14۔ ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا ، جبرئیل فرشتہ جس کا ذکر تمہارے نبی کرتے ہیں وہ ہمارا دشمن ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا:جو کوئی ہووے دشمن اللہ کا اور اسکے فرشتوں کا اور اسکے پیغمبروں کا اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے ان کافروں کا”۔(البقرۃ:٩٨) بالکل اِنہی الفاظ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

15۔ دو شخص لڑائی کے بعد انصاف کے لیے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے ۔ حضور ﷺ نے ان کا فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف یہ فیصلہ ہوا، وہ منافق تھا۔ اس نے کہا کہ چلو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس چلیں اور ان سے فیصلہ کرائیں۔ چنانچہ یہ دونوں پہنچے اور جس شخص کے موافق حضور نے فیصلہ کیا تھا اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا ، حضور نے تو ہمارا فیصلہ اس طرح فرمایا تھا لیکن یہ میرا ساتھی نہیں مانا اور آپ کے پاس فیصلہ کے لئے لے آیا ۔ آپ نے فرمایا، ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں۔ آپ اندر سے تلوار نکال لائے اور اس شخص کو جس نے حضور کا فیصلہ نہیں مانا تھا، قتل کر دیا۔ دوسرا شخص بھاگا ہوا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، مجھے عمر سے یہ امید نہیں کہ وہ کسی مومن کے قتل پر اس طرح جرات کرے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس منافق کے خون سے بری رہے۔

فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ الخ۔ ترجمہ: سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے۔ (النساء ٦٥)

16۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک روز سو رہے تھے کہ آپ کا ایک غلام بغیر اجازت لیے اندر چلا آیا۔ اس وقت آپ نے دعا فرمائی، الٰہی! بغیر اجازت گھروں میں داخل ہونا حرام فرما دے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو (النور:٢٧)

17۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فرمانا کہ یہود ایک حیران و سرگرداں قوم ہے۔ آپ کے اس قول کے مطابق آیت نازل ہوئی۔

18۔ ثُلَّۃ” مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃ” مِنَ الْاٰخِرِیْنَ {14 – 56:13} "انبوہ ہے پہلوں میں سے. اور تھوڑے ہیں پچھلوں میں سے” بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی تائید میں نازل ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء)

احادیث اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

19۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷲﷺ نے فرمایا:۔ بے شک تم سے پہلی امتوں میں مُحَدَّثْ (صاحبِ الہام) ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں بھی کوئی مُحَدَّثْ ہے تو عمر ہے۔ (بخاری کتابُ المناقب، مسلم باب فضائل عمر)

20۔ انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام فرمایا جاتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان میں سے میری امت میں بھی کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ (بخاری کتابُ المناقب)

21۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں گفتگو کر رہی تھیں اور اونچی آواز سے کچھ مطالبہ کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت مانگی تو وہ پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اندر داخل ہوئے اور رسولﷲ ہنس رہے تھے ۔ عرض کی، یا رسولﷲ ﷺ! آپ کوﷲ تعالیٰ ہمیشہ مسکراتا رکھے۔ نبی کریم نے فرمایا، مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس تھیں اور جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ آپ نے کہا ، اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو مگرﷲ کے رسول سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا، ہاں کیونکہ آپ سخت مزاج اور سخت گیر ہیں۔ رسولﷲ نے فرمایا ، خوب اے ابنِ خطاب ! قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، شیطان جب بھی تم سے کسی راستے میں ملتا ہے تو اپنا راستہ بدل لیتا ہے ۔ (بخاری، مسلم)

22۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں ایک محل دیکھا ۔ میں نے پوچھا، یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا، عمر بن خطاب کا میں نے ارادہ کیا کہ اندر داخل ہوکر اسے دیکھوں لیکن تمہاری غیرت یاد آگئی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عرض گزار ہوئے ، یا رسولﷲ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا میں آپ پر غیرت کرسکتا ہوں۔ (بخاری، مسلم)

23۔ حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میں سویا ہوا تھا کہ مجھ پر لوگ پیش کیے گئے جنہوں نے قمیصیں پہنی ہوئیں تھیں۔ کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے بھی کم تھی۔ پھر مجھ پر عمر بن خطاب پیش کیے گئے تو ان پر بھی قمیص تھی اور وہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسول ﷲ ! آپ نے اس قمیص سے کیا تعبیر لی ہے؟ فرمایا، دین۔ (بخاری، مسلم)

24۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ،میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا۔ میں نے پیا ، یہاں تک کہ سیرابی کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ پھر بچا ہوا دودھ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسولﷲ ! آپ اس (دودھ) سے کیا مراد لیتے ہیں؟ فرمایا ، علم۔ (بخاری، مسلم)

25۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷲ نے فرمایا ، بے شک ﷲ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا ہے۔ [ترمذی:3644، صحيح ابن حبان:7052(15 : 318)، مسند أحمد بن حنبل:4999(5123) + 5544(5664) ، المعجم الأوسط للطبراني: 255 (247) + 297 (289)]

26۔حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا:ﷲ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان پر رکھ دیا ہے کہ وہ ہمیشہ حق بولتے ہیں۔ (صحيح أبي داود:2962، صحيح ابن ماجه:88، صحيح الجامع:1834)

27۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ہم اس بات میں شک نہیں کرتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا ہے یعنی ان کے ارشاد پر سب کو دلی سکون ملتا ہے۔ اسے امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا۔(مشکوٰۃ)

28۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی، اے ﷲ ! اسلام کو ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت دے۔ صبح ہوئی تو اگلے روز حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور مسجد میں اعلانیہ نماز پڑھی۔(احمد، ترمذی)

29۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا فرمائی، اےﷲ ! اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے غلبہ عطا فرما (مستدرک للحاکم4422) اس حدیث میں مذکور دعا میں کسی دوسرے شخص کا نام شامل نہیں ہے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے سنن میں اُمُ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ اسی حدیث کو طبرانی نے اوسط میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے اور معجم کبیر میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے۔ (تاریخ الخلفاء:١٨٣)

30۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرئیل ںنازل ہوئے اور عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ! آسمان والے حضرت عمر کے ایمان لانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔(ابن ماجہ، حاکم)

31۔ حضرت عبداللہ بن مسعودص سے روایت ہے کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے اس وقت سے ہم مسلسل کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ (بخاری )

32۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابو بکر سے کہا ، اے رسول اللہ ﷺ کے بعد تمام لوگوں سے بہتر۔ حضرت ابو بکر نے کہا، آپ تو یوں کہتے ہیں حالانکہ میں نے رسولﷲ کو فرماتے ہوئے سنا ، سورج کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو عمر سے بہتر ہو۔ (ترمذی)

33۔ حضرت ا بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسا نیک اور سخی نہیں دیکھا گویا یہ خوبیاں تو آپ کی ذات پر ختم ہوگئی تھیں۔ (بخاری)

34۔ حضرت عقبہ بن عامرص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔ (ترمذی، حاکم)

35۔ حضرت بُرَیدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ کے لیے نکلے۔ جب واپس تشریف لائے تو ایک کالی لونڈی حاضر بارگاہ ہو کر عرض گزار ہوئی، یا رسولﷲ ! میں نے نذر مانگی تھی کہ اگرﷲ تعالیٰ آپ کو بخیریت واپس لوٹائے تو میں آپ کی خدمت میں دف بجا ؤں گی۔ رحمتِ عالم نے اس سے فرمایا ، اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجالو، اور نہیں مانی تھی تو نہ بجاؤ۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور وہ بجاتی رہی۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آئے اوروہ بجاتی رہی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ آئے اوروہ بجاتی رہی۔پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو اس نے دف اپنے نیچے رکھی اور اس پر بیٹھ گئی۔ رسول کریم نے فرمایا، اے عمر! شیطان تم سے ڈرتا ہے۔ میں بیٹھا تھا لیکن یہ بجاتی رہی۔ ابو بکر آئے اور یہ بجاتی رہی، علی آئے اور یہ بجاتی رہی۔ پھر عثمان آئے اور یہ بجاتی رہی۔ جب اے عمر! تم اندر داخل ہوئے تو اس نے دف نیچے رکھ لی ۔ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین (ترمذی)

36۔ حضرت انس اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، تین باتوں میں میرے رب نے میری موافقت فرمائی:
١) میں عرض گزار ہوا ، یا رسول اللہ ﷺ! کاش ہم مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو حکم نازل ہوا،”اور ٹھہرالو مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ”۔ (٢:١٢٥)
٢) میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ! ہماری عورتوں کے پاس بھلے اور برے آتے ہیں، کاش! آپ انہیں پردے کا حکم فرمائیں۔ اس پر پردے کی آیت نازل ہو گئی ۔
٣) نیزجب نبی کریم کی ازواج مطہرات غیرت کھا کر جمع ہو گئیں تو میں عرض گزار ہوا ، ”اگر آپ انہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ان سے بہتر بدلے میں عطا فرمائے”۔ پس اسی طرح آیت نازل ہو گئی ۔(بخاری، مسلم)

37۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو دوسرے لوگوں پر چار باتوں سے فضیلت دی گئی ہے۔
١) بدر کے قیدیوں کے بارے میں جب آپ نے اُن کو قتل کرنے کے لیے کہا تو اﷲ تعالیٰ نے(آپ کی تائید میں) فرمایا ، ”اگر اﷲ پہلے فیصلہ نہ کرچکا ہوتا جو تم نے کیا تو تم کو بڑا عذاب پہنچتا”۔ ( ٨:٦٨)
٢) اور پردے کے معاملے میں جب آپ نے نبی کریمکی ازواجِ مطہرات سے پردے کے لیے کہا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا، اے ابنِ خطاب ! آپ ہم پر بھی حکم چلاتے ہیںحالانکہ وحی ہمارے گھر میں نازل ہوتی ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے حکم نازل فرمایا،”اور جب تم نے کوئی چیز ان سے مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو”۔ (٣٣:٥٣)
٣) اور حضور کی دعا کے باعث کہ” اے اﷲ ! عمر کے ذریعے اسلام کی مدد فرما ”۔
٤) اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے بیعت کے فیصلے کے باعث کہ سب سے پہلے اِنہوں نے بیعت کی۔ (احمد، مشکوٰۃ)

38۔ حضرت عبداللہ بن مسعودص فرماتے ہیں کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا علم ترازو کے ایک پلے میں اور تمام اہلِ دنیا کا علم ترازو کے دوسرے پلے میں رکھ کر تولا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا پلہ ہی بھاری رہے گا کیونکہ علم کے دس حصوں میں سے نو حصے علم آپ کو دیا گیا ہے۔ (طبرانی، حاکم، تاریخ الخلفاء:١٩٥)

39۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میری امت سے وہ آدمی جنت میں بڑے بلند درجے والا ہے ۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم، ہم اس آدمی سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہی مراد لیا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے راستے پر چلے گئے یعنی وصال فرما گئے۔ (ابنِ ماجہ،مشکوٰۃ)

40۔ حضرت مِسوَر بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا اور انہوں نے تکلیف محسوس کی تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا، اے امیرالمومنین ! کیا آپ پریشان ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے اور اچھا ساتھ نبھایا۔ پھر جب وہ جدا ہوئے تو آپ سے راضی تھے پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی صحبت میں رہے اور اچھا ساتھ نبھایا۔ پھر جب وہ جدا ہوئے تو آپ سے راضی تھے ۔ پھر آپ کی صحابہ کرام سے صحبت رہی اور اچھی صحبت رہی۔ اگر آپ ان سے جدا بھی ہوجائیں تو وہ آپ سے راضی ہیں۔
فرمایا ، تم نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اور رضامندی کا ذکر کیا ہے تو یہ ﷲ تعالیٰ کا احسان ہے جو اس نے مجھ پر فرمایا ۔ تم نے حضرت ابوبکر کی صحبت اور رضامندی کا ذکر کیا تو یہ بھیﷲ تعالیٰ کا کرم ہے جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ اور جو تم میری پریشانی دیکھ رہے ہو یہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم ! اگر میرے پاس زمین بھر سونا بھی ہوتا تو میںﷲ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے اس کا فدیہ ادا کردیتا۔ (بخاری باب مناقب عمر بن خطاب)

41۔ حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،جس شخص نے عمر سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ عرفہ پر عموماً اور حضرت عمر پر خصوصاً فخر کیا ہے۔ جتنے انبیاء کرام مبعوث ہوئے ہیں، ہر ایک کی امت میں ایک محَدَّثْ ضرور ہوا ہے اگر میری امت کا کوئی محَدَّث ْ ہے تو وہ عمر ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ! محدَث کون ہوتا ہے؟ فرمایا، جس کی زبان سے ملائکہ گفتگو کریں۔ اس حدیث کی اسناد درست ہیں۔ (طبرانی فی الاوسط، تاریخ الخلفاء:١٩٤)

42۔ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، میرے بعد حق عمر کے ساتھ رہے گا خواہ وہ کہیں ہوں۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٣،طبرانی)

43۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے مرض ُالوصال میں دریافت کیا گیا، اگر آپ سے اللہ تعالیٰ یہ دریافت فرمائے کہ تم نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو کیوں خلیفہ منتخب کیا تو آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟ فرمایا، میں عرض کروں گا کہ میں نے ان لوگوں پر ان میں سے سب سے بہتر شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا۔ (تاریخ الخلفاء: ١٩٥، طبقات ابن سعد)

44۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عمر اہلِ جنت کا چراغ ہیں۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٣، البزار، ابن عساکر)

45۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا، یہی وہ ہستی ہے جس کے باعث فتنہ وفساد کے دروازے بند ہیں اور یہ جب تک زندہ رہے گا اس وقت تک تم میں کوئی پھوٹ اور فتنہ وفساد نہیں ڈال سکے گا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٣، ازالۃ الخفاء)

46۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے، مجھ سے جبرئیل نے کہا ہے کہ اسلام عمر کی موت پر روئے گا یعنی ان کی وفات سے اسلام کو بہت نقصان پہنچے گا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٤، طبرانی)

47۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کسی شخص سے واقف نہیں جس نے جرات کے ساتھ راہِ خدا میں ملامت سنی ہو۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٥)

48۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میرے آقا نے مجھ سے (از راہِ کرم وعنایت) یہ فرمایا،”اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا”۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مواقفت

49۔ آیت ”الشیخ والشیخۃ اذا زنیا” کا منسوخ التلاوت ہونا بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے سے موافقت رکھتا ہے۔

50۔ جنگ اُحد میں جب ابو سفیان نے کہا، کیا تم میں فلاں ہے؟ تو سیدنا عمر نے فرمایا،”اس کا جواب نہ دو”۔ رسولِ کریم نے آپ کے اس قول سے موافقت فرمائی۔ اس واقعہ کو امام احمد رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی مُسند میں روایت کیا ہے۔

51۔ ایک روز کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آسمان کا بادشاہ زمین کے بادشاہ پر افسوس کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ سن کر فرمایا، مگر اس بادشاہ پر افسوس نہیں کرتا جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا۔ یہ سن کر کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، واللہ! توریت میں یہی الفاظ ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سجدے میں گر گئے یعنی سجدہ شکر بجا لائے۔(ایضاً: ٢٠١)

52۔ صحیح مسلم میں ہے کہ صحابہ نے نماز کے لیے بلانے کے متعلق مختلف تجاویز دیں تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ایک آدمی کو مقرر کر لو جو نماز کے وقت آواز دیکر لوگوں کو بلائے۔ حضور نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔

53۔ جنگِ یمامہ میں جب بہت سے حفاظ صحابہ کرام شہید ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ رسول، سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں عرض کی، اگر اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن کی حفاظت کا مسئلہ نہ پیدا ہو، اس لیے قرآن کو کتاب کی صورت میں جمع کردیا جائے۔ آپ کے بار بار اصرار پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اس کام کے لیے راضی ہوئے۔ یوں آپ کی فراست ودانائی کی وجہ سے قرآن کریم ایک جگہ کتاب کی صورت میں جمع کیا گیا۔ (بخاری باب جمع القرآن)

54۔ اسی طرح آپ کے دورِ خلافت کے شروع تک لوگ الگ الگ تراویح پڑھتے تھے۔ آپ نے انہیں ایک امام کی اقتداء میں جماعت کی صورت میں تراویح پڑھنے کا حکم دیا۔ تراویح میں قرآن کریم سنانے کی لگن میں مسلمان چھوٹے بڑے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور حفاظ کرام اسے اہتمام سے یاد رکھتے ہیں۔ گویا آج قرآن کریم کا کتابی صورت میں محفوظ ہونا، حفاظ کرام کی کثرت اور قرآن کریم کا صحیح یاد رکھنا یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہی کی فراست کے صدقے میں ہے جنہوں نے قرآن کریم کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی اہمیت اُجاگر کی اور تراویح کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا۔

اہلتشیع: کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اہلتشیع نے اسلام کا مینڈیٹ چوری کیا ہوا ہے ورنہ یہ بتا دیں کہ ڈپلیکیٹ علی نے کہاں بیٹھ کر قرآن اور حضور کے فرمان اکٹھے کر کے کن راویوں کے ذریعے اہلتشیع جماعت تک پہنچائے۔ اہلسنت کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب جانتے ہیں۔

اہلحدیث: حضرات سے اہلسنت کا مسئلہ تقلید کو بدعت و شرک کہنے کا ہے اور اگر وہ سعودی عرب کے وہابی علماء کے دفاع میں ہیں تو ان کے طریقے پر ہو کر اسلام میں ایک جماعت ہو کر علمی مذاکرات کریں۔

باغی گروپ: دیوبندی اور بریلوی گروپ میں جنگ صفین و جمل والے باغی موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک ہونے نہیں دیتے ورنہ چار کفریہ عبارتوں پر توبہ کی بات ہے تو مسلمان تو اسی وقت کہے کہ اللہ اور نبی کی شان میں یہ الفاظ ہیں تو مجھے معاف کر دو اُس پر سو سال سے بحث مسلمانوں کا کام نہیں لگتا

ضرورت: اسلام کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا کردار بن کر اسلام کی خدمت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دین کو ہماری ضرورت پڑ گئی ہے۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general