جوتے لفظ پر مزاح اور شرعی حیثیت کیا؟
مزاح: ہر کوئی مختلف انداز میں اپنی ذہانت لڑا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ جناب جوتیوں میں دال بٹ سکتی ہے مگر جوتے میں نہیں۔ دوسرا جوتی چھپا کر دُلہا سے پیسہ لیتے ہیں مگر جوتا چُھپا کر نہیں۔ جوتا پرانا ہو کر دادا ابا کی طرح چوں چرا کرتا ہے، وہ چوں چرا جوتی کے نصیب میں کہاں؟ چپل،جوتی، کھڑائوں ، سینڈل اور اسی قبیل کی دیگر چیزوں میں جوتے کو وہی مقام حاصل ہے جو جنگل میں شیر کو حاصل ہے۔
شریر بچوں کا علاج بھی جوتے سے کیا جاتا ہے کیونکہ بچوں کی عمدہ تربیت کے لیے مائیں بھی جوتے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتی ہیں۔ بعض اساتذہ سے جوتے کھانے والے بیش تر خوش نصیب بچے آج سائنس دان، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، صحافی، مفتی اور پروفیسر بنےہوئے ہیں جو جوتے کھانے کا اقرار بھی کرتے ہیں۔
جوتا آپ کا ہم سفر ہے لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں بھی جوتے چلتے ہیں اور محفلوں میں بھی۔ بعض جوتے تاریخی ہوتے ہیں جو سابق امریکی صدر جارج بش اور بھارتی وزیراعظم مودی کو مارے گئے۔ ہر سیاسی جماعت کو چاہیے کہ لیڈیز ونگ، یوتھ اور سوشل میڈیا ونگ کی طرز پر ایک جوتا مار ونگ بھی قائم کرے تاکہ جوتا گردی قائم رہے۔
کچھ لوگوں کا کام دفاتر میں صرف جوتے چاٹنا ہوتا ہے لیکن جوتے مارنے اور جوتے چاٹنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ سرکاری دفاتر میں بھی قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے لہٰذا اب قومی خزانہ کھانے والوں کو جوتے بھی کھانے چاہییں تاکہ ابھی جوتے سےخبر لیتاہوں تیری والا محاورے پر بھی عمل ہو اور ہمارے مسائل کاحل "جوتے کی نوک پر‘‘ سے نکالا جا سکے ورنہ نہیں نکل رہا اور جوتے ایئرکنڈیشنڈ شاپ میں پڑے سرد پڑ گئے ہیں۔
اگر اسٹریٹ کرائم ہورہے ہیں تومتعلقہ ایس ایچ اوکو جوتے مارے جائیں، اگر علاقے میں گندگی ہے تو بلدیہ کے اہل کاروں کو جوتے لگانے چاہئیں۔ اسی طرح پانی یا بجلی غائب ہو تو ان محکموں کے اہل کاروں کو جوتے مارنے چاہئیں۔ اگر آپ اس تلاش میں نکل گئے تو جوتے کھانے کے بہت سے مستحق مل جائیں گے۔
جوتے گھسنا بھی معمولی بات نہیں، بعض لوگ رشتے، ملازمت کے حصول میں گھس جاتے ہیں اوربعض لوگوں کے جوتے اتنے گھسے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان سے ان کی غربت کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے جیسے باپ اولاد کی پرورش کے لیے زندگی بھر جوتے گھستا رہتا ہے۔
جوتے گھسنے کا کوئی مقصد ہو تو ٹھیک ہے، لیکن کچھ لوگ بلاوجہ ہی جوتے گھستے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی جوتے کھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ جوتا ضرور پہنیے مگر جوتا پہننے سے پہلے یہ اطمینان کرلیں کہ کوئی آستین کا سانپ جوتے میں چھپ کر تو نہیں بیٹھا ہوا ہے۔
کپڑے اور جوتے نعمت ہیں اور اس کا شرعی استعمال
ابو داود 4063: ابوالاحوص کے والد بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا آپ نے مجھے گھٹیا کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس مال ہے؟ میں نے عرض کیا : ہاں یارسول اللہ! میرے پاس ہر قسم کا مال ہے۔ (دوسری روایت میں ہے : میرے پاس اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام ہر قسم کا مال ہے) آپ نے فرمایا جب اللہ نے تمہیں مال دیا ہے تو تم پر اس نعمت کا اثر ظاہر ہونا چاہیے۔
صحیح بخاری 5804: جس شخص کو تہبند میسر نہ ہو وہ شلوار پہنے اور جس شخص کو جوتے میسر نہ ہوں، وہ موزے پہنے۔
صحیح مسلم 91: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو، ایک آدمی نے کہا کہ بے شک آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا اچھا ہو، آپ ﷺ نے فرمایا :بے شک اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کو ٹھکرا دینا ہے اور لو گوں کو حقیر جاننا ہے۔
صحیح بخاری 5856: جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو پہلے دایاں جوتا پہنے اور جوتا اتارتے وقت پہلے بایاں جوتا اتارنا چاہئے۔ صحیح بخاری 5855: تم میں سے کوئی ایک جوتے میں مت چلے، دونوں پہنے یا پھر دونوں ہی اتارے۔
صحیح مسلم 2096: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اکثر اوقات جوتیاں پہنے رہا کرو کیونکہ جوتیاں پہننے سے آدمی سوار رہتاہے۔ البتہ صحیح بخاری 5855 کے مطابق کبھی کبھی ننگے پاؤں چلنا بھی مسنون ہے۔
ترمذی 1775: نبی کریم ﷺ نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع کیا ہے۔
صحیح بخاری 386: سیدنا انس سے سوال کیا گیا، کیا رسو ل اللہﷺ اپنے جوتوں سمیت نمازپڑھتے تھے؟ا نھوں نے کہا :ہاں۔
مسجد یا گھر ہو، فرض نماز ہو یا نماز جنازہ اگر جوتے صاف ہوں تو نماز ادا کر سکتا ہے۔ ابو داود 650: جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد کی طرف آئے تو وہ دیکھے اگر اس کے جوتوں میں کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو اسے صاف کرے اور ان میں نماز پڑھے۔
جوتے پہن کر نماز پڑھنا ایک رخصت ہے مگر جوتے کی آڑ میں مسجد کا احترام پامال کرنا درست نہیں ۔جوتے کو بھی دیکھا جائے گا کہ آیا اس کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے سے مسجد کی صفائی کا نظام تو خراب نہیں ہوتا۔
ابو داود 3232: سیدنا بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں قبرستان میں چل رہا تھا اچانک ایک آدمی نے میرے پیچھے سے آواز لگائی کہ اے جوتیاں پہننے والے !جوتے اتار دوتومیں نے رسول اللہ ؐ کو دیکھا اور جوتے اتار دئیے۔
اگر قبرستان میں کانٹے وغیرہ ہوں تو پھر جوتوں سمیت قبرستان میں چل سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ بعض دلائل سے جوتوں سمیت قبرستان میں چلنے کا جواز ملتا ہے۔
ابوداود 650: جوتے اتار کر اپنی دائیں طرف نہیں رکھنا چاہئے بلکہ بائیں طرف رکھنا چاہئے، اگر بائیں طرف کوئی آدمی ہے تو پھر جوتے کو دونوں پاؤں کے درمیان رکھنا چاہئے۔
”رہی یہ بات کہ ”جوتا آگے ہو تو نماز نہیں ہوتی ”تو اس کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث کسی کومعلوم ہو تو بتا دے۔
بعض لوگ حج یا عمرہ کرتے ہوئے جمروں کو کنکریاں مارنے کی بجائے جوتے مارنا شروع کر دیتے ہیں ایسا کرنا درست نہیں۔
بعض لوگ الٹے جوتے کو نحوست بتلاتے ہیں اور اس سے رزق میں تنگی آ جاتی ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ شیطانی وسوسہ ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔
جوتوں کے رنگ کے حوالے سے کوئی حدیث ہماری نظر سے نہیں گزری البتہ بعض بزرگوں کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ کعبے شریف کے غلاف کا رنگ کالا ہے اس لیے وہ کالے جوتے نہیں پہنتے۔ یہ شرعی دلیل نہیں ہے۔