اسم اعظم
اکثر حد سے زیادہ پریشان لوگ اپنی پریشانیوں کا حل نکالنے کے لئے مختلف آرٹیکل پڑھتے ہیں تو لکھا ہوتا ہے کہ اسم اعظم پڑھ کر دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ کہیں لکھا ہوتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ اسلام کی دعا "ربنا ظلمنا انفسنا” پڑھو اور کوئی لکھتا ہے کہ سیدنا یونس علیہ السلام کی دعا "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ” پڑھ کر دعا مانگو، مسئلہ حل ہو جائے گا کیونکہ انہی آیات میں اسم اعظم ہے۔
اور کوئی احادیث کی کتب میں لکھی ہوئی احادیث پڑھ کر دعا کرنے کا لکھتا ہے، جہاں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس دعا میں اسم اعظم موجود ہے، لیکن کسی ایک اسمِ الہی پر علماء کرام کا اجماع نظر نہیں آتا۔
واقعہ: ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا : اسم اعظم کیا ہے؟ تو آپ اسے لے کر دریا کے کنارے پر آئے اور کہا کہ : اندر چل۔ وہ اندر داخل ہوا، تو آپ نے کہا: اور اندر۔ اسی طرح کرتے کرتے اس کی گردن تک پانی آ گیا، تو آپ نے کہا : اور اندر چل۔ تو اس نے کہاکہ: اس طرح تو ڈوب جاؤں گا۔ تو آپ نے فرمایا: اسمِ اعظم تو تبھی پتہ چلے گا، جب اور آگے جائے گا۔ وہ اور آگے ہوا تو غوطے کھانے لگا اور لگا اللہ کریم کو پُکارنے۔ آپ نے اسے پانی سے نکلوایا اور پوچھا کہ : صحیح بتاؤ! جب تمہیں غوطے آ رہے تھے تو دھیان میں کیا تھا کہ کون بچا سکتا ہے؟ تو کہنے لگا : یہی تھا کہ بس اللہ ہی بچا سکتا ہے ۔ تو آپ نے فرمایا: ہر مُشکل میں اُسے کسی بھی اپنی مادری زبان سے پُکار لو، اُس کا ہر نام اُس وقت "اسم اعظم: کا کام کرے گا کیونکہ اس وقت کسی اور طرف توجہ نہیں رہتی بلکہ توجہ اللہ کریم کی طرف ہو جاتی ہے۔
اسی طرح اللہ کریم کا ذاتی نام "اللہ” ہے اور سورہ اعراف 180: اور اﷲ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو۔
ہر سلسلے کے بزرگان دین اللہ کریم کا ذاتی نام "اللہ” کا ورد بتاتے رہے ہیں۔ کوئی اونچی آواز میں کرتے ہیں، کوئی سانس میں کرتے ہیں، کوئی دل میں کرتے ہیں۔ بزرگان دین اسی طرح سمجھاتے ہیں کہ اس ورد کو "اسم اعظم” سمجھ کر کرنا ہے۔ دوسرا الا بلا یا پریشانی کے وقت نہیں بلکہ خوشی و غمی ہر حالت میں کرنا ہے۔
اس پر ایک بندے نے پوچھا اس ذکر سے کیا ملے گا تو بزرگ نے کہا تم لوگ وہ ہو جو مرگ ہو یا میلاد ہو، صرف یہ پوچھتے ہو کھانے کو کیا ملے گا؟ اگر کھانا نہیں تو تمہاری مرگ بھی فضول اور تمہارا میلاد بھی فضول۔
پھر بزرگ نے فرمایا کہ ہر وقت جب اللہ کے نام کا ورد کیا جائے تو اللہ کریم سے تعلق جُڑ جاتا ہے اور بندہ مقام رضا کی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔
اس پر کسی نے پوچھا کہ یہ مقام رضا کیا ہوتا ہے، تو بزرگ نے فرمایا: اللہ کریم کا ذکر شروع کر دو جب مقام رضا پر پہنچو گے تو خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ مقام رضا ہے ورنہ کسی کی کیفیت یا واردات کو سُن کر تو مقام رضا کا مقام نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ پا سکتا ہے۔