قبولیت دعا
ایک گاوں میں ایک بزرگ تبلیغ کے لئے گئے تو وہاں کے ایک ڈاکو نے اُن کے ہاتھ چُومے اور کہنے لگا: آپ کے ساتھ یہ داڑھی والے دوست اللہ اللہ اللہ کے نعرے لگاتے اچھے لگتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ اللہ کے ولی ہیں۔ مہربانی کر کے میرے لئے دعا کریں کہ میرے اوپر جو مقدمے ہیں وہ ختم ہو جائیں اور فلاں فلاں کام میرے ہو جائیں۔
اُس بزرگ نے ہاتھ دُعا کے لئے اُٹھائے اور اللہ کریم سے خلوص کے ساتھ، اُس ڈاکو کے مقصد کے لئے دعا کردی اور ساتھ میں اللہ کریم کو عرض کر دی۔
اُس کے بعد وہ بزرگ واپس آ گئے اور تقریبا ایک سال بعد پھر اُس گاوں گئے تو وہ ڈاکو پھر آ گیا، گنا چُوس رہا تھا، بزرگوں کے سامنے بدتمیزی سے آ کر بیٹھ گیا اور گنا چُوس چُوس کر گند اُن کے سامنے زمین پر پھینک رہا تھا۔
کہنے لگا تم سے پچھلی دفعہ دُعا کے لئے کہا تھا مگر تمہاری دُعا مرے حق میں
قبول نہیں ہوئی۔ نہ جانے تم کیسے ولی اللہ ہو ، تمہاری دعائیں قبول ہی نہیں ہوتیں۔
ان بزرگوں نے بڑے پیار سے پہلے کہا کہ اللہ کریم ہماری ہر دُعا قبول کرتا ہے اور اللہ کریم نے میری بھی ساری دعائیں قبول کی ہیں، پھر ڈاکو کو سمجھانے کے لئے غصے سے کہا کہ تم نا جانے کیسے بد بخت اور منحوس ہو کہ تمہارے حق میں میری دعا قبول نہیں ہوئی۔
سب سے پہلے اپنی نحوست دور کرو کیونکہ تم نے اپنے پیشے سے ابھی تک توبہ نہیں کی اور چاہتے یہ ہو کہ تمہارے سارے کام تمہارے حق میں ہو جائیں۔ اُس پر ناراض ہو کر اُٹھ کر چلا گیا مگر ان بزرگوں نے اُس کے جانے پر کوئی توجہ نہ دی اور نہ ہی اپنے دوستوں کو اُس کی بدتمیزی پر غصہ کرنے دیا۔
اب ہر کوئی خود ہی جان سکتا ہے کہ دُعا کروانے کے لئے لہجہ اور دُعا قبول نہ ہونے پر لہجہ کیسا ہونا چاہئے۔ اللہ کے ولی کسی کے حق میں دُعا کر دیں تو لازمی نہیں کہ من و عن ویسے ہی قبول ہو جائے کیونکہ جسے اللہ کریم نے آزمانا ہو یا مشکل میں رکھنا ہو اُس پر دُعا اُسی وقت اثر نہیں کرے گی بلکہ جب اللہ کریم کی ڈیمانڈ پوری ہو جائے گی جو رب کریم اُس سے چاہتا ہے، اُس کے بعد اثر کرے گی۔
اپنی دعا یہی ہے کہ ہر دیکھنے والا، سننے والا، چاہنے والا بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جا کر اللہ کریم کا دیدار کرے۔