مُچھ نئیں تے کُجھ نئیں

مُچھ نئیں تے کُجھ نئیں

ہر ایک انسان کے کپڑے پہننے، داڑھی مونچھوں کے بال رکھنے، چہرہ خوبصورت بنانے کے انداز میں اپنا اپنا سٹائل ہے اور ایسے ہی اسلامی اسٹائل بھی ہیں مگر اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اسٹائل بیان کرتے ہیں: جو شخص مونچھیں نہیں کاٹتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (مشکوٰة ص:381)
امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقِ اعظم کی مونچھیں درمیان سے پست اور دائیں بائیں سے بڑھی ہوئی تھیں۔ حضرت ذر بن جیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سیدنا عمرکی مونچھوں کے بال دائیں بائیں سے کافی بڑھے ہوئے تھے اور اُن میں بھورا پن بھی تھا۔ (معرفۃ الصحابۃ، معرفۃ نسبۃ الفاروق، معرفۃ صفۃ عمر، ج1، ص69، الرقم:170۔ الاستیعاب ، عمر بن الخطاب، ج3، ص236)
سنن ابی داود 188: سیدنا مغیرہ بن شعبہ ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مہمان تھے، آپ کے پاس بھنے ہوئے پہلو کا گوشت لایا گیا، آپ نے چھری لے کر اسے کاٹنا شروع کیا اور میرے لئے بھی ایک ٹکڑا اس میں سے کاٹا، پھر بلال (رضی اللہ عنہ) آئے تاکہ آپ کو نماز کی اطلاع دیں تو آپ ﷺ نے چھری رکھ دی اور فرمایا: اسے کیا ہوا ہے؟ اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ اور اس (مغیرہ رضی اللہ عنہ) کی مونچھیں لمبی تھیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں مسواک رکھ کر تراش دوں؟ یا فرمایا: انھیں مسواک پر رکھ کر تراش لو۔
اسحاق بن عیسیٰ الطباع (ثقہ راوی) سے روایت ہے کہ میں نے (امام) مالک بن انس (رحمہ اللہ) کو دیکھا، ان کی مونچھیں بھر پور اور زیادہ تھیں، ان کی دونوں مونچھوں کے باریک سرے تھے، پھر میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: مجھے زید بن اسلم نے عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) سے کہ کوئی اہم معاملہ ہوتا تو عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے اور منہ سے پھونکیں مارتے تھے، پس انھوں نے مجھے حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد 2/ 1589، طبقات ابن سعد 3/ 326)
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) اپنی مونچھیں کترواتے تھے حتی کہ ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑتے تھے۔ (الاثرم بحوالہ تغلیق التعلیق 72/5، و علقہ البخاری فی صحیح قبل ح 5888)
صحیح بخاری 5888: بحوالہ ابن عمرکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”مونچھ کے بال کتروانا پیدائشی سنت ہے۔
امام سفیان بن عیینہ المکی رحمہ اللہ مونچھوں کو اُسترے سے مونڈتے تھے۔ (التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ص 378۔ 379 ح 387)
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: مونچھوں میں سے کچھ کاٹنا چاہئے تاکہ ہونٹ کا کنارہ ظاہر ہو جائے اور یہ وہ کنارہ ہے جو منہ کی طرف سے ہونٹوں کو گھیرے ہوتا ہے اور انھیں پورا کاٹ نہ دے (یعنی استرے سے نہ مونڈوائے) ورنہ پھر وہ اپنا مثلہ کرنے والا بن جائے گا۔ (موطأ امام مالک 922/2 ح 1775)
بہتر یہی ہے کہ مونچھیں استرے سے نہ مونڈوائے بلکہ قینچی وغیرہ سے کاٹے، حتی کہ چمڑا نظر آنے لگے اور اگر ہونٹوں کے اوپر سے کاٹ کر باقی مونچھیں بڑھا لے تو بھی جائز ہے۔
عبید بن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدنا) عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ آپ مونچھیں کاٹ کر (بالکل) صاف کر دیتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’رأیت النبي ﷺ یحفی شاربہ‘‘ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے، آپ مونچھیں کاٹ (کر صاف کر) دیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد 1/ 449)
مونچھ کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائے، شرعاً درست نہیں ہے۔ پانی پیتے ہوئے مونچھوں کے بے دْھلے بال گلاس کے پانی میں لگے تو پانی مْستَعمَل ہو گیا اس کا پینا مکروہ ہے۔ اگر با وْضو تھا یا مونچھیں دْھلی ہوئی تھیں تو شرعاً حَرَج نہیں۔ استرا لگانا بھی بہتر نہیں ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general