سیدنا حذیفہ بن یمان
سیدنا حذیفہ، والد کا نام حسیل لیکن مشہور یمان نام سے تھے اور جنہوں نے ہجرت نبوی سے قبل مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جا کر اسلام قبول کیا۔
آپ ﷺ نے ایک بار سیدنا حذیفہ سے پوچھا: تم مہاجرین کے زمرہ میں شامل ہونا چاہتے ہو یا انصار میں؟ انھوں نے انصاری ہونے کوترجیح دی۔
بہن بھائی: ابو عبداللہ حضرت حذیفہ کی کنیت ہے۔ حضرت سعد (یا سعید )، حضرت صفوان، حضرت مدلج، حضرت ابوعبیدہ، حضرت حذیفہ کے چار بھائی اور حضرت لیلیٰ، حضرت فاطمہ اور حضرت ام سلمہ ان کی تین بہنیں تھیں ۔ ان کے بیٹوں کے نام ہیں: ابو عبیدہ، بلال، صفوان اور سعید۔
بھائی بھائی: مدینہ آمد کے بعد نبی محترم ﷺ نے 45 مہاجرین مکہ کو 45 انصار مدینہ کا بھائی قرار دیا۔ حضرت حذیفہ بن یمان کی مواخات حضرت سلمان فارسی سے قائم فرمائی۔
غزوہ بدر: غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے معاہدے کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔ (صحیح مسلم 4639)
غزوہ احد: سیدنا حذیفہ اور ان کے بھائی حضرت صفوان نے غزوہ احد میں حصہ لیا۔ حضرت حذیفہ کے والد حضرت حسیل یمان کو لاعلمی میں مسلمانوں نے شہید کر دیا۔ (صحیح بخاری 3290)۔ رسول اکرم ﷺ نے حضرت حسیل کی دیت دینا چاہی لیکن حضرت حذیفہ نے مسلمانوں پر صدقہ کر دی۔ اس طرح آپ ﷺ کی نظر میں ان کی قدر بڑھ گئی۔
غزوہ خندق: سیدنا حذیفہ کو رسول اللہ نے جاسوس بنا کر مشرکین مکہ کی جاسوس کے لئے دُعا دے کر بھیجا تو سخت سردی میں ان کو ایسے لگا جیسے گرم لحاف اوڑھے ہوئے ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور سب حال کہہ دیا اس وقت سردی معلوم ہوئی (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپ ﷺ نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا جس کو اوڑھ کر آپ ﷺ نماز پڑھا کرتے تھے میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سوتا رہا جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اٹھ بہت سونے والے۔ (صحیح مسلم 4640)
غزوۂ تبوک: منافقین نے تبوک سے واپسی پر حضور ﷺ کو ایک گھاٹی سے گرانے کا پروگرام بنایا جو حضرت حذیفہ نے ناکام بنا دیا۔ (المعجم الکبیر، طبرانی 3015)۔
نبی کریم ﷺنے حضرت حذیفہ سے پوچھا: کیا تم نے منافقین کو یا ان میں سے کسی کو پہچانا؟ حضرت حذیفہ نے کہا:میں نے فلاں فلاں کی سواری پہچان لی۔ آپ ﷺ نے حضرت حذیفہ کو ان بارہ یا چودہ آدمیوں کے نام بتا دیے اور صیغۂ راز میں رکھنے کا حکم دیا۔ (احمد 23682)
صحیح مسلم 7137: یہ بارہ منافق جنت میں ہر گز داخل نہ ہوں گے، حتیٰ کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گزر جائے، آٹھ کے شر سے تم مسلمانوں کو دبیلہ بچادے گا، یہ آگ کا چراغ (سلگتا ہوا پھوڑا) ہو گا جو ان کے کندھوں سے نمودار ہو گا اور چھاتیاں توڑکر باہر نکل آئے گا۔
گھاٹی کے منافقین: زبیر بن بکار نے منافقین کے نام (1) معتب بن قشیر (2) ودیعہ بن ثابت (3) جِد بن عبداللہ (4) حارث بن یزید (5) اوس بن قیظی (6) جلاس بن سوید (7) سعد بن زرارہ ( قیس بن قہد (9) سوید (10) داعس (11) قیس بن عمرو (12) زید بن لصیت (المعجم الکبیر، طبرانی 3017)۔
ابن اسحاق نے یہ نام بتائے ہیں: عبداللہ بن ابی، سعد بن ابی سرح، ابوحاضر اعرابی، عامر، ابوعامر، جلاس بن سوید، مجمع بن جاریہ، فلیح تمیمی، حصین بن نمیر، طعمہ بن ابیرق، عبداللہ بن عیینہ اورمرہ بن ربیع۔ ان میں سے عبداللہ بن ابی نے تبوک کا رخ ہی نہیں کیا (دلائل النبوۃ،بیہقی ۵/ ۲۵۸)۔
عہد فاروقی: 14ھ میں سیدنا عمر نے حضرت حذیفہ بن یمان کوکوفہ کی مہم پر بھیجا۔ قادسیہ کی لڑائی میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے ساتھ تھے۔ مدائن میں حضرت حذیفہ نے ایک اہلکتاب عورت سے نکاح کر لیا۔ حضرت عمر نے لکھا: تمھارا نکاح حلال ہے، لیکن عجمی عورتوں میں اس قدردل ربائی ہے کہ وہ تمھاری دوسری بیویوں پر غالب آ جائیں گی۔ تب حضرت حذیفہ نے اس عورت کو طلاق دے دی اورجواب دیا: بات میری سمجھ میں آ گئی ہے۔ حضرت حذیفہ نے نصیبین میں سکونت اختیار کی تووہیں نکاح کر لیا۔
نہاوند کے مقام پر لڑائِ: 19ھ میں نہاوند کے مقام پر حضرت نعمان بن مقرن کے ساتھ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ابو موسی اشعری کو بھیجا۔ حضرت نعمان نے لڑائی میں پہل کی اور کہا: اگر میں شہید ہو جاؤں تو حذیفہ بن یمان لیڈر ہوں گے۔ شدید لڑائی میں حضرت نعمان کا گھوڑا میدان میں بکھرے ہوئے خون سے پھسلا اور وہ گر گئے۔ اسی اثنا میں دشمن کا ایک تیر ان کو آلگا اور انھوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان سے علم دوسرے بھائی حضرت نعیم بن مقرن نے تھام لیا، ان سے حضرت حذیفہ بن یمان نے لے لیا اور حضرت نعمان کی ہدایت کے مطابق کمان سنبھال کر فتح پائی۔ اسی طرح ہمدان، ماہین اور ماہ دینار کی فتح حاصل کی۔
مدائن کی گورنری: حضرت حذیفہ حضرت عمر کی وفات تک مدائن کی گورنری پر فائز رہے۔
نفاق اورحضرت عمر: حضرت عمر نے حضرت حذیفہ کو قسم دے کر پوچھا کہ میرا نام ان منافقین میں تو شامل نہیں جن کی خبر رسول اللہ ﷺ نے تمھیں دی؟ حضرت حذیفہ نے بتایا کہ نہیں ،ساتھ کہا کہ میں آپ کے بعد کسی کو بری قرارنہ دوں گا تاکہ نبی ﷺ کا راز فاش کرنے والا نہ بن جاؤں ۔ حضرت عمر نے یہ بھی پوچھا: کیا میرے عمال میں سے کوئی منافق ہے؟حضرت حذیفہ نے کہا: ہاں ایک ہے، لیکن نام نہ بتایا۔ کچھ دنوں کے بعدحضرت عمر نے اس عامل کو معزول کر دیا، گویا انھیں پتا چل گیا تھا۔ حضرت عمر کا طریقہ تھا کہ جب کوئی میت جناز ے کے لیے لائی جاتی تو دیکھتے کہ حضرت حذیفہ موجود ہیں، اگر وہ ہوتے توجنازہ پڑھا دیتے اور اگر حضرت حذیفہ نہ ہوتے تو وہ نماز جنازہ میں شامل نہ ہوتے۔
زید بن وہب حضرت حذیفہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ انھوں نے بتایاکہ منافقین میں سے اب چارہی باقی رہ گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک اتنا بوڑھا ہے کہ اگر ٹھنڈا پانی پی لے تواسے اس کی ٹھنڈک ہی محسوس نہ ہو(صحیح بخاری 4658)
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں: آج (زمانۂ خلافت ابوبکر و عمر ) کے منافقین نبی کریم ﷺ کے عہد کے منافقوں سے بدتر ہیں ۔ تب وہ رازداری سے کام لیتے تھے اور اب یہ اپنی سرگرمیاں علانیہ کرتے ہیں (بخاری 7113)
ایک شخص نے حضرت حذیفہ سے سوال کیا:کون سا فتنہ شدید ترین ہے؟انھوں نے جواب دیا: یہ کہ تمھاراسامنا خیر و شر سے ہو اور تمھیں سمجھ نہ آئے کہ کس کو اختیار کروں۔
حضرت حذیفہ مدائن میں تھے تو لوگوں کو و ہ باتیں بتا دیتے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کو ناراض ہو کر کہی تھیں ۔ ان لوگوں نے حضرت سلمان فارسی سے ذکر کیا توانھوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا: ان باتوں کا حذیفہ ہی کوزیادہ علم ہو گا۔ تب حضرت حذیفہ حضرت سلمان فارسی سے ملنے ان کے کھیت میں گئے اور پوچھا: آپ میرے بتائے فرامین رسول کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔ حضرت سلمان نے کہا:رسول اکرم ﷺ اپنے صحابہ سے ناراض بھی ہوتے تھے اور خوش بھی۔ مختلف مواقع پر کیے گئے آپ کے تبصروں کو بیان کر نے سے کچھ صحابہ سے محبت بڑھے گی او رکچھ سے بغض جنم لے گا،اس طرح امت افتراق و انتشارکا شکار ہو جائے گی۔ آپ ایسا کرنا چھوڑیں، نہیں توعمر کو لکھ بھیجوں گا۔ بعد میں یہ معاملہ سلجھ گیا (ابوداؤد 4659)
وفات:حضرت سیّدنا عثمان غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی شہادت کے چالیس دن بعد (غالباً 28) محرم الحرام 36ہجری کو مدائن (سلمان پاک) میں ہوا، یہیں آپ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کا مزارِ پُراَنوار ہے۔(بغیۃ الطلب،ج 5،ص2176، مراٰۃ المناجیح،ج 1،ص80)
جسم سلامت: غالباً 20 ذو الحجۃ الحرام 1351 ہجری کےدن قبر میں نمی آجانے کے باعث حضرت سیّدنا حذیفہ اور حضرت سیّدنا جابر رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُما کے اَجسا مِ مبارکہ کی منتقلی ہوئی تو پوری دنیا سے آنے والے لاکھوں زائرین نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دونوں اصحاب ِ رسول رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُما کے اجسامِ مقدّسہ اور پاکیزہ کفن یہاں تک کہ داڑھی مبارَک کے بال تک بالکل صحیح سلامت تھے۔ اجسامِ مقدسہ کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید انہیں رحلت فرمائے ہوئے دو تین گھنٹے سے زائد وقت نہیں گزرا۔ (قبر کھل گئی، ص 14،15ملخصاً)