الزام
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے 12 منافقین کے نام بتائے ہوئے تھے تو سیدنا خذیفہ ایک جنازے میں شریک نہ ہوئے تو سیدنا عمر نے پوچھا: کیا یہ شخص منافقین میں سے تھا؟ تو حضرت حذیفہ نے کہا: جی، تو حضرت عمر نے ان کو قسم دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا میرا نام منافقین میں شامل ہے؟ تو حضرت حذیفہ نے فرمایا: نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبتہ 7/481)
الزام: اہلتشیع حضرات پوری حدیث نہیں سنائیں گے بلکہ یہاں سے بات گُھما دیں گے کہ اگر کچھ منافقت نہ کی ہوتی تو ان سے نہ پوچھتے۔ اہلسنت کے پاس تو سیدنا عمر کے ہزاروں فضائل ہیں اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ احادیث کی شرح کسطرح کرنی ہے، اسلئے اہلتشیع حضرات جاہل کو گمراہ کر سکتے ہیں:
سیدنا عمر کا یہ سوال کرنا ضعف ایمان کی وجہ سے نہیں بلکہ خوف خدا کی وجہ سے تھا جیسے: صحیح مسلم 6966: سیدنا حنظلہ سیدنا ابوبکر سے ملے اور کہنے لگے: حنظلہ تو منافق ہو گیا (یعنی بے ایمان)۔ اسلئے کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ دوزخ اور جنت ہمارے سامنے ہیں مگر جب ہم وہاں سے نکل کر بیبیوں، اولاد اور کاروبار میں مصروف ہو جاتے ہیں تو بہت بھول جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکرمیرا بھی یہی حال ہے، پھر دونوں حضور ﷺ کے پاس پہنچے اور خود کو منافق کہہ کر ساری بات بتائی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم سدا اسی حال پر ذکر کرتے رہو تو فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور راستوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنطلہ! ایک ساعت دنیا کا کاروبار اور ایک ساعت یاد پروردگار۔“ تین بار یہ فرمایا۔
اب سیدنا خذیفہ کی یہ روایت بھی سُن کر سمجھیں۔ صحیح بخاری 7096: سیدنا عمر نے سیدنا خذیفہ سے اس فتنہ کے بارے میں پوچھا جو دریا کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا۔ سیدنا حذیفہ نے عرض کہ امیر المؤمنین آپ پر اس کا کوئی خطرہ نہیں اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ رکاوٹ ہے۔ سیدنا عمر نے پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ بیان کیا توڑ دیا جائے گا۔ سیدنا عمر نے اس پر کہا کہ پھر تو وہ کبھی بند نہ ہو سکے گا۔ میں نے کہا جی ہاں۔ ہم نے سیدنا حذیفہ سے پوچھا: کیا سیدنا عمر اس دروازہ کے متعلق جانتے تھے؟ فرمایا کہ ہاں، جس طرح میں جانتا ہوں کہ کل سے پہلے رات آئے گی کیونکہ میں نے ایسی بات بیان کی تھی جو بے بنیاد نہیں تھی۔ ہمیں ان سے یہ پوچھتے ہوئے ڈر لگا کہ وہ دروازہ کون تھے۔ چنانچہ ہم نے مسروق سے کہا (کہ وہ پوچھیں) جب انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ دروازہ سیدنا عمر تھے۔
اس مسئلہ پر شیعہ کتا ب اصول کافی کتاب ایما ن و کفر باب تنقل احوال القلوب میں ہے: امام صادق کہتے ہیں صحابہ نے رسول خدا ﷺ سے عرض کیا کہ ہم بار بار اپنے اوپر نفاق کا خوف کھاتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے اوپر نفاق کا خوف کیوں کھاتے ہو، صحابہ نے کہا کہ آپ کے ساتھ ہوتے ہیں تو ایمان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جنت آنکھوں سے دیکھتے ہیں پھر آپ علیہ السلام کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہماری کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے یا رسول اللہ ہم اس پر نفاق کا خوف کھاتے ہیں ۔جس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ سب شیطان کی چالیں ہیں وہ تمہیں دنیا کی طرف بلاتا ہے اگر تمہاری پہلی والی کیفیت ہمیشہ قائم رہے تو تمہارے قدم پانی پر چلنے لگیں فرشتے راستون پر تم سے مصافحہ کریں۔
اس روایت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ صحابہ کو مختلف کیفیات سے گزرنا پڑتا تھا اس پر انہیں خوف غالب آجاتا تھا تو وہ کہ دیتے تھے کہ ہم منافق ہو گئے جس کی رسول اللہ نے نفی فرمائی اور اس کو مختلف کیفیات سے تعبیر کیا جو کہ بدلتی رہتی ہیں اور وہ آدمی منافق ہر گز نہیں ہوتا اور پھر روایت فاروق اعظم تو ان روایا ت کی طرح اقرار نفاق پر مبنی نہیں ہے۔
نتیجہ: اہلتشیع ایک بے بنیاد دین ہے جس نے پنجتن سے کوئی روایت نہیں لی بلکہ اہلسنت کی کتابوں سے چوری کر کے امام جعفر کے نام سے اپنی مرضِ سے منسوب کر کے ایک نیا دین بنا لیا جس میں نبی اکرم کے اصحاب نہیں ہیں اور سیدنا علی پر پہلا امام ہونے کا بہتان اور 12 امام کا منگھڑت عقیدہ ہے۔
اہلسنت کو بے دار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ لاکھوں فتنے پیدا ہو چُکے ہیں اور ہم خود خاموش فتنہ نہ بنیں۔