قدرت اور کرامت
اللہ کریم اپنی قدرت کے نمونے بغیر اسباب کے اور اسباب کے ساتھ کچھ یوں بیان کرتا ہے:
1۔ خانہ کعبہ میں پڑے 360 بُتوں کے باوجود، اپنے گھر کی حفاظت کے لئے، ابرہہ کا لشکر سورہ فیل کی ابابیلوں کے ہاتھوں ہاتھیوں کو مروا دیتا ہے۔
2۔ سورہ بقرہ: سیدنا عزیر علیہ السلام کو 100 سال سُلائے رکھتا ہے۔
3۔ سورہ کہف: غار والوں کو تقریبا 309 سال تک سُلائے رکھا۔
4۔ سورہ آل عمران: سیدنا عیسی علیہ السلام مٹی سے پرندہ بنا کر زندہ کر دیتے ہیں، پیدائشی اندھے کو آنکھیں عطا کر دیتے ہیں، برص والوں کا برص ٹھیک کر دیتے ہیں وغیرہ
5۔ سورہ آل عمران کی سیدہ مریم کو بن موسم کے پھل ملتے تھے۔
6۔ سورہ کہف کے یتیم بچوں کے لئے دیوار انبیاء کرام سے سیدھی کروا کر خزانہ رکھا جاتا ہے۔
7۔ احادیث کے مطابق دجال کے پاس بھی بڑی قوتیں ہوں گی جس سے وہ انسانوں کو گمراہ کرے گا۔
نتیجہ: آجکل کے سائنسی ماحول میں پلنے والے جو اولیاء کرام کی کرامات کے مُنکر ہیں، ان کے لئے چیلنج ہے کہ کرامت کو چھوڑیں، اپنے رب کی قدرت پر ایمان لاتے ہوئے، اللہ کریم سے مانگیں کہ ہمارے پاکستان کے حالات بہتر بنا دے۔
یہ اسلئے کہ جیسے ہر ولی سے کرامت مانگتے پھرتے ہیں کہ کر کے دکھاو، اسی طرح اپنے رب کی قدرت کو بھی کہیں کہ کر کے دکھاو ورنہ جو بات قدرت کے لئے ہو گی وہی جواز کرامت کے لئے بھی ہو گا۔ کسی کی کرامت نہ مانیں کوئی گناہ نہیں مگر کرامت کا انکار قرآن کا انکار ہے۔
سوال: اللہ کریم وہی ہے جس کے حُکم سے سب کُچھ ہوتا ہے تو کچھ سوال یہ ہیں:
1۔ کیا اللہ کریم کی قدرت بغیر اسباب کے اور اسباب کے ساتھ اپنے بندوں کو اب بھی موجودہ حالات میں غیر مرئی اسباب کے ذریعے کام کروا سکتی ہے؟
2۔ اگر کروا سکتی ہے تو اُس غیر مرئی اسباب کو جو بندوں کے ذریعے ہو اُس کو کرامت کہیں گے یا کچھ اور نام دیں گے؟
3۔ اگر کرامت بر حق ہے تو مُنکر کرامت سے سر زد کیوں نہیں ہو رہی؟
4۔ جھوٹی کرامات بیان کرنے والوں کو لع نت کی وعید ہی کافی ہے۔