دس محرم
اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا’’بارہ مہینے‘‘ ہیں، ان میں چار مہینے (ذی القعد، ذی الحج، محرم اور رجب)حُرمت والے ہیں، یہ سیدھا دین ہے توان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں (التوبہ۔36) ماہِ حرام کے بدلے ماہِ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے جو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اسنے کی اوراللہ سے ڈرتے رہو۔(البقرۃ۔194)
ان چارمہینوں کو’’ حرام‘‘ قرار دینے کی اصل وجہ اللہ تعالی ہی جانتے ہیں کیونکہ قرآن پاک میں کوئی واضح حُکم نہیں ہے۔
یوم عاشورہ: سیّدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ سے یوم عاشوراء کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃ ’’یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 1162)
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے ان سے (روزہ رکھنے کی) وجہ دریافت کی تو انھوں نے کہا: یہ ایک اچھا دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی، موسیٰ نے بھی اس (دن) کا روزہ رکھا تھا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’موسیٰ کے ساتھ (مناسبت کے اعتبار سے) میں زیادہ حق رکھتا ہوں۔‘‘تو آپ ﷺ نے روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔(صحیح البخاری: 2004، صحیح مسلم: 1130)
جمہور کے نزدیک یوم عاشوراء سے مراد ماہ محرم کا دسواں دن ہے۔ شرح صحیح مسلم للنووی (12/8)
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’رمضان کے بعد افضل روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم: 1163)
ابتدائے اسلام میں یوم عاشوراء کا روزہ فرضیت کا درجہ رکھتا تھا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ساقط ہوگئی تاہم فضیلت برقرار ہے۔
یہودیوں کی مخالفت: رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا (تو صحابہ کرام نے) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ یہود و نصاریٰ کی تعظیم و تکریم کا دن ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آیندہ سال ہم ان شاء اللہ 9 محرم کا روزہ رکھیں گے۔(صحیح مسلم: 1134)
سوگ: 10محرم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ سوگ تین دن کا ہوتا ہے اسلئے اہلسنت نوحہ ، ماتم وغیرہ نہیں کرتے۔
نوحہ ماتم: جناب احمد رضا خاں صاحب(بریلوی) نے فرمایا ’’نوحہ ماتم حرام ہے، بیان شہادتِ حسین ناجائز طور پر جاہلوں میں رائج ہے خود ہی ممنوع ( فتاوی رضویہ جلد نمبر24صفحہ نمبر488) ذکر شہادت شریف جس طرح عوام میں رائج ہے جس سے تجدید حُزن و نوحہ باطلہ مقصود اور اکاذیب و موضوعات سے تلویث موجود حرام ہے(فتاوی رضویہ جلد23 صفحہ نمبر739)
سوال کیا گیا کہ(1)بعض سنت جماعت عشرہ10محرم الحرام کو نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ (2)ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے ہیں۔(3) ماہ محرم میں بیاہ شادی نہیں کرتے ہیں۔ فرمایا’’تینوں باتیں سوگ ہیں اور سو گ حرام ہے‘‘ ۔( فتا وی رضویہ جلد 24ص نمبر488)سوال:محرم کے مہینے میں مر ثیے سننا، ما تم کر نا یا دیکھنا، گھو ڑا دیکھنا ، شیعہ کے گھر کا کھا نا اور ان کی مجالس میں جا نا کیسا ہے؟ فرمایا’’ ناجائز ہے۔
محرم میں شادی: محرم میں چاہے نکاح کوئی نہ کرے لیکن یہ نہ کہے کہ منع ہے کیونکہ منع وہی ہوتا ہے جو قرآن و احادیث سے ثابت ہو۔اسلئے اہلسنت امام جناب احمد رضا خاں صاحب(بریلوی) سے سوال کیا گیا کہ ماہِ محرم الحرام و صفر المظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں تو فرمایا کہ’’نکاح کسی مہینے میں منع نہیں‘‘ (فتاوی رضویہ جلد 11 ص نمبر265) ایک اور سوال کے جواب میں کہ ماہِ محرم اور خصوصاََ ۹ تاریخ ماہِ مذکورہ کی شب میں نکاح کرنا جائز ہے فرمایا ’’جائز ہے‘‘( جلد23 ص نمبر193)
بیوی اور گوشت: بیوقوف والدین اپنی نئی شا دی شد ہ بیٹی کو گھر لے آ تے ہیں کہ محرم میں میا ں بیوی اکٹھے نہیں رہتے۔افواہ یہ ہے کہ محر م کے مہینے میں قر با نی کا گو شت نہیں کھا یا جا سکتا ہے مگر ثبوت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آئے تو حضرت فاطمہرضی اللہ عنہاان کے پاس قربانی کا گوشت لائیں۔آپ نے فرمایا کہ کیا نبی کریمﷺ نے قربانی کا گوشت رکھنے سے منع نہیں فرمایا ؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی کریمﷺ نے اجازت دے دی ہے۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ذی الحج سے اگلے ذی الحج تک اسے کھا سکتے ہیں یعنی ایک سال تک (مسند احمد جلد 12صفحہ 14)
فقیر: جناب احمد رضا خاں صاحب نے فرمایا کہ امام حسین کا فقیربن کر بلا ضرورت و مجبوری بھیک مانگنا حرام اور ایسوں کو دینا بھی حرام اس لیے کہ یہ گناہ کے کام پر دوسرے کی امداد کرناہے اور حدیث میں آیا ہے کہ ’’گناہ کے کام میں کوئی نذر نہیں‘‘ (ابو داؤد)(فتاوی رضویہ جلد نمبر 24صفحہ 493)
معجزہ: بی بی فاطمہ، بی بی زینب اور دیگر اہلبیت رضی اللہ عنھم کے نام پر جھوٹے واقعات “معجزہ” کے نام سے مل جاتے ہیں، ان کا پڑھنا بھی گناہ ہے۔
قبر اور مٹی: قبر پر جانا، دُعا کرنا، تلاوت کرنا منع نہیں ہے لیکن 9 یا 10 کو اہلسنت عوام بھی لازماً قبرستان جانا شروع ہو گئے اور منع کرنے پر اہلسنت کو وہابی کہتے ہیں، یہ وہ جاہل ہیں جن سے اہلسنت علماء بھی ڈرتے ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کےلیے لحد (جو ایک طرف بنائی جاتی ہے) بنائی گئی ہے، اس پر کچی اینٹیں نصب کی گئیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے تقریباً ایک بالشت بلند کی گئی۔‘‘صحیح ابن حبان (۶۶۳۵)
اپنے والدین یا رشتے داروں کی قبروں کو اونٹ کی کوہان کی طرح بنا کر “ایک بالشت” بلند کریں، اس سے زیادہ نہیں( اپنے دونوں ہاتھوں کی دس انگلیوں کو اکٹھا رکھیں اسے ایک بالشت کہتے ہیں یعنی پنجابی میں ایک گِٹھ، تقریباٌ 9 انچ)۔
محرم کے مہینے میں خاص طور پر10اور9 محرم کو صبح سویرے ٹرالیاں قبرستان کے باہر آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں، کئی مسلمان مفت مٹی دینے کا بھی بندوبست کرتے ہیں اور اسے ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بدعت، خلافِ سُنت، وقت اور پیسے کا ضیاع، غلط رسم ڈالنے کا گناہ اور عذاب ہے۔
اس محرم میں اہلسنت اس بدعت کو ختم کریں اور جن کی قبریں ایک بالشت سے زیادہ ہوں وہ مٹی کم کر کے ایک بالشت کی جائے اور جن کی قبر کی مٹی ایک بالشت سے کم ہو اس قبر کو ایک بالشت کے برابر کیا جائے۔جناب احمد رضا خاں(بریلوی) صاحب نے فرمایا کہ ’’(قبر) اور بلندی ایک بالشت(ایک گِٹھ) سے زیادہ نہ ہو‘‘’’صرف بالشت بھر‘‘(فتاوی رضویہ جلد نمبر 9صفحہ نمبر 372 425-)۔ اور بے حاجت پانی کا ڈالنا ضائع کرنا ہے اور پانی ضائع کرنا جائز نہیں،اور عاشورہ کی تحصیص محض بے اصل و بے معنی ہے‘‘ (فتاوی رضویہ جلد نمبر9ص373) 2۔ قبراگرپختہ ہے اس پرپانی ڈالنا فضول اوربے معنی ہے یونہی اگرکچی ہے اور اس کی مٹّی جمی ہوئی ہے ہاں اگر کچی ہے اور مٹّی منتشر ہے تو اس کے جم جانے کو پانی ڈالنے میں حرج نہیں جیساکہ ابتدائے دفن میں خود سنت ہے۔(جلد 9ص609)