Mubahila Aur Muahida (مباہلہ اور معاہدہ)

مباہلہ اور معاہدہ (عید مباہلہ)


9ہجری میں نجران سے عیسائی میشنری کا بڑا وفد آیا۔ حضورﷺ نے ان کو تبلیغ کی مگر وہ نہ مانے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تم کہتے ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں یا تم عقیدہ تثلیث پر یقین رکھتے ہو تو آؤ ہم سے مباہلہ کر لو اس پر انہیں یہ آیت مباہلہ سنائی گئی: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآئَکُمْ وَنِسَآئَناَ وَنِسَآئَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ.’’پھر اے محبوب جو تم سے عیسی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آ چکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کریم کی لعنت ڈالیں ( آل عمران 61)
مشورہ: یہ آیت سننے کے بعد انہوں نے مشورہ کیا کہ آخری نبی کے آنے تذکرہ تو ہماری کتابوں میں موجود ہے، اسلئے اگر یہ وہی نبی ہیں تو ہمارا دین اُجڑ جائے گا، اسلئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ معاہدہ کریں گے۔ ادھر حضورﷺ حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین رضی اللہ عنھم کو فرما رہے تھے کے جب میں ان کے لئے بد دُعا کروں تو تم نے امین کہنا ہے۔الزام: اہلتشیع حضرات کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی کوئی اور بیٹی ہوتی تو مباہلے میں جاتی تو اس پر اس پیج کی پوسٹ ”اہلتشیع اور حضورﷺ کی چار بیٹیاں“ اور اہلسنت کی کتابوں سے ”بنات رسولﷺ“ کا لنک مانگ سکتے ہیں مگر اہلتیشع اپنی کتابوں، علماء، احادیث اورآخر میں قرآن کے بھی منکر نکلیں گے کیونکہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
شان نزول: ادھر حضورﷺ، حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین رضی اللہ عنھم کو فرما رہے تھے کے جب میں ان کے لئے بد دُعا کروں تو تم نے امین کہنا ہے۔ اسلئے اس آیت میں اہلبیت شامل ہیں جیسے اس آیت وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔ (توبہ 100)
السابقین الاولین: (1) حضرات خدیجہ بنت خویلد (2) علی بن ابی طالب (3) ابوبکر صدیق (4) زید بن حارثہ (5) عثمان بن عفان (6) الزبیر بن عوام (7) سعد بن ابی وقاص (😎 طلحہ بن عبیداللہ (9) عبدالرحمن بن عوف (10) ابوعبیدہ بن جراح (11) ابو سلمہ بن عبدالاسد مخزومی (12) ارقم بن ابی ارقم (13) عثمان بن مظعون (14) عبیدہ بن حارث (15) سعید بن زید بن عمرو (16) اسماء بنت ابو بکر (17) خباب بن ارت (18) عمیر بن ابی وقاص (19) عبداللہ بن مسعود (20)مسعود بن ابی ربیعہ (21) سلیط بن عمرو بن عبدشمس (22) عیاش بن ابی ربیعہ (23) ان کی بیوی اسماء بنت سلامتہ (24) خُنیس بن حذافہ (25) عامر بن ربیعہ (26) عبداللہ بن جحش (27) جعفر بن ابی طالب (28) ان کی بیوی اسماء بنت عمیس (29) حاطب بن حارث (30) اور ان کی بیوی فاطمہ بنت المجلل (31) اور بھائی خطاب بن حارث (32) اور اس کی بیوی فکیہہ بنت یسار (33) اور بھائی معمر بن حارث (34) سائب ولد عثمان بن مظعون (35) مطلب بن ازھر (36) اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف (37) نحام نعیم بن عبداللہ (38) عامر بن فہیرہ مولی صدیق اکبر (39) خالد بن سعید بن العاص (40) اور ان کی بیوی امیمہ بنت خلف (41) حاطب بن عمرو (41) ابو خذیفہ بن عتبہ (42) واقد بن عبداللہ (43) خالد بن البکیر (44) اور بھائی عامر بن البکیر (45) بھائی عاقل بن البکیر (46) بھائی ایاس بن البکر (47) عمار بن یاسر (48) صہیب بن سنان (49) ابو ذر جندب (50) ابو نجیح عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنھم۔ یہ پچاس پہلے ایمان لانے والوں سے ہیں ان پر سلام ہو۔

معاہدہ: بخاری حدیث 4380میں ہے کہ وفد نجران کے دو عیسائی سرداروں نے مباہلہ سے انکار کر کے کہا کہ ہم آپ سے صلح کرتے ہیں۔۔آپ ہمارے ساتھ ایسا شخص بھیجیں جو بہت امین ہو (تاکہ وہ ہم سے جزیہ لے، ہم پر ایمانداری سے حکومت کرے احکام نافذ کرے اور کوئی مسلمان ہم سے جنگ نہ کرے)۔ آپﷺنے فرمایا کہ میں بہت ہی امین شخص کو تمہارے ساتھ بھیجوں گا۔۔تمام ا صحاب اس منصف کے شرف کو حاصل کرنے کی خواہش کرنے لگے۔۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ کھڑے ہو جاؤ۔ جب ابو عبیدہ کھڑے ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے امت کے امین ہیں۔

کاتب: سیدنا علی نے فرمایا آپ ﷺ اور عیسائی حضرات کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ میں نے لکھا (ابوداود 3040) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں اور باقی رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور ضرورت (پوری ہو جانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریتاً دینا اس وقت ہو گا جب یمن میں کوئی فریب کرے یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے، اس شرط پر کہ ان کو کوئی گرجا نہ گریا جائے گا اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تکہ کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔۔ (ابوداود 3041)

ابو داؤد کی روایت 3040میں حضرت علی رضی اللہ عنہ وفد نجران کے متعلق فرماتے ہیں: میں نے معاہدہ لکھا تھا جو آپﷺ اور ان کے درمیان ہوا تھا۔ ابو داؤد روایت 3041کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اہل نجران سے اس شرط پر صلح کی کہ وہ کپڑوں کے دو ہزار جوڑے مسلمانوں کو دیا کریں گے، آدھا صفر میں دیں اور باقی رجب میں، اور تیس زرہیں، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ اور ہر قسم کے ہتھیاروں میں سے تیس تیس ہتھیار جس سے مسلمان جہاد کریں گے بطور عاریت دیں گے اور مسلمان ان کے ضامن ہوں گے اور ضرورت (پوری ہو جانے پر) انہیں لوٹا دیں گے اور یہ عاریتاً دینا اس وقت ہو گا جب یمن میں کوئی فریب کرے یا مسلمانوں سے غداری کرے اور عہد توڑے، اس شرط پر کہ ان کو کوئی گرجا نہ گریا جائے گا اور کوئی پادری نہ نکالا جائے گا اور ان کے دین میں مداخلت نہ کی جائے گی، جب تکہ کہ وہ کوئی نئی بات نہ پیدا کریں یا سود نہ کھانے لگیں۔۔

ابو داود کی دونوں روایات ضعیف ہیں مگر امام بخاری کے استاد کتاب المصنف روایت 37017 سے یہ ضعف دور ہو گیا کہ حضورﷺ نے ان سے معاہدہ کیا تھا جو لکھوایا بھی، اس میں لکھا تھا کہ عیسائیوں کو جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔۔ اہل نجران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم میں بہت انتشار و حسد پیدا ہو گیا ہے،ہمیں جلا وطن کر دیں۔۔ حضرت عمر نے موقعہ غنیمت جان کر جلا وطن کر دیا۔

تجزیاتی رپورٹ

1۔ اہلبیت اور صحابہ کرام کا دین ایک تھا مگر اہلتشیع حضرات کے پاس نبوت کو کوئِ تعلیم نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک نبوت ختم اور اس کے بعد امامت شروع ہوئی۔ اس پر اہلتشیع حضرات سے سوال پوچھیں تو جواب نہیں دیتے:
نبوت کی کونسی تعلیم تھی اورسیدنا امام علی نے کونسی تعلیم دی۔ نبوت و امامت کی ایک تعلیم تھی تو نبوت نے کونسے مسلمان کئے اور امامت نے نبوت کے بعد کونسے مسلمان کئے؟؟ اگر نبوت کی تعلیم نہ ہو تو اہلتشع:
منکر قرآن: آیت تطہیر یا آیت مباہلے میں پنجتن کو ثابت کرتے ہیں لیکن آیت سابقون الاولون مہاجرین و انصار میں جن صحابہ کرام کو اللہ کریم نے شامل کیا اُس کے نام نہیں بتاتے اسلئے منکر قرآن بھی اور آیات کی غلط تاویل کرنے والے بھی ہیں۔
منکر نبوت: نبی کریم ﷺ نے 23 سال میں جن صحابہ کرام کی یعلمھم الکتاب، یزکیھم کر کے جنتی بنایا اُس تبلیغ کے بھی منکر ہیں کیونکہ ان کے نزدیک نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرام مسلمان نہیں رہے سوائے چند ایک کے، اسلئے بدر، احد، خندق، تبوک، حنین کے صحابہ کرام کے فضائل ان کی کتابوں میں نہیں ملیں گے۔
منکر خلافت: نبی کریم ﷺ کے بعد صحابہ کرام نے اختلاف کے بعد خلافت قائم کی اور جو دین قیصر و کسری تک پہنچا اُس خلافت کے بھی منکر ہیں۔
منکر علی: نبی کریم ﷺ کے بعد سیدنا علی نے امامت کی ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ہیں مگر اہلتشیع حضرات نے ایک نیا دین امامت کے نام پر شروع کیا، ان کے عقیدہ امامت کے مطابق جو امامت کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں اور یہ عقیدہ امامت سیدنا علی پر بہت بڑا بہتان ہے۔
منکر رسول: رسول اللہ ﷺ نے جو اہلبیت اور صحابہ کرام کو سکھایا وہ ایک دین تھا مگر اہلتشیع کی کتابیں رسول اللہ ﷺ کی احادیث نہیں، سیدہ فاطمہ، سیدنا علی، حسن و حسین کی احادیث نہیں بلکہ اہلسنت کی کتابوں سے احادیث چوری کر کے، کیونکہ صحاح ستہ پہلے لکھی گئیں، امام جعفر و باقر کے نام سے 3 لاکھ روایات گھڑ لیں، اسلئے صرف اہلسنت کی کتابوں سے احادیث کو اپنا مطلب بنا کر صحابہ کرام پر الزام لگاتے ہیں۔
نتیجہ: ان بنیادی سوالوں پر اہلتشیع کبھی نہیں آئیں گے اور اہلسنت بے وقوف بن کر فدک، جمل و صفین و یزید پر ان سے بحث کریں گے۔ بے بنیاد دین سے بحث کوئی نہیں۔

1۔ قرآن پاک کی حفاظت اللہ کریم نے صادق و امین حضرات ابوبکر، عمرو عثمان رضی اللہ عنھم سے کروائی۔ صحابہ کرام نے قرآن سے اہلبیت سے تعلق رکھنے والی ”آیت مباہلہ“ نہیں نکالی۔ البتہ اہلتشیع آیت مباہلہ سے پنج تن کی فضیلت بتائیں اور جنہوں نے قرآن کو اکٹھا کیا ان کوبرا بھلا کہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کا اصل اہلبیت سے نہیں بلکہ ایرانی، سبائی اور شیطانی ڈپلیکیٹ اسلام سے تعلق ہے۔

2۔ حضورﷺ کی احادیث اہلبیت اور صحابہ کرام سے مروی ہیں اور اہلسنت نے ان کو اکٹھا کیا ہے۔ اہلتشیع اہلسنت کی احادیث کی کتابوں کو نہیں مانتے، البتہ اہلتشیع کی احادیث کی کتابیں کونسی ہیں، کون سے صحابہ کرام اور اہلبیت راوی ہیں، کس دور میں اہلتشیع علماء نے ان احادیث کو اکٹھا کر کے مرتب کیا، اگر تحقیق کی جائے تو اہلتیشع کی احادیث اور فقہ کی کتابیں سب جھوٹ ہیں جیسا کہ اس پوسٹ کا “فقہ جعفر” کا لنک مانگ کر پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔

3۔ حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنھم کی جو فضیلت قرآن و احادیث میں موجود ہے ہم اس کے فضائل بیان کرتے ہیں کیونکہ اہلسنت ناصبی نہیں ہیں مگر اہلتشیع صحابہ کرام کو برا بھلا کہہ کر اور اہلبیت کی جھوٹی محبت میں ہماری احادیث سنا کر ہمارے ایمان کا امتحان لیتے ہیں۔ اسلئے ہمارا ایک ہی نعرہ ہے کہ اہلتشیع کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور ڈپلیکیٹ علی منظور نہیں۔

4۔ اسلئے ڈپلیکیٹ اسلام رکھنے والوں کی عید غدیر اور عید مباہلہ پر ہنسی آتی ہے، اسی طرح اہلسنت کو بھی عید میلاد النبی کا نام بدلنا چاہئے کیونکہ رافضیت سے مشابہت ہے۔

5۔ دیوبندی اور بریلوی کوئی نام نہیں ہیں بلکہ دھوکہ دیا گیا ہے۔ اصل یہ ہونا چاہئے کہ دیوبندی اور بریلوی علماء بتاتے کہ ہم دونوں چار مصلے والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا، البتہ ہم دونوں جماعتوں کا اصل مسئلہ چار کفریہ عبارتیں ہیں، دیوبندی توبہ نہیں کرتے اور بریلوی توبہ کروا نہیں سکتے، اسلئے مسکرائیے کہ رافضیت مضبوط ہے۔

6۔ کوئی غم نہیں کہ جاہلوں کا ہجوم زیادہ ہے بلکہ خوشی اس بات کی ہے کہ چند شمعیں حضورﷺ کے علم کے فیضان سے ہم اپنے حصے کی روشن کر جائیں۔ باقی دنیا اللہ کریم کی ہے اور دنیاداروں کو دین کی سمجھ آنی نہیں۔ اسلئے روزانہ شعور دینے کے لئے رات 7.30پر پوسٹ لگائی جاتی ہے۔ آپ سوال پوچھ سکتے ہیں اگر جواب آتا ہوا تو دے دیں گے ورنہ کسی جگہ سے آپ کو جب معلوم ہو بتادیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general