محافظ قرآن
قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ کریم نے لے رکھا ہے مگر اللہ کریم حفاظت کے اسباب بھی پیدا فرماتا ہے:
قرآن کا محافظ اللہ کریم
1۔ سورہ حجر 9: إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ترجمہ: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ سورہ اعلی 6 اور 7 میں اللہ کریم نے رسول اللہ سے فرمایا: البتہ ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہ بھولیں گے مگر جو اللہ چاہے۔ سورہ قیامہ 16 "آپ (وحی ختم ہونے سے پہلے) قرآن پر اپنی زبان نہ ہلایا کیجیے تاکہ آپ اسے جلدی جلدی (یاد کر) لیں۔ بے شک اس کا جمع کرنا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔
حفاظت قرآن کے مددگار محافظ
1) قرآن پاک زیادہ تر سینوں میں محفوظ رہتا ہے، اسلئے حضور ﷺ خود حافظ قرآن تھے اور صحیح بخاری 4997 ہر رمضان پورا قرآن حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ملکر پڑھتے تھے۔ صحیح مسلم 7207 ”میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے لگا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔ اسلئے صحابہ کرام حافظ قرآن بھی تھے اور حافظ حدیث بھی تھے۔
2) کاتبان وحی سے حضورﷺ قرآن لکھواتے اور یہ بھر فرماتے کہ فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھ دو (مختصر کنز ص 48 بحوالہ تدوین قرآن ص 27) اور رسول اللہ ﷺ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن مجید لکھواتے تھے (فلاں جگہ لکھا جائے) (مجمع الزوائد 7/157، کنز العمال 3/40) اگر کوئی غلطی ہو جاتی تو حضورﷺ اصلاح فرما دیتے مجمع الزوائد 1/60)
3) قرآن مجید (الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) پر لکھا گیا جسے سلیٹ کہہ سکتے ہیں، (ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں (کَتِف) کو تراش کرتیار کر کے لکھا گیا، (پ) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں (رِقاع) پر لکھا گیا، (ت) بانس کے ٹکڑوں پر بھی لکھا گیا (ث) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لئے استعمال ہوئے (ج) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوئے پتوں کو کھول کر ان کی اندرونی جانب لکھا گیا (د) محدثین نے کاغذ پر بھی کتابت قرآن کا ذکر کیا ہے (فتح الباری 17/9)
4) صحابہ کرام کے پاس قرآن کے مختلف ٹکڑے بھی تھے اور پورا پورا قرآن بھی تھا جیسے سیدنا عمر فاروق نے جب اپنی اسلام لانے والی بہن فاطمہ اور بہنوئی حضرت سعید بن زید سے پوچھا کیا پڑھ رہے تھے تو ان کے پاس بھی ایک صحیفہ تھاجس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ (سنن دار قطنی 1/123 باب نہی المحدث عن مس القرآن) حضورﷺ نے بھی مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) دشمنوں کی زمین میں لے جانے سے منع فرمایا۔ (صحیح بخاری 2990)
سیدنا ابوبکر محافظ قرآن
1۔ صحیح بخاری 4986: یمامہ کی لڑائی میں جب قرآن کے 700 حافظ صحابی شہید ہوئے تو سیدنا عمر فاروق نے سیدنا ابوبکر کو قرآن اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا۔ سیدنا زید بن ثابت، حافظ قرآن، کاتب وحی، رضی اللہ عنہ کو یہ مشکل کام سونپا گیا جو دو بندوں کی گواہی ڈال کر اکٹھا کرتے رہے۔ (الاتقان 77/1)
2۔ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم سب حافظ قرآن تھے، البتہ کام اسطرح ہوا کہ حکومتی اعلان کے بعد سیدنا عمر فاروق اور سیدنا زید دونوں حضرات مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاتے پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب اللہ کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آتا تو اس کو آپ دونوں لکھ لیتے (فتح الباری 17/9، الاتقان 77/1)
3۔ سیدنا علی نے بھی فرمایا کہ سب سے زیادہ اجر وثواب کے مستحق سیدنا ابوبکر ہیں جنہوں نے جمع قرآن کا شاندار کارنامہ انجام دیا (الاتقان 77/1)
4۔ سیدنا ابوبکر نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا یعنی جو سب صحابہ کرام کی تصدیق سے مکمل ہوا۔ (تدوین قرآن ص40)
5۔ قرآن کو اکٹھا کر کے نام ”مصحف“ رکھا گیا جو سیدنا ابوبکر کے پاس، اُس کے بعد سیدنا عمر فاروق اور پھر اُن کی بیٹی سیدہ حفصہ کے پاس رہا۔(صحیح بخاری 4986)
سیدنا عثمان محافظ قرآن
1۔ صحیح بخاری 2287 اور مسلم 818 کے مطابق قرآن کریم سات لغات و لہجات میں اتارا گیا۔ سیدنا عثمان کے دور میں صحابہ کرام پھیل گئے، سات قراءت یا حروف پر تکرار شروع ہو گئی۔ ایک کہتا تو غلط ہے اور دوسرا کہتا تو غلط ہے۔ اس پر یہ مشورہ ہوا کہ اس فتنے کو دور کرنے کے لئے قرآن پاک کو قریش کے لہجہ میں جمع کر دیا جائے۔
2۔ سیدہ حفصہ سے مصحف منگوا کر سیدنا زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنھم نے ورکنگ کر کے ”قریش“ کے لہجے میں مصحف تیار کیا اورجس جس ملک میں مسلمان تھے، بھیج دیا گیا اور اصل مصحف سیدہ حفصہ کو واپس کر دیا۔ ساری دنیا کے نسخے جو اختلاف کا باعث تھے، نسخوں سے سیاہی دھو کر علیحدہ دفن کر دی گئی اور صرف کاغذ جلا دیا گیا تاکہ اختلاف ابھر کر سامنے نہ آئے۔ (صحیح البخاری 4988 )
4۔ قرآن کو اکٹھا کرنے کے دوران، ناسخ و منسوخ پر صحابہ کرام میں تکرار ہوئی، آیتوں کو تلاش کرنے کی بحث موجود ہے، حدیث متواتر کو قرآن کی آیت بنایا گیا، صحابہ کرام کی گواہیاں ڈالی گئیں۔
الزام: صحابہ کرام کی آپس میں بحثوں کو بنیاد بنا کر اہلتشیع دھرم والے الزام لگاتے ہیں کہ صحیح بخاری اور کئی احادیث میں قرآن کی تحریف کا بیان موجود ہے حالانکہ اصول یہ ہے کہ احادیث کی شرح کا اصول بتا کر اصل حقائق سمجھانے چاہئیں.