پہلے 8 تراویح کو ماننے والوں سے چند سوال
اکثر کوئی قل، چہلم، تیجہ، دسواں، میلاد اور عُرس کی بات کرے تو اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ وہ کام کیوں کریں جو رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں نہیں تھا حالانکہ خود بھی جواب دیں کہ نبی کریم ﷺ نے تراویح کا لفظ کب بولا، اسلئے چند سوال ہیں:
1۔ کیا قرآن اور حدیث میں تراویح کا لفظ موجود ہے؟
2۔ تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ ہر چار رکعت کے بعد ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں، اگر حضور اکرم ﷺ کا عمل آٹھ رکعت تھا تو تراویح کا اطلاق 8 رکعت پر اہلحدیث حضرات کا کیسے ہو سکتا ہے؟
اسلئے اہل حدیث کے دو اصول "اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول” کا فرض ہے کہ وہ اللہ و رسول ﷺ سے تراویح کا لفظ ثابت کریں اور اس کا وہ معنی اللہ اور رسول ﷺ سے ثابت کریں جس کے مطابق ایک ترویحے کو تراویح کہا جاسکے-
3۔ اہلحدیث قرآن و احادیث سے ثابت کریں کہ تراویح میں جماعت شرط ہے؟
4۔ اللہ تعالی اور رسول اقدس ﷺ نے کسی حدیث کو نہ صحیح کہا ہے نہ ضعیف؟ صحیح و ضعیف احادیث کسی امتی نے کہا ہے تو کیا اہلحدیث کسی امتی کی بات کو مان سکتے ہیں؟
5۔ آٹھ [8] رکعت تراویح اور ایک وتر باجماعت پورا مہینہ عشاء کے فوراً بعد مسجد میں ادا کرنا نہ نبی پاک ﷺ سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے نہ کسی تابعی سے اور نہ ہی کسی تبع تابعی سے، اہلحدیث کس کے فتوی پر عمل کرتے ہیں؟
6۔ اہلحدیث حضرات کو چاہئے کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں تراویح کا لفظ دکھا کر امام بخاری رحمہ اللہ کی اصلاح فرمادیں، جنہوں نے تہجد اور تراویح کا الگ الگ باب باندھا اور پوری زندگی میں ایک رات بھی امام بخاری رحمہ اللہ کا آٹھ [8] تراویح پڑھنا ثابت کر دیں؟
7۔ امام مالک 179 ہجری ، امام عبد الرزاق 211 ہجری ، امام مسلم 261 ہجری ، امام دارمی 255 ہجری ، امام ابو داؤد 275 ہجری ، امام محمد بن نصر مروزی ، امام ترمذی 279 ہجری ، امام نسائی 303 ہجری ، امام ابو عوانہ 316 ہجری ، امام ابن خزیمہ، صاحب مشکوۃ سب نے اپنی اپنی حدیث کی کتابوں میں تراویح پر باب باندھا ہے اور سب حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی اپنی کتابوں میں لائے مگر تراویح کے باب میں نہیں لائے۔ اہلحدیث حضرات اگر حدیث عائشہ میں تراویح کا لفظ دکھادیں تو کم از کم ان حضرات کی اصلاح ہوجائے؟
8۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی تہجد + وتر یوں بیان فرمائی ہے 4+3 ، 6+3 ، 8+3 ، 10+3 ، کسی بھی حدیث میں 8 + 1 کا ذکر ہے تو بتا دیں؟
9۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کسی حدیث میں فرمایا ہو کہ تراویح اور تہجد ایک ہیں تو اہلحدیث حضرات ثبوت دیں؟
نتیجہ: کسی عمل کا نام رکھنا بدعت نہیں ہے بلکہ سنت ہے جیسے نمازوں کے نام، حج کی اقسام وغیرہ۔ اہلحدیث حضرات صرف اتنا بتا دیں کہ صحیح احادیث کے مطابق ان کو مکمل نماز کس فقہی امام نے سکھائی؟
20 رکعت تراویح
صحابہ کرام، تابعین، فقہاء، مجتہدین کا متفقہ فیصلہ ہے۔ تَراویح کے بارے میں نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، ائمہ کرام کے ان احادیث کی کتابوں کے حوالوں پر عمل کیا جاتا ہے اور 8 رکعات کے انکار کی وجوہات بھی درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان میں 20 رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ (طبرانی کبیر: 12102) (ابن ابی شیبہ 7692)
2۔ حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان المُبارک کی ایک رات (اپنے حجرہ سے) نکلے اور لوگوں کو4 رکعت (فرض نماز) 20 رکعت (تَراویح) اور 3 رکعت وِتر پڑھائی۔ (أخرجہ حمزۃ السہمی الجرجانی فی تاریخہٖ: 317)
3۔ حضرت عطاء ابن ابی رباح(جوکہ ایک بہت مشہور اور بڑے تابعی ہیں اور اُن کا شمار کِبار تابعین میں ہوتا ہے، وہ ) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو اِس حالت میں پایا ہے کہ وہ 23رکعتیں وتر سمیت تراویح پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:7688)
4۔ حضرت یحیٰ بن سعید فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو 20 رکعت تَراویح پڑھائے۔ (ابن ابی شیبہ:7682)
5۔ حضرت یزید بن رُومان فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں رَمضان کے اندر(وتر سمیت)23 رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ (مؤطا مالک:281)
6۔ حضرت سائب بن یزید سے مَروی ہےکہ لوگ حضرت عمر کے دور میں رمضان المبارک کے اندر20 رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔ (سنن بیہقی:2/698)
7۔ حضرت علی نے رمضان المبارک میں قرّاء(اچھا قرآن پڑھنے والوں) کو بلایا اور اُن میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ لوگوں کو20 رکعت تراویح پڑھاؤ۔ (سنن بیہقی: 2/699)
8۔ حضرت ابوالحسناء نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو رمضان میں پانچ ترویحات یعنی 20 رکعات پڑھایا کرے۔ (سنن بیہقی:2/699) (ابن ابی شیبہ:7681)
9۔ حضرت زید بن وھب فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود ہمیں رمضان کے مہینہ میں تَراویح پڑھایا کرتے تھے اور اِس کی مِقدار اِمام اَعمَش فرماتے ہیں: 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایا کرتے تھے۔ (أخرجہ محمّد بن نصر المَروَزی فی قیام اللیل و قیامِ رَمضان: 221)(عُمدۃ القاری: 11/127)
10۔ حضرت عبد العَزیز بن رُفیع فرماتے ہیں کہ مدینہ منوّرہ میں حضرت اُبَی بن کعب لوگوں کو ماہِ رَمضان میں 20 رکعت تَراویح اور تین رکعت وِتر پڑھایاکرتے تھے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ:7684)
11۔ حضرت سائب بن یزید سے مَروی ہےکہ لوگ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں رمضان المبارک کے اندر20 رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔ (سنن بیہقی: 2/698)
12۔ حضرت حارث سے مَروی ہے کہ وہ رمضان میں لوگوں کو20 تراویح اور 3 وتر پڑھاتے تھے اور رُکوع سے قبل قنوت پڑھتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ: 7685)
13۔ حضرت اَبو البختری جوکہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے خاص اَصحاب میں سے ہیں، اُن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ رمضان المُبارک میں 5 تَرویحے (یعنی20 رَکعات) اور 3 رکعات وِتر پڑھایا کرتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ :7686)
14۔ حضرت سعید بن عُبید فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ربیعہ لوگوں کو رمضان المبارک میں 5 ترویحے (یعنی بیس رکعت) اور 3 رکعت وتر پڑھایا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7690)
15۔ حضرت شتیر بن شکل، جو حضرت علی کے اصحاب میں سے تھے، رمضان المبارک میں لوگوں کو 20 رکعت تراویح اور وتر پڑھایا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:7680)
16۔ حضرت ابوالخصیب کہتے ہیں کہ حضرت سعید بن غفلہ ہمیں رمضان میں نماز پڑھاتے تھے، پس5 ترویحے یعنی 20 رکعتیں پڑھاتے تھے۔ (سنن بیہقی:2/698)
17۔ حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابنِ ابی مُلیکہ ہمیں رَمضان میں 20 رکعت تَراویح پڑھایا کرتے تھے۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ :7683)
18۔ اِمام شافعی فرماتے ہیں: میں نے لوگوں کو مدینہ منوّرہ میں دیکھا ہے کہ وہ 39 رکعات تَراویح پڑھتے ہیں، جبکہ میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ 20 رکعت پڑھی جائے، اِس لئے کہ یہ حضرت عُمر سے مَروی ہے، اور مکہ مکرّمہ کے رہنے والے بھی 20 رکعت تَراویح اور 3رکعت وِتر پڑھتے ہیں ۔(کتاب الاُمّ:1/167)
19۔ اِمام ترمذی فرماتے ہیں: تراویح کے 20 رکعت ہونے پر اکثر اہلِ علم کا عمل ہے، جیسا کہ سیدنا علی، عمراور دیگر صحابہ کرام سے مَروی ہے۔ (ترمذی:806)
20۔ محدّثِ عظیم، شارِحِ مُسلم علّامہ نووی فرماتے ہیں: تَراویح کی رکعات کے بارے میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ وہ وِتر کے علاوہ 20 رکعات ہیں اور وہ 5 ترویحات بنتی ہیں، اِس طرح کہ ہر ایک تَرویحہ 2 سلام کےساتھ 4 رکعت پر مشتمل ہے۔ یہ ہمارا مسلَک ہے، اور اِمام ابوحنیفہ، اُن کے اَصحاب اور اِمام احمد اور داؤد وغیرہ سب کا مسلک بھی یہی ہے بلکہ قاضی عیاض نے تو اسے جمہور علماء کا مسلَک قرار دیا ہے۔(المجموع شر المہذّب:4/32)
21۔ علّامہ ابن عبد البر مالکی فرماتے ہیں: 20 رکعات تَراویح جمہور علماء کا قول ہے، اور یہی کُوفیوں اور اِمام شافعی اور اکثر فقہاء کرام کا قول ہے اور یہی بات صحیح طور پر حضرت اُبیّ بن کعب سے ثابت ہے جس کی صحابہ کرام میں سے کسی نے بھی مُخالفت نہیں کی۔ (عُمدۃالقاری: 11/127)
22۔ ابنِ تیمیہ: پس 20 رکعات تَراویح پڑھنا ہی افضل ہے، اور یہی وہ مسلَک ہے جس پراکثر مسلمان عمل کرتے ہیں، اِس لئے کہ یہ 10 اور 40 رکعات کے درمیان ایک معتدل اور درمیانہ قول ہے۔ (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ: 22/272)
23۔ علّامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: ائمہ اَربعہ میں سے کوئی بھی 20 رکعت تَراویح سے کم کا قائل نہیں، اور یہی جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم اجمعین کا مسلَک ہے۔ اِمام مالک بن انَس فرماتے ہیں کہ تَراویح کی 36 رکعت رکعتیں ہیں، اِس لئے کہ مدینہ منوّرہ کے لوگوں کا عمل یہ تھا کہ وہ ہر تَرویحہ (یعنی چار رکعات) کے بعد اِنفرادی طور پر4 رکعت پڑھاکرتے تھے، اور مکہ مکرّمہ کے لوگ تَرویحات میں بیت اللہ شریف کا طَواف کیا کرتے تھے۔ (العَرف الشذی:2/208)
24۔ علّامہ کاسانی فرماتے ہیں: اور (تَراویح کے بارے میں) صحیح قول اکثر عُلماء کرام کا ہے (یعنی20 رکعات) اِس لئے کہ حضرت عُمر کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام کو رمضان کے مہینہ میں حضرت اُبیّ بن کعب کی اقتداء پر جمع کردیا تھا، چنانچہ وہ لوگوں کو ہر رات میں20 رکعت پڑھاتے، اور اِس پر کسی صحابی نے بھی اُن پر نکیر نہیں کی، لہٰذا یہ صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم أجمعین کی جانب سے 20 رکعت پر اِجماع ہوگیا۔ (بدائع الصنائع:1/288)
8 رکعات تَراویح کے قائلین کے دلائل اور اُن کے جوابات :
1۔ حضرت ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رمضان المُبارک میں نبی کریم ﷺ کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا: آپ ﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ میں 11 رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، آپ ﷺ پہلے چار رکعت پڑھتے، اُن 11 رکعتوں کے بارے میں نہ پوچھو کہ وہ کتنی حسین اور کتنی طویل ہوتی تھیں، پھر 11 رکعت پڑھتے، کچھ نہ پوچھو کہ وہ کتنی حَسین اور کتنی طَویل ہوتی تھیں، پھر3 رکعت وِتر پڑھتے تھے آٹھ رکعت تَراویح کے قائلین مذکورہ بالا حدیث سے اِستدلال کرتے ہیں اور اُن کے نزدیک حدیثِ مذکور میں بیان کردہ آٹھ رکعات تَراویح کیبیان کی گئی ہیں۔
جواب:حدیثِ مذکور مضطرب ہونے کی وجہ سے قابلِ اِستدلال نہیں اِس لئے کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ سے سندِ صحیح کے ساتھ 13 رکعات کی روایت بھی مَروی ہے، چنانچہ علّامہ ابن حجر عَسقلانی فرماتے ہیں: حضرت عائشہ صدیقہ کی روایات (کے اِضطراب) نے بہت سے اہلِ علم کو مُشکل میں ڈال دیا ہے، یہاں تک کہ اُن میں سے بعض نے حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث کو مُضطرب قرار دیدیا ۔(فتح الباری:3/21)
اب یا تو حدیث کو مُضطرب مانا جائے تو اِستدلال درست نہیں رہتا اور یا اِضطراب کو ختم کرنے اور تطبیق دینے کیلئے یہ کہا جائے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کی احادیث کا اختلاف مختلف اوقات کے اعتبار سے ہے، اِس صورت میں 8 رکعت پر تَراویح کا اِنحصار باقی نہیں رہتا۔
2۔ حدیثِ مذکور میں تہجّد کی رکعات کو بیان کیا گیا ہے، تَراویح کو نہیں، اِس لئے کہ اس میں رمضان اور غیرِ رمضان دونوں میں نبی کریم ﷺ کا معمول ذکرکیا گیا ہے جبکہ تَراویح صرف رمضان میں ہوتی ہے، نیز سائل کا سوال بھی اِس پر دلالت کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ حدیثِ مذکور میں سائل حضرت ابوسلمہ نے نبی کریم ﷺ کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تھا، تَراویح کے بارے میں دریافت نہیں کیا تھا، پس معلوم ہوا کہ یہ تَراویح کا نہیں تہجد کی رکعات کا بیان ہے اور تَراویح الگ چیز ہے، تہجّد الگ چیز ہے۔
3۔ حدیثِ مذکور میں ایک سلام سے 4,4 رکعات پڑھنے کا معمول ذکر کیا گیا ہے جبکہ تَراویح ایک سلام کے ساتھ 2,2 رکعت پڑھی جاتی ہیں، حتی کہ وہ لوگب ھی جو 8 رکعات تَراویح کے قائل اور اُس پر عمل پیرا ہیں وہ بھی ایک سلام کے ساتھ 2 رکعت ہی پڑھتے ہیں، گویا حدیثِ مذکور سے اِستدلال کرنے والوں کا خود بھی اس پر عمل نہیں تو وہ دوسروں پر کیسے اِس حدیث کو حجت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔
4۔ حدیثِ مذکور میں نبی کریم ﷺ کا اِنفرادی طور پر 8 رکعات پڑھنے کا ذکر ہے، جبکہ تَراویح کی نماز مَساجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اِہتمام کیا جاتا ہے، نیز نبی کریم ﷺ نے تین دن جو صحابہ کرام کو تَراویح پڑھائی ہے وہ بھی تو جماعت کے ساتھ ہی تھی، اِس لئے اِس حدیث کو تَراویح پر کیسے محمول کرسکتے ہیں۔
5۔ جمہور مُحدّثین کے نزدیک یہ حدیث قیامِ رمضان (تَراویح) سے متعلّق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلّق تہجّد کی نمازسے ہے، یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اِس حدیث کو اپنی کتابوں میں قیامِ رمضان کے اَبواب میں ذکر کرنے کی بجائے تہجد کے ابواب میں بیان کیا ہے۔شارِحِ بُخاری، محدّثِ کبیر، حافظ الحدیث علّامہ ابنِ حجرعسقلانی نے بھی اِس حدیث کو تہجد ہی سے متعلّق قرار دیا ہے ۔(فتح الباری:3/21)
6۔ اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ حدیثِ مذکور میں تَراویح کی آٹھ رکعات کو بیان کیا گیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس واضح اور صریح روایت کےہوتے ہوئ دورِ فاروقی میں جمہور صحابہ کرام رِضوان اللہ علیہم اجمعین نے 8 رکعات تَراویح کی روایت کو ترک کرکے بیس رکعت کو کیوں اختیار کیا، اور ایسا اِتفاق کہ کسی ایک بھی صحابی کا اُس میں کوئی اختلاف منقول نہیں، پھر یہی نہیں بلکہ تابعین، تبعِ تابعین، فقہاء اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی کو بھی حضرت عائشہ صدیقہ کی اس واضح اور صریح روایت پر عمل کرنے کا خیال نہیں آیا؟؟
کیا تمام صحابہ و تابعین و تبعِ تابعین اور جمہور فقہاء و محدّثین سب ہی (نعوذ باللہ) حدیثِ صریح کی مُخالفت کرنے والے اور دین کی مَن مانی تشریح کرنے والے تھے؟؟ جن لوگوں کے ذریعہ دین ہم تک پہنچا کیا وہ خود ہی (العیاذ باللہ) اُس پر عمل پیرا نہیں تھے؟؟
دوسری حدیث اور اُس کا جواب
حضرت جابر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے مہینے میں ہمیں 8 رکعات اور وتر پڑھائی، جب اگلی رات آئی تو ہم مسجد میں جمع ہوئے اور آپ کے نکلنے کی اُمید لگا کر بیٹھے، اورصبح تک بیٹھے رہے پھر گھر چلے گئے، ہم نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ! گذشتہ شب ہم مسجد میں جمع ہوئے تھے اور یہ اُمید لگا کر بیٹھے تھے کہ آپ ہمیں نماز پڑھائیں گے، آپ ﷺ نے اِرشاد فرمایا: مجھے اِس بات کا خوف تھا کہ کہیں یہ (تَراویح) تم پر فرض نہ ہوجائے۔ (طبرانی صغیر:525)
جواب:حدیثِ مذکور ضعیف ہے اور اِس کے ضعف پر جمہورمحدّثین کا اِتفاق ہے لہٰذا اِس حدیث سے اِستدلال کرتے ہوئے دوسری کثیر اور صحیح روایات کو ترک کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اورحدیث کے ضعیف ہونےکی وجہ یہ ہے کہ اِس حدیث کے راوی ”عیسیٰ بن جاریہ“ ضعیف ہیں، چنانچہ ائمّہ جرح و تعدیل نے انہیں ”مُنکر الحدیث“ اور ضعیف قرار دیاہے۔ (میزان الاعتدال:3/13) نیز اِس حدیث کو حضرت جابرسے نقل کرنے میں عیسی بن جاریہ متفرّد ہیں ،نہ کسی اور راوی نے اِس حدیث کو حضرت جابر سے نقل کیا ہےاور نہ ہیکسی اور صحابی سے اِس کا کوئی شاہد منقول ہے، لہٰذا اِس کو قابلِ اِستدلال قرار نہیں دیا جاسکتا۔
تیسری حدیث اور اُس کا جواب
حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عُمر نے حضرت اُبی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو 11رکعات پڑھائیں۔ (مؤطاء مالک280) اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عُمرنےتَراویح کی 8 رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔
1۔ حدیثِ مذکورمیں رکعات کی تعداد کے بارے میں شدید اِضطراب پایا جاتا ہے، چنانچہ محمّد بن یوسف جو اِس حدیث کے مَدار ہیں اُن کے5 شاگرد ہیں ان میں سے تین شاگرد 11 رکعتوں کی روایت، ایک شاگرد 13 کی روایت اور ایک راوی 21 کی روایت نقل کرتے ہیں، لہٰذا یہ قابلِ اِستدلال نہیں۔ (اعلاء السنن:7/84)
2۔ یہ حدیث حضرت عُمرکے مشہور و معروف فیصلہ جوکہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اُس کے سراسر خلاف ہے، لہٰذا اِس مضطرب حدیث کی وجہ سےدیگر صحیح احادیث کو ترک نہیں کیا جا سکتا، یہی وجہ ہے کہ خود اِمام مالک جنہوں نے اپنی مؤطا میں اِس روایت کو نقل کیا ہے وہ خود اِس حدیث پر عمل پیرا نہیں۔
3۔ اگر حضرت عُمرکا 8 رکعات کا فیصلہ ہوتا تو بعد میں حضرت عُثمان اور حضرت علی بھی اُسی فیصلہ کی اِتباع کرتےہوئے 8 رکعات کے قائل ہوتے، نیز صحابہ کرام کا بھی اِسی پر عمل ہوتا حالآنکہ سابقہ گزری ہوئی کثیر احادیث و روایات میں صحابہ کا عمل اِس کے بالکل خلاف یعنی بیس رکعات پر عمل کرنے کا ملتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 8 رکعات تَراویح حضرت عُمر کا فیصلہ ہرگز نہیں تھا۔