نبی ﷺ پراعتراض
ا
سوال: کچھ مسلمان غیر مذاہب کے پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر یہ سوال کر رہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے 13 کے قریب نکاح کیوں کئے حالانکہ سوال یہ بنتا ہے کہ کے زیادہ نکاح کرنے کی ضرورت و اہمیت کیا ہے اور یہ سوال نہیں بلکہ الزام ہے کہ حضور ﷺ عورتوں میں دلچسپی رکھتے تھے، اسلئے بہت زیادہ نکاح کئے۔ اس کا مدلل اور شاندار جواب دیتے ہیں:
پہلی بات: حضور ﷺ جس دور میں پیدا ہوئے وہاں ہر گناہ عام تھا لیکن آپ ﷺ نے بچپن سے لے کر جوانی تک کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں۔ (الخصائص الکبری: 1؍150، السیرۃ الحلبیۃ : 1؍182، صحیح بخاری 3826)
دوسری بات: سیدہ خدیجہ بنت خویلد کا پہلا نکاح عتیق بن عابد المخزومی اور دوسرا نکاح ابی ہالہ بن النباش سے ہوا اور ان دونوں سے اولاد بھی ہوئی۔ سیدہ خدیجہ 40 سالہ بیوہ تھیں اور حضور ﷺ 25 سال کے تھے جب نکاح ہوا۔ سیدہ خدیجہ نے آپﷺ کے کردار سے متاثر ہو کر خود رشتہ بھیجا اور 25 سالہ رفاقت میں کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ (زرقانی علی المواهب ج 1 ص 200) (ابو نعیم، معرفة الصحابه، 6: 3200-3201، الریاض) (امام حلیبی، السیرة الجلیلة، 1: 229، بیروت، لبنان)
سوال: حضور ﷺ نے اپنی ازواجی زندگی کا سفر ایک ’’بیوہ‘‘ عورت سے نکاح کر کے شروع کیا حالانکہ کیا عورتوں میں دلچسپی رکھنے والا ایسا کرتا ہے؟
تیسری بات: آپ ﷺ کی ساری اولاد سیدہ خدیجہ سے ہوئی، سوائے ایک بیٹے، سیدنا ابراہیم، جو سیدہ ماریہ سے ہوئے اور بچپن میں وفات پا گئے (ابن ماجہ 1510) ۔ اس دوران آپ ﷺ اپنے بیوی بچوں سے دور غار حرا میں ایک ایک ماہ تک ریاضت میں مشغول رہتے۔
سوال: کیا عورتوں کی طرف رغبت رکھنے والا ایک ماہ تک اپنی ’’محبت ‘‘ کرنے والی بیوی سے دُور رہ سکتا ہے؟
چوتھی بات: حضور ﷺ کو تبلیغ کے دوران ہر طرح (مال، خوبصورت عورت، بادشاہی) کی پیشکش کی گئی مگر آپ ﷺ نے کسی پیشکش کو قبول نہیں کیا بلکہ’’توحید‘‘ کی روشنی میں جواب دیا کہ ’’اگر میری قوم میرے ایک ہاتھ پر آفتاب اور دوسرے پر ماہتاب رکھ دے تو پھر بھی میں احکامِ الہی کی تبلیغ سے باز نہیں آ سکتا‘‘۔ (سیرت ابن ہشام، ج 2، ص 101 ۔ البدایۃ والنہایۃ المجلد الاول، ص 484۔485) کیا نعوذ باللہ ایسے نبی کو ’’اللہ‘‘ کے سوا کسی عورت سے دلچسپی ہو سکتی ہے؟
پانچویں بات: سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد ’’آپ ﷺ کے پاس حضرت خولہ نے آ کرعرض کی کہ سیدہ خدیجہ کی وفات سے آپ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا ہو گا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں وہ بچوں کی ماں اور گھر کی منتظمہ تھیں اور اب کوئی نہیں‘‘۔ حضرت خولہ نے دو رشتے بتائے ایک سیدہ سودہ اور دوسرا سیدہ عائشہ کا۔ (شرح العلامتہ الزرقانی، الفصل الثالث، سودۃ ام المومنین رضی اللہ عنھا ج 4 ص 379)
سیدہ عائشہ کی حضور ﷺ سے چھوٹی عمر میں نکاح پر اعتراضات:
1۔ آپ کی عمر میں اختلاف بتایا جاتا ہے کچھ کہتے ہیں کہ 17 یا 19 سال تھی اور صحیح بخاری 3894 میں ہے کہ 9 سال کی عمر میں نکاح ہوا۔
2۔ عمر کا صحیح تعیین نہیں ہو سکتا کیونکہ پہلے سالوں کے نام عام الفیل، عام الحزن کہلاتے تھے۔ ایک سال میں کتنے مہینے، مہینے میں کتنے ہفتے، ہفتے میں کتنے دن تھے، کسی کو معلوم ہے تو بتائے؟
3۔ صحیح بخاری 4662: دیکھو زمانہ لوٹ کر اسی مقام پر واپس آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے۔۔ ” اس حدیث میں مہینوں کا تعیین حضور ﷺ کے آخری حج 10ھ سے شروع ہوا کیونکہ مشرک لوگ سال میں دو مرتبہ حج کر لیتے، گرمی ہوتی تو مہینہ بدل لیتے وغیرہ وغیرہ۔
4۔ نکاح بالغ سے ہوتا ہے اور سیدہ عائشہ کا نکاح کسی بھی عمر میں ہوا ہو، وہ بالغہ تھیں۔
5۔ حضور ﷺ کی عمر 25 سال اور 40 سالہ سیدہ خدیجہ، 59 سال کی عمر میں 17 سالہ سیدہ صفیہ اور 50 سال کی عمر میں 9 سالہ سیدہ عائشہ سے نکاح کر کے عمروں کا تعیین مرد و عورت کے لئے ختم کر دیا۔ مزید اس اعتراض کا جواب بھی حضورﷺ کی بیٹیوں کے حوالے سے دیتے ہیں:
* کیلنڈر تو تھے نہیں لیکن اندازہ لگاتے ہیں کہ 25 سال کی عُمر میں آپ ﷺ نے سیدہ خدیجہ سے نکاح کیا اور آپ کی پہلی بیٹی سیدہ زینب نکاح کے 5 سال بعد پیدا ہوئی جب آپ ﷺ کی عُمر30 سال تھی۔ 40 سال کی عُمر میں آپ ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تواس کا مطلب ہوا کہ 10 سال کے دوران سیدہ زینب کا نکاح آپ کی خالہ کے بیٹے سیدنا ’’ابو العاص ‘‘سے ہو چُکا تھا۔ (تفصیل نکاح زرقانی جلد 3 ص 195 – 196)
* اسیطرح آپ ﷺ کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ کی پیدائش کے وقت حضورﷺ کی عُمر 33 سال اور تیسری بیٹی سیدہ ام کلثوم کی پیدائش کے وقت حضورﷺ کی عمر 34 سال اور 40 سال میں نبوت کا اعلان کیا اور3 سال بعد فاران پہاڑ پرجب رشتے داروں کو بُلا کر دین کی دعوت دی تو اُس سے پہلے ان دونوں شہزادیوں کا نکاح 10 سال کے دوران آپﷺ کے چچا ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ بن ابو لہب اور عتیبہ بن ابو لہب سے ہو چُکا تھا۔ آپﷺ کے دین کی تبلیغ کی وجہ سے ابو لہب کے حُکم پر اس کے دونوں بیٹوں نے آپ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی، الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام، ج 4، ص 325 ۔ 327)
* سیدہ فاطمہ کی پیدائش کے وقت حضورﷺ کی عمر 40 سال تھی، سیدنا علی کے ساتھ نکاح کے وقت آپ رضی اللہ عنھا کی عمر تقریباً 15 سال تھی حالانکہ بڑی عُمر کا ہونے کے باوجود سُنن نسائی حدیث 3223: سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر نے بھی سیدہ فاطمہ کا رشتہ مانگا تھا۔
* اسیطرح سیدہ فاطمہ کی بیٹی سیدہ ام کلثوم کا رشتہ سیدنا عمر نے مانگا اور سیدنا علی نے نکاح کر دیا۔ ( صحیح بخاری 2881، 4071 کے علاوہ اہلتشیع کی کتابوں میں بھِی یہ نکاح موجود ہے حوالے کمنٹ سیکشن میں) نبی کریمﷺ نے اگرسیدہ عائشہ سے 9 سال کی عمر میں بالغ ہونے پر نکاح کیا تو اپنی بیٹیوں کے نکاح بھی اسی طرح کئے تھے بلکہ اُس کے بعد بھی چھوٹی عُمر میں نکاح کی مثالیں موجود ہیں۔
نتیجہ: اعتراض کرنے والا جس کتاب کو مانتا ہے اُس کے حوالے سے بتا دے کہ کس عمر کے مرد کا نکاح کس عمر کی عورت سے جائز ہے؟ کیلنڈر اُس وقت کونسا تھا وہ بتائے؟ بالغ ہونے کے بعد نکاح جائز ہے یا نہیں وہ بتائے۔
دوسرا اعتراض: بے دین کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کی آپ کے ساتھ محبت (love marriage) کی شادی تھی یا سیدنا ابو بکر صدیق نے اپنی بیٹی آپ ﷺ کو تحفہ یا ہبہ (gift) کیا تھا؟
جب حضورﷺ کا رشتہ آیا تواس سے پہلے سیدنا ابو بکر نے سیدہ عائشہ کی چھوٹی سی عُمر میں ’’منگنی‘‘ جبیر ابن معطم سے کر دی ہوئی تھی جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ سیدنا جبیر ابن معطم کے انکار کرنے پرسیدنا ابو بکر نے سیدہ عائشہ کا نکاح آپ ﷺ سے کر دیا۔ (مسند احمد، 6؍211، سیرت عائشہ ص24) اسلئے یہ محبت کی شادی یا ہبہ نہیں تھا بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلہ تھا اور حضور کے خواب کا نتیجہ تھا۔ (صحیح بخاری 3895)
چھٹی بات: صحیح بخاری 3821: حضورﷺ سیدہ خدیجہ کو بہت یاد کرتے تھے۔ ایک دن سیدہ عائشہ کے سامنے حضور نے سیدہ خدیجہ کا ذکر کیا تو سیدہ عائشہ نے حضورﷺ کو کہا کہ اس بوڑھی عورت کا بار بار ذکر کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے اس کے بعد آپ کو مجھ جیسی جوان عورت بیوی کے طور پر عطا کی ہے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میری زبان سے یہ کلمات سُن کر آپﷺ کا رنگ بدل گیا اور فرمایا کہ ان سے بہتر مجھے کوئی بیوی نہیں ملی کیونکہ انہوں نے ایمان لا کر اس وقت میرا ساتھ دیا جب کفار نے مجھ پر ظلم و ستم کی حد کر رکھی تھی۔ اس وقت میری مالی مدد کی جب دوسرے لوگ میری مدد نہیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان سے مجھے اللہ تعالی نے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا جب کہ کسی دوسری بیوی سے میری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
* کیا جس عورت سے محبت کی شادی ہو اورمحبت کا اقرار بھی ہو، اُس کوا یسا جواب دیا جاتا ہے؟
ساتویں بات: آپ ﷺ کی اپنی بیویوں سے ’’محبت‘‘ اور اُن کا خیال رکھنا اپنی جگہ لیکن جب 9 ہجری میں نبی کریم ﷺ کی تمام عورتوں نے بیک وقت ’’دنیا‘‘ کی چیزوں کا مطالبہ کر دیا تو آپ ﷺ نے ایک ماہ کے لئے اپنی تمام عورتوں سے ’’ایلا‘‘ یعنی جدائی اختیار کر لی، جس پر مشہور ہو گیا کہ آپ ﷺ نے اپنی تمام عورتوں کو طلاق دے دی ہے۔
سورہ احزاب کی آیت 28: آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجئیے کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اس کا مزہ چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ متاع (دنیوی) دے دلا کر اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔“ صحیح بخاری 5262 میں طلاق کا اختیار بیویوں کو دیے دیا مگر سب نے رسول اللہ کو پسند کیا۔
* کیاعورتوں کی کشش رکھنے والا انسان ایک رات بھی عورت کے بغیر گذارہ کر سکتا ہے اور یہاں تو ایک ماہ کے بعد سب عورتوں کو طلاق کا اختیار بھی دے دیا؟
آٹھویں بات: نبی کریمﷺکی اپنی ہر بیوی کے ساتھ باری مقرر تھی اور اگر باری کے وقت کسی بیوی کوحیض (menses) ہو جاتے تو صحیح مسلم 680، 681، 682، 683 میں ہے کہ میاں بیوِی اکٹھے سوتے مگرحضورﷺ کو اپنے اوپر پورا کنٹرول ہوتا۔
نویں بات: صحیح بخاری 5029 ایک عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے نفس کو آپ ﷺ کے لئے ہبہ کرتی ہوں لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے اب عورتوں کی حاجت نہیں ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایسی بہت سی عورتیں تھیں جنہوں نے اپنے نفس کو آپ ﷺ کے لئے ہبہ کیا۔ ہبہ کا مطلب تھا کہ آپ نکاح کر لیں کوئی حق مہر اور کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں۔
دسویں بات: سورہ احزاب 38 کی تفسیر میں ہے کہ حضور ﷺ کو نکاح کرنے میں وسعت عطا ہوئی تھی اسلئے ایک مسلمان چار نکاح کر سکتا ہے مگر نبی کریم جتنے مرضی کر سکتے ہیں۔
گیارھویں بات: اس طرح جب نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو ’’امھات المؤمنین‘‘کا خطاب دیا گیا تو ان تمام عورتوں (ازواج) کو علم ہو گیا تھا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد ساری زندگی کسی بھی مرد سے ہم نکاح نہیں کر سکتیں لیکن کسی نے بھی نبی کریم ﷺ کو چھوڑنا پسند نہیں کیا بلکہ دُنیا کو چھوڑ دیا۔
فیصلہ (Findings)
1۔ عورت حضور ﷺ کی کمزوری نہیں تھی بلکہ عورتوں کی شدید محبت حضور ﷺ سے تھی مگر آپ ﷺ کو اللہ کریم کے سوا کسی سے محبت نہیں تھی۔ صحیح بخاری 3656: کسی کو جانی دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا یعنی خلیل صرف اللہ کریم کی ذات ہے۔
2۔ حضرت محمدﷺ کے متعلق پوری ’’تاریخ‘‘ کا مطالعہ کئے بغیر اعتراض کرنا علمی خیانت ہے اور اس دور میں علمی دہشت گر دی کوجذباتی ہوکر لڑے بغیر’’ علم‘‘ سے روکنا چاہئے۔
3۔ عقیدہ اہلسنت بہت شاندار ہے کہ توحید، رسالت، انبیاء کرام، فرشتے، صحابہ کرام اور اہلبیت، چاروں خلفاء کرام اورعشرہ مبشرہ، امامت ابوبکر، مشاجرات صحابہ، ضروریات دین اور شریعت و طریقت کے قانون پر عمل کیا جائے تو کسی بھی نبی، صحابی، اہلبیت، ولی کی توہین نہیں ہو گی۔ عیسائی کارٹون بناتے ہیں، مسلمان کسی نبی کے نہیں بنا سکتا۔ اہلتشیع حضرات صحابہ کرام کو برا بھلا کہتے ہیں مگر اہلسنت کسی کو برا نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ سب ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔