امہات المٔومنین (ایمان والوں کی مائیں)
دین اسلام میں حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات کا پاکیزہ کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ حضور ﷺ سے کبھی بھی جدائی گوارہ نہیں کی اور رسول اللہ ﷺ سے جو سُنا اُس کو آگے پھیلانے میں مددگار ہیں۔ حضور ﷺ کی پیروی کرنا لازم ہے اور اسی طرح ہر عورت امہات المومنین کی سیرت کو پڑھ کر خود اپنے خاوند کے ساتھ آخرت تک کی راہ متعین کر سکتی ہے۔
قرآن: نبی کریم ﷺ کی بیویاں (اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ سورہ احزاب 6) ایمان والوں کی مائیں ہیں۔ دوسرا ہماری ماوں (یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ سورہ احزاب 32) سے برتر کوئی اور عورت نہیں ہے۔ امہات المومنین کے گھروں کا ذکرقرآن (وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو احزاب 33) میں ہے اور آیت تطہیرمیں (إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور آپ سب کوپاک کرکے‘ خوب ستھرا کردے۔ احزاب 33) میں بھی شامل ہیں۔
درود: اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أزواجه و ذريته كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أزواجه و ذريته كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (صحيح بخاری 3369 مسلم 407) اسلئے ازواج مطہرات درود میں شامل ہیں۔
2۔ ازواج مطہرات کی یہ فضیلتیں اسی طرح رہیں گی اسلئے قرآن و احادیث میں مندرجہ ذیل واقعات پڑھنے والا اہلبیت و ازواج مطہرات کو اپنے جیسا نہ سمجھے جیسے:
سورہ تحریم 1:”اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔” والی آیت ہو یا
سورہ بقرہ 226 اور صحیح بخاری:1910 کے مطابق حضور ﷺ کا بیویوں سے ایلاء کا مسئلہ ہو یا
حضور ﷺ کی ازواج نے آپس میں یعنی سوتن نے سوتن کو کچھ کہا ہو تو یاد رکھیں کہ اللہ کریم نے نبی کریم ﷺ کو آہستہ آہستہ علم دیا اور نبی کریم ﷺ نے ازواج مطہرات، صحابہ کرام سب کا تزکئیہ نفس کیا۔
1۔ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا
ابتدائیہ: والد کا نام خویلد، والدہ کا نام فاطمہ بنت زاہدہ اور لقب طاہرہ، پہلا نکاح ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی جس سے دو لڑکے ہند اور حارث پیدا ہوئے اور دوسرا نکاح ابو ہالہ کی وفات کے بعد عتیق بن عابد مخزومی سے لیکن وہ بھی وفات پا گئے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سمجھدار، امیر، ہر خوبی کی مالک اور اچھے فیصلے کرنے والی تھیں، اسلئے اُن کا سب سے”اچھا“ فیصلہ حضور ﷺ سے نکاح کرنا تھا۔
نکاح کی وجوہات: حضرت خدیجہ حضور ﷺ کی امانت و دیانت سے بے حد متاثر، غلام میسرہ کے ساتھ دُگنے معاوضے پر شام کے علاقے میں اپنا تجارتی سامان بیچنے کی پیشکش، غلام میسرہ سفر میں حضور ﷺ کے کردار سے متاثر کیونکہ حضور ﷺ پر بادلوں کا سایہ کرنا، شام میں راہب پادری نسطورا کا علامات نبوت سے حضور ﷺ کو پہچاننا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے غلام میسرہ سے سفر کے حالات پر بہت کچھ سُنا، حضور ﷺ کے ساتھ فرشتوں کو بھی دیکھا، ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل نے یہ بتائی کہ تم سے آخری نبی کا نکاح ہو گا۔
نکاح: حضرت خدیجہ نے حضور ﷺ کو اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہ کے ذریعے نکاح کا پیغام دیا جو حضور ﷺ نے قبول کیا۔ نکاح کا خطبات چچا ابو طالب، ورقہ بن نوفل اور حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد نے پڑھے اورایک اونٹ ذبح کر کے مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا۔ حضرت خدیجہ امیر مگر امانت دار اور حضور ﷺ ظاہری طور پر غریب مگر امانت دار اور اللہ کریم کا فیصلہ ہمیشہ امانت داروں کے متعلق اچھا ہوتا ہے۔
ریکارڈ: نکاح 25 سال کی عمر میں اور پہلی وحی 40 سال کی عمر میں، 25 سے 40 سال کے درمیان حضور ﷺ کی اولاد بھی پیدا ہوئی، البتہ کیسے بچوں کوپالا سنبھالا، بیٹیاں حضرت زینب، ام کلثوم اور رقیہ رضی اللہ عنھم کے نکاح کیسے کئے، کون کون شامل ہوا، کچھ ریکارڈ نہیں ملتا سوائے یہ کہ آپ ﷺ غارِ حرا جاتے اور پیاری ”بیوی“ حضورﷺ کو ستو (کھانا) باندھ دیتی یا کھانا دینے جاتی۔
تصدیق: حضرت جبرائیل علیہ اسلام سے پہلی ملاقات، دل مضطرب کے ساتھ گھر تشریف لاکر فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو، پیاری بیوی کوسارا واقعہ وحی کا بتایا تو پیاری بیوی جو پہلے کچھ نشانیاں دیکھ چُکی تھیں اور نکاح کے 15 سالوں کے دوران حضور ﷺ کوجو کرتے دیکھا تو اُس کی تصدیق اسطرح کی ”آپ ﷺ کو اللہ کریم کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزوروں کا بوجھ اُٹھاتے، محتاجوں کے لئے کماتے، مہمان کی ضیافت کرتے اور راہ حق میں مصائب برداشت کرتے ہیں۔
ساتھی: پیاری سمجھدار بیوی نے مزید یہ کیا کہ حضور ﷺ کو چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو نصرانی تھے، عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے۔ حضور ﷺ کا واقعہ سُننے کے بعد کہنے لگے: یہ وہی فرشتہ ہے جسے اللہ کریم نے حضرت موسی علیہ السلام پر اُتارا تھا، اے کاش میں اُس وقت زندہ ہوتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔
سکون: حضور ﷺ، حضرت خدیجہ اور حضرت علی نماز ادا کرتے اور ایک دفعہ کسی نے دیکھا تو چچا عباس پاس تھے، اُن سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے جو کہتا ہے کہ اللہ کریم وحدہ لا شریک ہے۔ نبوت کے تین سال بعد اللہ کریم نے فرمایا ”اپنے رشتے داروں اور قرابت داروں کو ڈر سناؤ“ جس پر حضور ﷺ نے فاران کی چوٹیوں پر رشتے داروں کو لا الہ الا اللہ کی دعوت دی۔
سوشل بائیکاٹ: اس کے بعد حضرت خدیجہ کے گھر اور گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑی، حضور ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے، گھر میں گندگی پھینکی جاتی، آپ ﷺ کو جھوٹا (نعوذ باللہ) کہا جاتا حتی کہ 43 سال کی عمر کے بعد کے 7 سال میں سے آخر والے تین سال تو بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کر کے شِعبِ ابی طالب میں قید کر دیا گیا مگر کیا خوبصورت صبر ہے کہ حضرت خدیجہ اور کسی بچے کی دنیاوی حاجت یا بھوک پیاس رہنے پر چیخنے کا ایک واقعہ نہیں ملتا۔
ہمت: سوشل بائیکاٹ کے دوران حضرت حکیم بن حزام اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لئے گیہوں لائے، راستے میں ابوجہل سے بحث، ابوالبختری بن ہاشم کا وہاں آنا، ابو جہل کو سمجھانا مگر اس کا نہ ماننا تو ابوالبختری نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی سے ابو جہل کا سر زخمی کر دیا۔ ابو البختری اور حضرت حکیم بن حزام دونوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بھتیجے تھے۔
سلام: ایک دفعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا حضور ﷺ کے لئے کھانا لے کر آ رہی تھیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! جب آپ کے پاس پہنچیں تو ان کو اللہ کریم کا اور میرا سلام پیش کریں اور جنت میں خول دار موتی سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دیجئے جس میں شور ہے نہ کوئی تکلیف۔ (صحیح بخاری 3820)
افضل جنتی؛ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا، آپ کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ مریم بنت عمران جنت میں فضیلت والی عورتیں ہیں۔ (مسند احمد 2730)
نبی کریم ﷺ نے پیر کے روز صبح کے وقت نماز پڑھی، سیدہ خدیجہ نے پیر کے دن اس کے آخری حصے میں نماز پڑھی اور سیدنا علی نے منگل کو نماز پڑھی ( المعجم الکبیر للطبرانی: 945)
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کی ازواج میں سے کسی پر اتنی غیرت نہ کی جتنی جناب خدیجہ پر کی، حالانکہ میں نے انہیں نہیں دیکھا تھا لیکن حضور ﷺ سیدہ خدیجہ کا بہت ذکر فرماتے تھے۔ (صحیح بخاری 3818)
سیدہ خدیجہ کے ساتھ آپ ﷺ نے 25 سال گزارے، اس ساری مدت میں آپ ﷺ نے کبھی دوسری شادی نہیں کی، سیدہ خدیجہ نے بھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جو آپ ﷺ کو نا پسند ہو۔ (مسلم 2436)
وفات: ام المومنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نبوت کے 10ویں سال جب چچا ابو طالب کو وفات پائے ابھی 3 یا 5 دن ہوئے تھے، 65 سال کی عمر میں 10 رمضان المبارک کو وفات پائی۔ غُسل دیا گیا اور نماز جنازہ کا ابھی حُکم نازل نہیں ہوا تھا، آپ کو مکہ مکرمہ میں واقع حَجُون (جنّتُ المعلیٰ) کے مقام پر دفن کیا گیا۔
2۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا
سیدہ سَودہ بنتِ زَمْعہ رضی اللہ عنھا کا تعلق خاندانِ قریش سے ہے۔ والد کا نام ”زَمْعَہ“ اور والدہ کا نام ”شَموس بنتِ عَمرو“ ہے۔ آپ کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد حضرت ”سَکران بن عَمرو“ سے ہوا۔ ہجرتِ حبشہ سے واپسی پر مکّۂ مُکَرَّمہ میں حضرتِ سودہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہَا کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ (المواہب اللدنیہ،ج1،ص405)
اولاد: حضرت سکران بن عمرو سے ایک لڑکا عبدالرحمٰن پیدا ہوا جو خلافت فاروقی میں "جلولاء فارس” کی لڑائی میں شہید ہوئے، البتہ رسول اللہ ﷺ سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
خواب: امام زرقانی کا بیان ہے کہ حضرت سودہ نے خواب میں دیکھا کہ تکیے کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور ستاروں کی جھرمٹ سے چاند ان پر گرپڑا، انھوں نے یہ خواب حضرت سکران (اپنے شوہر) سے بیان کیا تو وہ بولے۔ ’’اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں عنقریب فوت ہوجاؤں گا اور تم عرب کے چاند حضرت محمدﷺ کے نکاح میں آجاؤگی، واقعی اس خواب کی تعبیر چند ہی مہینوں بعد پوری ہوگئی۔
دوسرا نکاح: حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے انتقال کے بعد رسول کریم ﷺ سے حضرت خولہ بنت حکیم نے عرض کی کہ ’’ یا رسول اللہ! خدیجہ کی وفات کے بعد میں آپ کو ہمیشہ ملول دیکھتی ہوں۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہ ہی کے سپرد تھی۔ حضرت خولہ نے حضور ﷺ کی اجازت سے حضرت سودہ سے نکاح کی بات کی جس کو سیدہ سودہ اور والد حضرت زمعہ نے بھی قبول کیا اور اپنی بیٹی کا نکاح حضور ﷺ سے چار سو درہم پر خود پڑھایا۔ اس وقت حضور ﷺ اور حضرت سودہ، دونوں کی عمر 50 سال تھی۔ اعلانِ نبوت کے دسویں سال میں یہ بابرکت نکاح منعقد ہوا۔ (سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص513)
حجرات: قرآن مجید میں جن حجرات کا تذکرہ ہے، ان میں پہلا حجرہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضور ﷺ کی بیویوں اور سیدہ فاطمہ کو حجرات ایک صحابی حضرت سیّدُنا حارثہ بن نعمان نے دئے۔
سابقین اولین: سیدہ سودہ 120 افراد میں شامل تھیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ دوسرا اپنی تبلیغ سے اپنے خاوند اور اپنے قبیلے کے کئی افراد کو دعوت حق قبول کرنے پر مائل کیا۔
محبتی: حضرتِ سودہ بنتِ زَمْعہ بہت ہی دِین دار، سَلیقہ شِعار اور بے حد خدمت گزار خاتون تھیں، آپ ﷺ کے اَحکامات پر خوب عمل پیرا ہوتی تھیں۔ (زرقانی علی المواھب، ج 4، ص380۔ 377)
آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا۔ (زرقانی، ج 3، ص 291) چنانچہ سیدہ سودہ نے اس حکم پر اس شدت سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کیلئے بھی نہ نکلیں اور فرمایا: میں حج اور عمرہ دونوں کرچکی ہوں اور اب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھوں گی۔ (طبقات ، ج 8 ص 38)
پردہ: آپ نے جب فرض حج ادا فرما لیا تو کہا: میرے ربّ نے مُجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے، لہٰذا خدا کی قسم! اب موت آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی، راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ گھر سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔ (در منثور، ج 6، ص 599)
فرمان سیدہ عائشہ: سیدہ سودہ کے علا وہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ ا س کے قالب میں میری روح ہوتی ۔‘‘(طبقات، ج 8، ص 38)
صحیح بخاری 2593: حضور ﷺ جب بھی سفر پر جاتے تو قرعہ اندازی کرتے کہ کس بیوی کو ساتھ لے جائیں، دوسرا رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کے درمیان ایک رات دن کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری سیدہ عائشہ کو دی ہوئی تھی کیونکہ سیدہ عائشہ رسول اللہ ﷺ کو پسند تھیں اور سیدہ سودہ رسول اللہ ﷺ کی خوشی کی وجہ سے ایسا کیا ہوا تھا۔
صحیح مسلم 3629: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے حضور ﷺ کی ازواج میں سے حضرت سودہ پیاری تھیں اور دل کرتا تھا کہ میں ان کے جسم کا حصہ ہوتیں، سیدہ سودہ جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو عرض کی کہ میری باری حضرت عائشہ کو دے دیں، اسلئے آپ ﷺ حضرت عائشہ کے ہاں دو دن رہتے تھے، ایک دن حضرت عائشہ کی باری کا اور ایک دن حضرت سودہ کی باری کا۔
راوی: حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے پانچ احادیث مروی ہیں۔ ان میں سے ایک صحیح بخاری میں ہے اور چار سنن اربعہ میں ہیں۔
سخاوت: حضرتِ عمر فاروقِ اعظم نے اپنی خلافت کے زمانے میں درہموں سے بھرا ہوا ایک تھیلا سیدہ سودہ کے پاس بھیجا تو آپ نے اُسی وَقت تمام درہموں کو مدینۂ مُنوَّرہ کے فقراء و مساکین کے درمیان تقسیم کردیا۔ (طبقات الکبری، ج 8، ص45)
وِصال:ایک قول کے مطابق سیدہ سودہ کا وِصال ماہ ِشوّالُ المکرّم 54 ہجری کو حضرتِ امیر مُعاویہ کے دورِ خلافت میں 84 یا 85 سال کی عمر میں ہوا اور آپ کی قبر مُبارک جنت البقیع شریف میں ہے۔
3۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا
حضور ﷺ کی بیوی حضرت عائشہ، اسلئے سسر حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔
صحیح بخاری 3895: حضور ﷺ کو ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا خواب میں دکھا کر فرشتے نے کہا یہ آپ کی بیوی ہیں۔ صحیح بخاری 3772: حضرت عمار فرماتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضور ﷺ کی دنیا اور آخرت میں بیوی ہیں۔ صحیح بخاری 3770 ”عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اسطرح ہے جسطرح تمام کھانوں سے ثرید افضل ہے“۔
صحیح بخاری 3896: ”مدینہ پاک کی طرف ہجرت سے تین سال پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا وصال ہو گیا اور دو سال بعد حضرت عائشہ سے حضور ﷺ نے 6 سال کی عمر میں نکاح کیا، پھر 9 سال کی عمر میں وہ آپ ﷺ کے گھر تشریف لائیں“۔ (اس میں بحث نہیں کہ عمر کیا تھی بلکہ اصل یہ ہے کہ آپ بالغ تھیں جب رخصتی ہوئی اور یہی قانون ہے کہ بالغ ہونے پر نکاح کر دیں)۔
مسلم 6290: ”حضور ﷺ نے حضرت فاطمہ سے فرمایا اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پس تم اس (حضرت عائشہ) سے محبت کرو۔
صحیح بخاری 3662 ”آپ ﷺ نے فرمایا میں سب سے زیادہ محبت عائشہ سے کرتا ہوں“۔ صحیح بخاری 6201 حضور ﷺ نے فرمایا اے عائشہ یہ جبریل تجھے سلام کہتے ہیں تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: اور ان پر بھی اللہ کی رحمت اور سلام ہو۔
صحیح بخاری 3775: حضور ﷺ نے ایک دفعہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا: مجھے عائشہ کے بارے میں تکلیف نہ دو، اللہ کی قسم، مجھ پر تم میں سے صرف عائشہ کے بستر پر ہی وحی نازل ہوتی ہے“۔
حضرت عائشہ پر منافقین کی طرف سے بہتان لگا تو اللہ کریم نے قرآن میں سورہ نور کی آیات اُتار کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو پاک صاف قرار دیا اور صحیح بخاری 4141 میں مکمل وضاحت موجود ہے۔ صحیح بخاری 336 ”تیمم کی آیات بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے ہار گُم ہو جانے کی وجہ سے نازل ہوئیں۔
صحیح بخاری 3774: حضور ﷺ کے آخری آیام حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں ان کے ساتھ تھے“ اور وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی گود میں ہوئی صحیح بخاری 4449۔
ترمذی 3883 حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کو جب بھی کسی حدیث میں اشکال ہوتا تو ہم نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا اور ان کے پاس اس کے بارے میں علم پایا۔
صحیح بخاری 3771 حضرت ابن عباس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے قریب بیماری پرسی کی اور آپ کی تعریف کی“ اور مسند احمد میں ہے ”حضرت عائشہ نے فرمایا: اے ابن عباس مجھے چھوڑ دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں چاہتی ہوں کہ میں بھولی ہوئی گمنام ہوتی“۔
چند اشکال
مستدرک حاکم: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ”رسول اللہ ﷺ کے پاس فرشتہ میری تصویر لے کر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شادی کی اور (اس وقت) میری عمر سات سال تھی اور نو سال کی عمر میں رخصتی ہوئی“۔
قانون: حضور ﷺنے 25 سال کی عمر میں 40 سالہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا اور 50 سال کی عمر میں 9 سالہ بالغ سے نکاح کر کے چھوٹی بڑی عمر کے مرد و عورت کے لئے قانون بنا دیا کہ نکاح کی حد میں چھوٹے بڑے کا مسئلہ نہیں ہے۔
اعتراض: اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے نکاح پر کسی کو اعتراض ہے تو متفقہ قانون بتائے کہ کتنی عمر کے لڑکے اور لڑکی کا آپس میں نکاح جائز ہے، جس سے وہ گناہ کرنے سے بچ جائیں اور دوسرا بڑی عمر کی عورت یا مرد اپنے سے کتنے سال چھوٹے بڑے مرد و عورت سے نکاح کر سکتے ہیں اگر راضی ہوں؟
واقعہ افک: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر منافق عبداللہ بن ابی نے جھوٹی تہمت لگائی، جس کی لپیٹ میں کچھ مسلمان بھی آ گئے، حضور ﷺ نے صحابہ کرام، داماد حضرات، لونڈی حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے بھی تفشیش کی۔
ہر کوئی اپنے ایمان سے بتائے کہ کیا ایک عرصہ سے ساتھ رہنے والی بیوی کا کردار میاں کو خود معلوم نہیں ہوتا؟ اسلئے حضور ﷺ کو علم تھا کہ تہمت جھوٹی ہے لیکن یہ ساری کاروائی مسلمانوں کو سکھانے کے لئے تھی اور اللہ کریم نے سورہ نور کی آیات اُتار کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔
نتیجہ: حضرت حسان بن ثابت، حضرت حمنہ بنت جحش، حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنھم کو بہتان لگانے کی سزا بھی ملی لیکن ہمارے نزدیک سزا ملنے کے بعد بھی یہ سب جنتی ہیں کیونکہ ان سب کے بشری تقاضوں کی وجہ سے تو دین ہم تک پہنچا ہے۔
سورہ تحریم: اس سورت میں یہ علم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی بیویوں کی دلجوئی کے لئے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا تو اللہ کریم نے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کی ازواج کو ان کی شان کے مطابق سمجھایا۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرام و اہلبیت کے مسائل دراصل اُس دور کے معاشرتی رسم و رواج توڑنے کے لئے بھی تھے اور ہر دور کے مسلمان کو سکھانے کے لئے بھی تھے۔ اسلئے اللہ کریم نے قرآن کریم میں اپنوں کو سمجھا کر توبہ کرنے کے لئے ضرور کہا مگر حقیقت میں سب مسلمانوں کو حدود و قیود بتانا مقصود تھا۔
نتیجہ: قرآن کریم اور احادیث کو حضور ﷺ، حضور ﷺ کی بیویوں یا صحابہ کرام پر اعتراضات کرنے کے لئے نہیں پڑھنا بلکہ اسلئے پڑھنا ہے کہ اگر کوئی اپنے اوپر حلال شے کو حرام کر لے تو اُس کو سمجھایا جا سکے کہ اس کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے کیونکہ اگر یہ مسائل ان ہستیوں کے ساتھ پیدا نہ ہوتے تو ہمارے لئے مسائل کا حل کیسے نکلتا؟
فضل و کمال: حضور ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ نے 48 سال زندگی حضور ﷺ کے بغیر گذاری۔ البتہ حضرت عائشہ نے حضور ﷺ سے جو سیکھا اُس کو ”مومنین کی ماں“ ہونے کی حیثیت سے حدود و قیود میں رہ کر بہترین طریقے سے عورتوں اور مردوں کو سمجھایا۔ اسلئے میاں بیوی کے معاملات و اخلاقیات کا علمی فیض آپ رضی اللہ عنھا کی وجہ سے امت کو تقسیم ہوا۔
جمل: حضرت عائشہ اور حضرت علی رضی اللہ عنھما کے درمیان غلط فہمیوں کی وجہ سے مسلمانوں میں لڑائی ہوئی جس میں مسلمان دونوں طرف سے شہید ہوئے۔
وفات: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا 17 رمضان المبارک 58ھ میں وصال کیا اور آپ کا جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔ (البدایہ و النہایہ، لابن کثیر، جلد 4، جز 7، ص 97)
قتل: اہلتشیع الزام لگاتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوئی گڑھا کھودا تھا جس میں تلو ار یں چاقو تھے جس سے آپ زخمی ہو کر وفات پا گئیں حالانکہ یہ جھوٹا واقعہ ہے۔
4۔ سیدہ حَفصَہ رضی اللہ عنھا
سیدہ حَفصَہ، حضور ﷺ کے اِعلانِ نُبُوت سے 5 سال پہلے پیدا ہُوئیں، والِدَہ کا نام زینب بنتِ مَظعُون تھا۔ (طبقات کبریٰ، ج 8، ص 65) حضرت زینب بنت مظعون مشہور صحابی حضرت عثمان بن مظعون کی ہمشیرہ تھیں۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال: ج 35، ص 153)
نکاح: سیدہ حفصہ کا پہلا نکاح، جاں نثار صحابی حضرت خُنیس بن حُذافَہ سہمی سے ہوا، جنہوں نے دو بھائیوں حضرت عبداللہ اور حضرت قیس کے ساتھ ہجرت حبشہ کی، واپس آئے تو آپ حضرت خنیس کی شادی سیدہ حفصہ سے ہوئی۔
حضرت خُنیس بن حُذافَہ سہمی کی غزوہ بدر میں شہادت کے بعد حُضُور ﷺ نے 3ھ میں آپ سے نکاح فرمایا۔ (سُبُلُ الہُدَی والرشاد، ج 11، ص 184) نبی کریم ﷺ سے نکاح کے وقت سیدہ حفصہ کی عمر 21 سال تھی۔
پریشانی: سیدنا عمر بیٹی کے بیوہ ہونے پر پریشان تھے، پہلے حضرت عثمان بن عفان کو سیدہ حفصہ کے رشتے کی پیشکش کی، انہوں نے کہا غور کروں گا مگر جواب نہ آنے پر سیدنا عمر نے سیدنا ابوبکر سے سیدہ حفصہ کے رشتے کی بات کی تو سیدنا ابوبکر بھی خاموش رہے، جس پر سیدنا عمر کو سیدنا عثمان کے غور سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے خود سیدہ حفصہ سے نکاح کا پیغام بھیجا اور سیدنا عمر نے نبی کریم ﷺ سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر نے بتایا کہ تمہیں میرے خاموش رہنے پر تکلیف تو ہوئی ہو گی مگر مجھے خود نبی کریم ﷺ نے بتایا تھا کہ میں حفصہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں، اسلئے میں نے یہ راز ظاہر نہیں کیا۔ (بخاری 5122)
شوقِ علم: سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں اور حفصہ نفلی روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیا جس کی ہمیں طلب بھی تھی ہم نے اس سے کھا لیا اتنے میں حضور ﷺ تشریف لائے، حضرت حفصہ گفتگو میں مجھ سے سبقت لے گئیں اور وہ اپنے باپ کی بیٹی تھیں (یعنی حضرت عمر فاروق کی طرح جری تھیں) کہنے لگیں : یا رسول ﷲ! ہم دونوں نے روزہ رکھا ہوا تھا پھر ہمارے پاس کھانا آیا جس کی ہمیں تمنا تھی تو ہم نے اس سے کھا لیا، آپ نے فرمایا : کسی دوسرے دن اس کی قضاء کر لینا۔ (ترمذی 735، ابوداود 2457)
ایک بار حضور ﷺ نے غزوہ بدْر اور حُدَیبِیَہ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کے بارے میں فرمایا: مجھے امید ہے، ان میں سے کوئی بھی دوزخ میں نہ جائے گا، سیدہ حفصہ نےعرض کی، کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا: وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ ترجمہ: اور تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا گزر دوزخ پر نہ ہو(مریم: 71) توحضور ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا، اللہ تعالی نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا ( مریم 72) ترجمہ: پھر ہم ڈر والوں کو بچالیں گےاور ظالموں کو اس میں چھوڑیں گے گھٹنوں کے بل گرے۔
عبادت گذار: حضور ﷺ نے سیدہ حفصہ بنت عمر کو ایک طلاق دی، پس آپ کے ماموں قدامہ اور عثمان جو کہ مظعون کے بیٹے ہیں آپ کو ملنے آئے تو آپ رو پڑیں اور کہا : خدا کی قسم! حضور ﷺ نے مجھے غصہ اور غضب کی وجہ سے طلاق نہیں دی، اسی دوران حضور ﷺ ادھر تشریف لائے اور فرمایا : حضرت جبریل نے مجھے حفصہ کی طرف رجوع کرنے کا کہا ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ روزے رکھنے اور قیام کرنے والی ہیں اور بے شک وہ جنت میں بھی میری اہلیہ ہیں۔ (المستدرک: 6753، طبرانی: 934)
سیدہ حفصہ نہایت بلند ہمت، بکثرت روزے رکھنے والی اور رات عبادت میں گزارنے والی عابِدَہ وزَاہدہ خاتون تھیں۔ (سیراعلام النبلاء، ج 3، ص 492) ایک بار حضرت جبریلِ اَمین نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ ’’یہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی، رات کو بہت زیادہ قیام کرنے والی اورجنّت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔“ (الاصابہ، ج 8، ص 86)
لکھنا پڑھنا: آپ رضی اللہ عنہا کا شمار قریش کے ان سترہ افراد میں تھا جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے جیسے ابو داود 3887: حضرت شفاء بنت عبداللہ کے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور وہ اُس وقت ام المؤمنین حفصہ کے پاس تھیں، آپ ﷺ نے شفاء بنت عبداللہ سے فرمایا: نملہ کا منتر اس کو کیوں نہیں سکھا دیتی جیسے تم نے اس کو لکھنا سکھایا ہے۔
علمی مقام: سیدہ حفصہ سے ساٹھ روایات منقول ہیں، 40 احادیث براہ راست حضور ﷺ اور حضرت عمر فاروق سے سُنیں۔ ان احادیث میں سے چار متفق علیہ، چھ صحیح مسلم میں اور باقی پچاس احادیث کی دیگر کتب میں ہیں۔
حفاظتِ قرآن: یمامہ کی لڑائی میں جب قرآن کے 700 حافظ صحابی شہید ہوئے تو سیدنا عمر فاروق نے سیدنا ابوبکر کو قرآن اکٹھا کرنے کا مشورہ دیا۔ (صحیح بخاری 4986) قرآن کو اکٹھا کر کے نام ”مصحف“ رکھا گیا جو سیدنا ابوبکر کے پاس، اُس کے بعد سیدنا عمر فاروق اور پھر اُن کی بیٹی سیدہ حفصہ کے پاس رہا۔ (صحیح بخاری 4986)
صحیح بخاری 2287 اور مسلم 818 کے مطابق قرآن کریم سات لغات و لہجات میں اتارا گیا۔ سیدنا عثمان کے دور میں صحابہ کرام پھیل گئے، سات قراءت یا حروف پر تکرار شروع ہو گئی۔ ایک کہتا تو غلط ہے اور دوسرا کہتا تو غلط ہے۔ اس پر یہ مشورہ ہوا کہ اس فتنے کو دور کرنے کے لئے قرآن پاک کو قریش کے لہجہ میں جمع کر دیا جائے۔
سیدہ حفصہ سے مصحف منگوا کر سیدنا زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام رضی اللہ عنھم نے ورکنگ کر کے ”قریش“ کے لہجے میں مصحف تیار کیا اورجس جس ملک میں مسلمان تھے، بھیج دیا گیا اور اصل مصحف سیدہ حفصہ کو واپس کر دیا۔ ساری دنیا کے نسخے جو اختلاف کا باعث تھے، نسخوں سے سیاہی دھو کر علیحدہ دفن کر دی گئی اور صرف کاغذ جلا دیا گیا تاکہ اختلاف ابھر کر سامنے نہ آئے۔ (صحیح بخاری 4988)
وصال: شعبان 45ھ عمر 60 یا 63، حضرت معاویہ کے دور میں مدینہ منورہ کے اندر سیدہ حفصہ نے وفات پائی اور حاکم مدینہ مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی، چارپائی کو کاندھا دیا، پھر حضرت ابوہریرہ قبر تک جنازہ کو کاندھا دیئے چلتے رہے۔ سیدہ کے دو بھائی حضرت عبدﷲ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر کے ساتھ تین بھتیجے حضرت سالم بن عبدﷲ و حضرت عبدﷲ بن عبدﷲ و حضرت حمزہ بن عبدﷲ نے سیدہ کو قبر میں اتارا اوریہ جنت البقیع میں دوسری ازواجِ مطہرات کے پہلومیں مدفون ہوئیں۔ بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس کی تھی۔ (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب حفصۃ ام المؤمنین، ج 4، ص 393، 394)
سیدہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ ان کی جائیداد رفاہی کاموں کے لیے وقف کردی جائے۔
5۔ سیدہ زینب بنت خُزیمہ رضی اللہ عنھا
حضور ﷺ کی چوتھی بیوی کا نام زینب ہے جن کے والد کا نام "خُزَیمہ بن حارث” ہے اور آپ قریش خاندان سے ہیں۔
نام ونسب: زینب بنت خزیمہ بن عبد اللہ بن عمر بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصہ ہیں۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج 4، ص 1853)
اختلاف: بعض نے لکھا ہے کہ پہلے حضرت عبد اللہ بن جحش سے نکاح ہوا تھا، جب وہ غزوۂ اُحُد میں شہید ہوئے اس کے بعد نبی ﷺ نے نکاح کیا، اوربعض نے لکھا کہ اِن کا پہلا نکاح طُفیل بن حارث سے ہوا تھا، اُن کے طلاق دینے کے بعد اُن کے بھائی عبیدہ بن الحارث سے ہوا جوبدر میں شہید ہوئے تو اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے ہوا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج 4 ص 1853)
ٹھیک قول: سیدہ زینب بنت خُزیمہ کا پہلا نکاح سیدنا عبد اللہ بن جحش سے ہوا (المواہب اللدنیہ،ج 1، ص 411) جو کہ حضور ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں اور ابتدائے اسلام میں ہی ایمان لے آئے تھے۔ غزوہ بدر و احد میں شرکت کی اور غزوہ احد میں شہید ہوئے۔ (اسد الغا بہ، ج 3، ص 195)
رسول اللہ ﷺ نے جب سیدہ زینب بنت خُزیمہ کو نکاح کا پیغام دیا تو انہوں نے آپ ﷺ کے سُپرد معاملہ کر دیا، پھر آپ ﷺ نے ساڑھے بارہ اوقیہ حق مہر پر سیدہ زینب سے نکاح فرمایا۔ (طبقات ابن سعد، ج 8، ص 91) آپ سے حضور ﷺ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
ہبہ: سیدہ زینب ان میں سے تھیں جنہوں نے اپنی جانیں رسول اللہ ﷺ کے لئے ہبہ کردی تھیں۔
صحیح بخاری 4788: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے بڑی غیرت آتی تھی ان عورتوں پر جو اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کو ہبہ کر دیتی تھیں، میں کہتی کہ کیا عورت خود ہی اپنے کو کسی مرد کے لیے پیش کر سکتی ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك» کہ ”ان میں سے جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا اس میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی، آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔“ تو میں نے کہا کہ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مراد بلا تاخیر پوری کر دینا چاہتا ہے۔
سورہ احزاب:51 "پیچھے ہٹاؤ اب میں سے جسے چاہو اور اپنے پاس جگہ دو جسے چاہو اور جسے تم نے کنارے کردیا تھا اسے تمہارا جی چاہے تو اس میں بھی تم پر کچھ گناہ نہیں۔”
ام المساکین: زمانہ جاہلیت میں چونکہ یہ غرباء اور مساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتی تھیں اس لئے ان کا لقب ’’ام المساکین‘‘(مسکینوں کی ماں )۔۔ یہ ماں کی جانب سے حضرت ام المؤمنین بی بی میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بہن ہیں۔ (المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب زینب ام المساکین والمؤمنین، ج 4، ص 416 – 17)
سفرِِ آخرت: سیدہ زینب بنت خُزیمہ حضور ﷺ کے نکاح میں آٹھ میں رہیں اور 4ھ ربیع الثانی میں وفات پا گئیں جب کہ ان کی عمر 30 برس تھی ۔ (زرقانی علی المواھب، ج 4، ص 418)
نماز جنازہ: حضور ﷺ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (طبقات ابن سعد، ج 8، ص 92) انتقال مدینہ منورہ میں ہوا اور جَنَّۃُ الْبَقِیع میں تدفین ہوئی۔ (طبقات ابنِ سعد، ج 8، ص 92)
فضیلت: سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے انتقال کے وقت میں نماز ِ جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا، اس لئے ان پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ (فتاویٰ رضویہ، ج 9، ص 369) اسلئے ازواج ِ مطہرات میں سے صرف سیدہ زینب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
6۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا
آپ کا اصل نام ہند بنت ابو امیہ اور ام سلمہ کنیت ہے۔ آپ کے والد کا نام سہیل اور والدہ کا نام عاتکہ تھا ۔ آپ کے والد قبیلہ مخزوم کے ایک بڑے سردار اور انتہائی سخی شخص تھے ۔ قافلے جب بھی ان کےساتھ سفر کرتے تو اپنے ساتھ زادِ راہ لے کر نہ جاتے۔کیونکہ پورے قافلے کے اخراجات یہ خود اٹھا تے تھے۔(الاصابہ ج 8 صفحہ 404)
اسلئے ’’زاد الراکب‘‘ کے لقب سے مشہور تھے اور قریش کے قبیلہ مخزوم سے تھے۔ سیدہ کے بھائی کا نام مہاجر بن ابی امیہ اور بہن کا نام قریبہ بنت ابی امیہ تھا۔
نام ونسب: ہند بنت ابی امیہ سہیل بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ المخزومیۃ۔ (سیر اعلام النبلاء ج 2 ص 202)
نکاح: سیدہ کا نکاح حضور ﷺ سے پہلے ابوسلمہ عبداللہ (رضی اللہ عنہ) بن عبدالاسد سے ہوا تھا۔ حضرت ام سلمہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی مسلمان ہوئیں۔ آپ دونوں کا شماران اشخاص میں ہوتا ہے جوابتدائے اسلام میں ایمان لائے۔ (الاصابہ، ج 8 ص 404)
آزمائش: مشرکین مکہ کی وجہ سے میاں بیوں نے ہجرت حبشہ کی مگر غلط فہمی کی وجہ سے واپس آ گئے۔ ہجرت مدینہ کے وقت حضرت ابوسلمہ، ام سلمہ، بیٹا سلمہ روانہ ہوئے، حضرت اُمِ سلمہ کے رشتے داروں نے ام سلمہ کو زبردستی روک لیا، حضرت ابو سلمہ کے خاندان والوں نے اس کے جواب میں حضرت اُمِ سلمہ کے بچے کو ماں سے لے لیا مگرحضرت ابو سلمہ نے بیوی بچے کو چھوڑ کر ہجرت مدینہ کی۔
حضرت اُمِ سلمہ اپنے شوہر اور بچے کے غم میں 7 دن روتی رہیں تو ایک چچا زاد بھائی نے رحم کھا کر حضرت ام سلمہ کے خاندان کو سمجھایا کہ شوہر اور بچے سے اس عورت کو کیوں جدا کر رکھا ہے بلکہ اجازت دو تاکہ اپنے شوہر اور بچے سے مل سکے جس سے وہ رضا مند ہو گئے اور حضرت ابوسلمہ کے خاندان والوں نے بھی بچہ دے دیا اور حضرت ام سلمہ اکیلی بچے کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ ہوئیں مگر مقام ’’تنعیم‘‘ پر مکہ کا شریف انسان عثمان بن طلحہ ملے، ام سلمہ کا ارادہ جان کر اور ام سلمہ کا بیان سُن کر کہ میرے ساتھ ﷲ اور میرے اس بچہ کے سوا کوئی نہیں ہے، عثمان بن طلحہ نے اونٹ کی م ہار تھامی اور خود پیدل چلے، حضرت اُمِ سلمہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! میں نے عثمان بن طلحہ سے زیادہ شریف کسی عرب کو نہیں پایا جس نے مجھے قبا تک پہنچا کر کہا تمہارا شوہر اسی گاؤں میں ہے اور مکہ واپس چلا گیا۔ (زرقانی ج 3 ص 239، روض الانف ج 2 ص 291)
عبد اللہ بن عبد الاسد زیادہ تر ابو سلمہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو ام سلمہ کے چچا زاد بھائی اور آپ ﷺ کے رضاعی بھائی تھے لیکن غزوہ بدر میں شہید ہو گئے تھے۔ (مسند حنبل ج 6 ص 307، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ج 11، ص 187)
صحیح مسلم 2126: حضرت ام سلمہ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: "کوئی مسلمان نہیں جسے مصیبت پہنچے اور پڑھے: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا تو اللہ کریم اچھا نعم البدل عطا فرماتے ہیں۔ حضرت ام سلمہ نے شوہر کی وفات پر یہ پڑھا تو سوچا کہ شوہر ابوسلمہ سے بڑھکر کیا نعمت ہو گی تو نبی کریم ﷺ نے اپنے لئے نکاح کا پیغام حاطب بن ابی بلتعہ کے ذریعے بھیجا تو میں نے کہا: میری ایک بیٹی ہے اور میں بہت غیرت کرنے والی ہوں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: بیٹی کے بارے میں دعا ہے کہ اللہ کریم ام سلمہ سے بے نیاز کردے اور (بے جا) غیرت کو (ام سلمہ) سے ہٹا دے۔”
نسائی 3256: سیدہ ام سلمہ کی عدت پوری ہوئی تو سیدنا ابوبکر و عمر نے نکاح کا پیغام بھیجا جسے انہوں نے قبول نہ کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عمر کے ذریعے پیغام بھیجا تو انہوں نے عرض کی: میں ایک غیرت مند عورت ہوں (دوسری بیویوں کے ساتھ رہ نہ پاؤں گی) بچوں والی ہوں (ان کا کیا بنے گا) اور میرا کوئی ولی اور سر پرست بھی موجود نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب بھیجا: تمہاری یہ بات کہ میں ایک غیرت مند عورت ہوں، میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے دعا کروں گا، اللہ تمہاری غیرت (اور سوکنوں کی جلن) دور کر دے گا۔ تم بچوں والی عورت ہوں تو تم (شادی کے بعد) اپنے بچوں کی کفایت (و کفالت) کرتی رہو گی۔ تیسری بات کہ تمہارا ولی کوئی بھی ہو میرے ساتھ رشتہ کو ناپسند نہیں کرے گا، تو انہوں نے اپنے بیٹے عمر بن ابی سلمہ سے کہا: اٹھو اور رسول اللہ ﷺ سے (میرا) نکاح کر دو، تو انہوں نے (اپنی ماں کا) نکاح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کر دیا۔
صحیح مسلم 3625: جب رسول اللہ ﷺ نے سیدہ ام سلمہ سے نکاح کیا تو آپ ان کے پاس گئے، اس کے بعد آپ نے نکلنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے آپ کے کپڑے کو پکڑ لیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ااگر تم چاہو کہ میں تمہارے ہاں سات سات دن قیام کروں (تو ہو سکتا ہے) اور اگر میں نے تمہارے ہاں سات دن قیام کیا تو اپنی ساری بیویوں کے ہاں سات سات دن قیام کروں گا۔ صحیح مسلم 3623: کنواری کے لیے سات راتیں ہیں اور ثیبہ (دوہاجو) کے لیے تین راتیں ہیں۔
صحیح بخاری 3633: حضرت جبرائیل حضور ﷺ کے پاس آئے، سیدہ ام سلمہ موجود تھیں، پھر حضرت جبرائیل حضورﷺ سے باتیں کر کے چلے گئے تو نبی کریم ﷺ نے سیدہ ام سلمہ سے پوچھا کہ یہ کون تھے تو سیدہ نے عرض کہ کہ حضرت دحیہ کلبی تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ حضرت جبرئیل تھے۔
اولاد : نبی کریم ﷺ سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی، البتہ سیدہ ام سلمہ کے عبداللہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ سے چار بچے سلمہ، عمر، درہ اور برہ تھے۔
سلمہ: حبشہ میں پیدا ہوئے، اسی کی وجہ سے دونوں میاں بیوی نے اپنی کنیت” ام سلمہ“ اور” ابو سلمہ“ رکھی۔ سلمہ کا نکاح آپ ﷺ نے حضرت حمزہ کی بیٹی اُمامَہ سے کیا تھا لیکن دونوں بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔
عمر: سیدنا علی کے دور خلافت میں بحرین اور فارس کے حاکم رہے۔
دُرّہ: دُرَّہ کے بارے میں سیدہ ام حبیبہ نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ ہم سے کسی نے یہ بات کہی ہے کہ آپ درہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، اس سے نکاح نہیں ہو سکتا۔
برہ/ زینب: ان کی پیدائش حضرت ابو سلمہ کی وفات کے بعد ہوئی، آپ ﷺ نے ان کا نام تبدیل کر کے زینب رکھا تھا، اپنے زمانے کی فقیہہ تھیں۔
عالمہ فاضلہ: علمی حیثیت میں اگر چہ تمام ازواج مطہرات بلندمرتبہ تھیں تاہم حضرت عائشہ صدیقہ اورحضرت ام سلمہ کا ان میں کوئی جواب نہ تھا (زرقانی ج 3 ص 273) حدیث کی کتابوں میں آپ سے 378 کے قریب احادیثِ نبوی موجود ہیں۔ آپ قرآن حکیم اسی لہجے اور ترتیل کے ساتھ پڑ ھتی تھیں، جیساکہ رسول اللہؐ پڑھا کرتے تھے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت اُمِ سلمہ کا بہت اہم رول رہا، آپ نے ہی نبی کریم ﷺ کو بہترین رائے اور درست مشورہ دیا جس کی وجہ سے اہم ترین مسئلہ حل ہوا۔
تاریخ وفات: سیدہ ام سلمہ کی وفات 84 سال کی عمر میں واقعہ حرہ کے سال ہوئی۔ سیدنا ابوہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ (زرقانی ج 3 ص 376، الاصا بہ ج 8 ص 344)
7۔ سیدہ زینب بنتِ جَحْش رضی اللہ عنھا
سیدہ زینب حُضُورﷺ کی پھوپھی اُمَیْمَہ بنتِ عبد المطلب کی بیٹی ہیں۔ (اسد الغابہ، ج 7، ص 126) ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کا نام بَرَّہ تھا، کہا جانے لگا کہ وہ اپنی پاکی ظاہر کرتی ہیں چنانچہ حُضُورﷺ نے ان کا نام زینب رکھا۔ (بخاری: 6192) کنیت ام الحکم (اسد الغابہ ج 7 ص 126)
نسب نامہ: زینب بنت جحش بن رباب بن یعمر بن صبرہ بن مرہ بن کثیر بن غنم بن دودان بن سعد بن خزیمہ۔ (طبقات الکبریٰ ج 8 ص 101) حُضُورﷺ نے آپ کو” اَوَّاہَۃ“ کے لقب سے نوازا ہے، جس کے معنیٰ ہے: خشوع کرنے والی اور خدا کے حضور گِڑگِڑانے والی۔ (اسد الغابة، حرف الزاء، 6955- زینب بنت جحش جلد 7 ص 128)
اِسْلَام قبول کرنے کے بعد آپ نے حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شرکت فرمائی اور پھر حُضُورﷺ نے جب مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو سیدہ زینب نے بھی اپنے گھر والوں سمیت حبشہ سے مدینہ شریف کی طرف ہجرت کی۔ (اسدالغابہ ج 3 ص195)
نکاح: حضرت زینب کا پہلا نکاح حضورﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ سے ہوا جو نبی کریم ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور متبنیٰ (گود لیئے ہوئے بیٹے) تھے۔ دونوں کے تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے تو حضرت زید نے حضورﷺ سے ان کو طلاق دینے کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے ان کو نباہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن جب تعلقات اور زیادہ ناخوشگوار ہونے لگے تو حضرت زید بن حارثہ نے انہیں طلاق دے دی۔
دوسرا نکاح: حضور ﷺ نے سیدہ زینب کی دلجوئی کے لیے خود ان سے نکاح کرنا چاہا لیکن عرب میں اس وقت تک متبنی کواصلی بیٹے کے برابر سمجھا جاتا تھا، اس لیے عام لوگوں کے خیال سے آپ تامل فرماتے تھے، لیکن چونکہ محض یہ جاہلیت کی رسم تھی اور اس کو مٹانا مقصود تھا، اس لیے یہ آیت نازل ہوئی:
اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے اللّٰہ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی کہ اپنی بی بی اپنے پاس رہنے دے اور اللہ سے ڈر اور تم اپنے دل میں رکھتے تھے وہ جسے اللّٰہ کو ظاہر کرنا منظور تھا اور تمہیں لوگوں کے طعنے کا اندیشہ تھا اور اللہ زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا خوف رکھو پھر جب زید کی غرض اس سے نکل گئی تو ہم نے وہ تمہارے نکاح میں دے دی کہ مسلمانوں پر کچھ حرج نہ رہے ان کے لے پالکوں (منہ بولے بیٹوں) کی بی بیوں میں جب ان سے ان کا کام ختم ہوجائے اور اللہ کا حکم ہوکر رہنا۔ (سورۃ الاحزاب:37)
اس نکاح پر مشرکین مکہ نے بڑی بکواس کی کہ محمد ﷺ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرکے حرام کو حلال کرلیا ہے لیکن قرآن نے "مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٌ مِّن رِّجَالِکُم” کہہ کر دشمنوں کے منہ پر ایک چپت رسید کردی، اور صاف صاف فرما دیا، "اُدعُوھُم لِاٰبَاءِھِم ھُوَاَقسَطُ عِندَ اللہِ” اس کے بعد زید بن محمد، زید بن حارثہ ہوگئے۔
صحیح بخاری 7420: حضرت زینب، نبی اکرم ﷺ کی تمام ازواج مطہرات سے فخریہ کہا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا۔ صحیح بخاری 5168: نبی اکرم ﷺ کو کسی زوجہ مطہرہ کا ولیمہ ایسا نہیں کیا جیسے سیدہ زینب کا کیا کیونکہ آپ ﷺ نے ان کا ایک بکری کے ساتھ ولیمہ کیا۔
صحیح مسلم 6290: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ سیدہ زینب بنت جحش مرتبے میں میرے برابر کی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناطہٰ جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔
سیدہ زینب دَسْت کاری (یعنی ہاتھ سے کام کاج) کرتیں، کھالیں دَباغَت كر کے (یعنی مخصوص طریقے سے سُکھا کر) انہیں سِلائی کرتیں اور جو رقم ملتی اللہ تعالٰی کی راہ میں صدقہ کر دیتیں۔ (مستدرک: 6850)
صحیح مسلم 6316: سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آ ملنے والی (میری وہ اہلیہ ہوگی جو) تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔” انھوں نے کہا: ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انھوں نے کہا: اصل میں زینب ہم سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ ا پنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں۔ (بخاری: 1420)
سیدنا عمر فاروق کے دور خلافت، 20ھ ، عمر 53 برس، میں سیدہ زینب کا وصال ہوا۔ وفات سے پہلے وصیت کی کہ میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے، ہو سکتا ہے کہ سیدنا عمر بھی کفن بھیجیں اگر وہ بھیجیں تو ایک کفن کو صدقہ کر دینا اور مجھے قبر میں اُتارنے کے بعد اگر میرا پٹکا بھی صدقہ کر سکو تو کر دینا۔ (طبقات الکبری ج 8 ص80)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا۔ اسامہ بن زید، محمد بن عبداللہ بن حجش اور عبداللہ بن ابو احمد بن جحش نے انہیں قبر میں اتارا، یہ پہلی خاتون ہیں، جن کے لئے تابوت تیار کیا گیا، اور آپ جنت البقیع میں آرام فرما ہیں۔
سیدہ زینب نے وراثت میں کوئی مال نہیں چھوڑا صرف ایک گھر تھا جسے بعد میں وُرَثَا نے مسجدِ نبوی شریف کی توسیع کے وقت وَلِید بن عبد الملک کے ہاتھ فروخت کر دیا۔(طبقات الکبریٰ ج 8 ص87)
سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ ایک قابلِ تعریف۔ نیک اور فَقِیْدُ المثال خاتون چل بَسیں جو یتیموں اور بیواؤں کی پناہ گاہ تھیں۔ (طبقات الکبریٰ ج 8 ص91)
8۔ سیدہ جویریہ رضی اللہ عنھا
سیدہ جویریہ کا نام پہلے ”برَّہ“ تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے تبدیل کرکے جُوَیْرِیَہ رکھا۔ (صحیح مسلم 5606) والد کا نام حارث اور سیدہ جویریہ کا تعلق قبیلۂ بنی مُصطَلق سے تھا۔ (طبقات ابن سعد ج 8 ص 92)
پہلا نکاح: جب سیدہ جویریہ بالغ ہوئیں تو صفوان بن ابی شفر بن سرح بن مالك بن جذيمہ ایک دن ان کے گھر آئے۔ صفوان اور حارث دوونوں قریبی رشتہ بھی تھے۔ صفوان بن ابی الشفر نے حارث سے کہا کہ برہ کی شادی کے متعلق پریشان نہ ہو، اپنے بیٹے مسافع کے لیے آپ سے بَرَّہ کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں، اسطرح مسافع کے ساتھ نکاح ہو گیا۔
غزوہ مُرَیْسِیع: نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ قبیلہ بنومصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار مسلمانوں سے لڑنا چاہتا ہے، حضرت بریدہ بن حصیب اسلمی نے جاسوسی کر کے تصدیق کی، چنانچہ آپ ﷺ 2 شعبان 5 ہجری کو بنی مصطلق کی طرف روانہ ہوئے۔ حارث بن ابی ضرار نے بھی ایک جاسوس بھیجا مگر پکڑا گیا، مارا گیا، جاسوس کے مرنے کا علم ہونے پر بنو مصطلق کے علاوہ دیگر قبائل کے لوگ بھاگ گئے اور رسول اللہ ﷺ مُرَیْسِیْع کے مقام پر پہنچے اور لڑائی شروع ہوئی اور بنو مصطلق ہار گئے۔ بنو مصطلق کے گیارہ آدمی جن میں سیدہ جویریہ کے پہلے شوہر مسافع بن صفوان مارے گئے۔ حارث بن ابی ضرار اور دیگر چند لوگوں نے راہ فرار اختیار کی اور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
نبیِّ کریم ﷺ کے ساتھ نکاح سے چند دن پہلے سیدہ جویریہ نے خواب دیکھا: گویا کہ ایک چاند مدینۂ منوّرہ سے چلتا ہوا میری گود میں آ گیا۔ جب حضور ﷺ کی تشریف آوری ہوئی اور ہم قیدی ہوگئے تو مجھے اپنا خواب سمجھ میں آ گیا۔ (مستدرک للحاکم 6859)
ابوداود 3931: اسلئے سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ جب جویریہ بنت حارث بن مصطلق، حضرت ثابت بن قیس بن شماس یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں تو جویریہ نے ان سے مکاتبت کر لی (یعنی میں تمہیں مال دیتی ہوں تم مجھے آزاد کر دو)۔۔وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے بدل کتابت کی غرض سے آئیں ۔۔ تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث ہوں، میرا جو حال تھا وہ آپ سے پوشیدہ نہیں، ثابت بن قیس کے حصہ میں گئی ہوں، میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اور آپ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے آئی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس سے بہتر کی رغبت رکھتی ہو؟ وہ بولیں: وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دیتا ہوں اور تم سے شادی کر لیتا ہوں۔ وہ بولیں: میں کر چکی(یعنی مجھے یہ بخوشی منظور ہے کیونکہ خواب پہلے دیکھ چُکی تھیں)۔ سیدہ عائشہ کہتی ہیں: پھر جب لوگوں نے ایک دوسرے سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جویریہ سے شادی کر لی ہے تو بنی مصطلق کے سب قیدی یہ کہہ کر آزاد کر دئے کہ حضور ﷺ کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی برکت والی نہیں دیکھی جس کی وجہ سے اس کی قوم کو اتنا زبردست فائدہ ہوا ہو۔
حارث بن ابی ضرار: سیدہ جویریہ کا لونڈی بن جانے کا علم ہونے پر اُس کا باپ اپنی بیٹی کی رہائی کے لئے بہت سا مال واسباب اونٹوں پر لاد کر مدینہ پہنچا اور دو اونٹ جو اُس پسند تھے، ان کو مقام عقیق پر کسی گھاٹی میں باندھ کر باقی سامان اپنی بیٹی کی رہائی کے لئے پیش کیا جس پر نبی کریم ﷺ نے ان دو انٹوں کا پوچھا تو اسے یقین ہو گیا کہ آپ ﷺ سچے نبی ہیں اور ایمان لے آیا اور اس پر بھی خوش ہوا کہ میری بیٹی سے نکاح رسول اللہ ﷺ نے کر لیا ہے۔ حضرت جویریہ کے دو بھائی عمرو بن الحارث اور عبداﷲ بن حارث اور ان کی ایک بہن عمرہ بنت حارث یہ تینوں بھی مسلمان ہوکرشرف صحابیت سے سربلندہوئے۔
سیدہ جویریہ سے مروی احادیث کی تعداد سات ہے جن میں سے ایک صحیح بُخاری شریف میں، دوصحیح مسلم شریف میں اور بقیہ احادیث کی دوسری کُتُب میں ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ج 3 ص511)
صحیح مسلم 6913: سیدہ جویریہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نماز فجر پڑھنے کے بعد علی الصبح ہی ان کے پاس سے چلے گئے اور وہ اس وقت اپنی نماز کی جگہ میں بیٹھی تھیں، پھر آپ ﷺ دن چڑھے تشریف لائے اور وہ وہیں بیٹھی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جس وقت سے میں تم کو چھوڑ کر گیا ہوں تم اسی طرح بیٹھی ہو، حضرت جویریہ نے عرض کیا : جی ہاں! حضور ﷺ نے فرمایا: میں نے تمہارے بعد چار ایسے کلمات "سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ” تین بار کہے ہیں کہ جو کچھ تم نے صبح سے اب تک پڑھا ہے اگر اس کا ان کلمات کے ساتھ وزن کرو تو ان کلمات کا وزن زیادہ ہو گا۔
آپ ﷺ کا ان کلمات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اپنےروزمرہ کے اذکار میں ان کلمات کو بھی شامل کر لیا جائے۔
وفات: حضورِ ﷺ کے کم و بیش 40 سال بعد ربیعُ الاوّل 50 ہجری میں 65 برس کی عمر میں وصال ہوا اور جنّت ُالبقیع میں دفن کی گئیں۔ (زرقانی علی المواھب ج 4 ص 428) نماز جنازہ حاکم مدینہ مروان نے پڑھائی (الطبقات الکبری، صکر ازواج رسول اللہ، جویریہ بنت الحارث ج 7 ص 95)
9۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا
سیدہ صفیہ کا اصل نام زینب تھا اور حضور ﷺ نے ان کا نام صفیہ رکھا تھا۔ بنو نضیر کے رئیس حُیَی بن اَخْطَب کی بیٹی جس کا شجرہ ہارون علیہ اسلام سے ملتا ہے۔
نکاح: 15سال میں سردار سلام بن مشکم سے ہوا مگر اختلافات پرطلاق ہو گئی اور دوسرا نکاح غزوہ خیبر سے پہلے کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوا۔ ابن حبان کی حدیث ہے کہ غزوہ خیبر سے پہلے آپ نے خواب میں دیکھا کہ چاند آپ کی گود میں آ گرا ہے، شوہر کو بتایا تو اُس نے منہ پر زور دار تھپڑ مارا جس سے چہرہ نیلا پڑ گیا اور کہا کہ کیا تو مدینہ (یثرب) کے بادشاہ محمد ﷺ کے خواب دیکھ رہی ہے۔ نکاح کے بعد حضور ﷺ نے جب پوچھا کہ یہ چہرے پر نشان کیسا تو انہوں نے پورا واقعہ سُنایا۔
ابو داود 2998: خیبر کا قلعہ فتح ہوا تو حضرت صفیہ حضرت دحیہ کلبی کی لونڈی بنیں مگر صحابہ کرام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ، صفیہ بڑے خاندان کی خوبصورت اور رئیس کی بیوہ ہے، اسلئے آپ ان کے لئے بہترین ہیں تو حضور ﷺ نے دحیہ کلبی کو دوسری لونڈی عطا کی۔
طبقات الکبری میں ہے کہ حضور ﷺ نے سیدہ صفیہ کو خیبر کی ساری صورت حال بتا کر اختیار دیا تھا کہ اسلام قبول کر لو یا میں تمہیں آزاد کر دیتا ہوں اپنے دین پر واپس چلی جاؤ تو انہوں نے خوشی کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ اسلئے حضور ﷺ نے ان سے اس وقت تک نکاح نہیں کیا جب تک وہ رضا مند نہ ہوئیں۔
صحیح بخاری5086: حضور ﷺ نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا کو پہلے آزاد کیا اور اُن کی آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ صحیح بخاری 4211: مقام سد الصہباء میں حیض سے پاک ہوئیں اور نبی کریم ﷺ نے ان سے خلوت فرمائی، ولیمہ کیا، ان کو دوسروں سے پردہ کروایا، حضور ﷺ نے اونٹ پر سیدہ صفیہ کو سوار کروانے کے لئے اپنی ران نیچے رکھی تاکہ وہ اپنا پاؤں اس پر رکھ کر سوار ہوں اور سب کو علم ہو گیا کہ اب یہ امہات المومنین میں سے ہیں۔
سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا کو مدینہ منورہ میں حضرت حارث بن نعمان کے گھر میں رکھا گیا جہاں انصار و مہاجرین کی عورتوں سمیت حضور ﷺ کی دیگر بیویاں بھی دیکھنے آئیں، جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے آنے کا علم ہوا تو سیدہ صفیہ نے اپنے کانوں کے جھمکے اور زیورات اُتار کر ان کو پیش کیا اور باقی عورتوں کو بھی کچھ نہ کچھ دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے غلط فہمی میں یہودیہ کہہ دیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ صفیہ مسلمان ہو چکی ہیں اور ان کا اسلام بہت اچھا ہے۔
ترمذی 3994: آپ رو رہی تھیں، حضور ﷺ نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو تو آپ نے فرمایا کہ آپ کی ایک بیوی نے مجھے یہودی کی بیٹی کہا ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تو ایک نبی کی بیٹی (سیدنا ہارون علیہ السلام)، تیرا چچا (سیدنا موسی علیہ اسلام) بھی نبی اور ایک نبی (محمد ﷺ) کی بیوی ہے تو وہ کس بات میں تجھ سے فخر کریں اور دوسری بیوی کو کہا اللہ سے ڈر۔
ابوداود 4875: سیدہ عائشہ نے سیدہ صفیہ کے بارے میں چھوٹے قد (ٹھگنی) کہہ دیا توحضور نے فرمایا تو نے ایسی بات کہہ دی کہ سمندر میں گھول دی جائے تو اس پر بھی غالب آ جائے۔
حضور ﷺ بیمار تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے گھر دیکھنے آئیں، حضور ﷺ کو بے چین دیکھ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ کاش آپ کی بیماری مجھے لگ جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ سچ مچ یہی چاہتی ہے کہ میں زندہ صحتمند رہوں کیونکہ اس کے کہنے میں جھوٹ نہیں ہے۔
حضور ﷺ سے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا نے 10 احادیث روایات کی ہیں جن میں ایک صحیح بخاری اور 9 دیگر کتب میں ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب گھر میں محصور کیا گیا تو آپ ان کے لئے کھانا بھیجا کرتی تھیں۔ 50ھ میں آپ کا وصال سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا اور جنت البقیع میں آپ کو دفن کیا گیا۔
10۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا
سیدہ اُمِّ حبیبہ کا نام رَمْلَہ، والدہ کا نام صَفِیَّہ، والد کا نام حضرت ابوسفیان اور بھائی کا نام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہے۔ اعلانِ نُبُوت سے 17سال پہلے مَکَّۂ مُکَرَّمَہ میں پیدا ہوئیں، ابتدا میں ایمان لائیں اور اپنے خاوند کے ساتھ ہجرت حبشہ کی۔ پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش سےآپ کی ایک بیٹی ”حبیبہ“ تھی جس سے آپ کی کنیت اُمِّ حبیبہ ہے۔ (الاصابہ ج 8، ص 140)
رشتے: سیدہ ام حبیبہ کی والدہ صفیہ بنت ابو العاص حضرت عثمان غنی کے والد عفان بن ابو العاص کی سگی بہن اور حضرت عثمان کی پھوپھی تھیں۔ سیدہ ام حبیبہ کی بہن میمونہ بنت ابی سفیان حضرت حسین بن علی کی خوشدامن ساس تھیں اور حضرت حسین کے فرزند حضرت علی اکبر کی والدہ لیلیٰ بنت مرہ اسی میمونہ کی بیٹی ہیں۔
پہلا نکاح: سیدہ ام حبیبہ کا پہلا نکاح عبیداللہ بن جحش سے ہوا، دونوں مسلمان تھے، ہجرت حبشہ کی لیکن کچھ عرصہ بعد عبیداللہ بن جحش نے عیسائیت قبول کر کے دین اسلام چھوڑ دیا اور مسلمان نہیں مرا۔ سیدہ ام حبیبہ کو حبشہ میں ہجرت کر کے تشریف لانے والی خواتین بالخصوص سیدہ ام سلمہ، سیدہ رقیہ، سیدہ لیلیٰ اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہن دلاسہ دیتی رہیں۔
دوسرا نکاح: جب حُضُورِ اکرم ﷺ کو حضرت اُمِّ حبیبہ کے شوہر کے ارتداد اور پریشانی کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے حضرت سیِّدنا عَمَرو بن اُمَیَّہ کو بادشاہِ حبشہ شاہ نجاشی کے پاس بھیج کر سیدہ ام حبیبہ کو نکاح کا پیغام پہنچایا، شاہ نجاشی نے اپنی کنیز اَبْرَہَہ کے ذریعہ آپ ﷺ کا پیغام حضرت اُمِّ حبیبہ کو بھیجا، اس خوشخبری پر سیدہ ام حبیبہ نے اَبْرَہَہ کو انعام کے طور پر اپنا زیور اتار کر دے دیا، پھر سیدہ ام حبیبہ نے حضرت خالد بن سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنا وکیل بنایا، شاہ نجاشی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خطبہ پڑھا اور اپنے پاس سے چار سو (400) دینار حق مہر ادا کیا، وہ تمام مسلمان جو حبشہ میں موجود تھے شریکِ محفل ہوئے، پھر شاہ نجاشی نے سب کو کھانا پیش کیا، اس کے بعد سب رخصت ہوئے۔ (طبقات ابن سعد ج 8 ص 77، 78)
ابوداود 2108: نجاشی (شاہ حبشہ) نے سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان کا نکاح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چار ہزار درہم کے عوض کر دیا اور یہ بات آپ کو لکھ بھیجی تو آپ نے قبول فرما لیا۔
شاہ نجاشی نے نکاح کے بعد سیدہ ام حبیبہ کو حضرت شرحبیل ابن حسنہ کے ہمراہ مدینہ منورہ میں حضورﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ اسطرح سیدہ ام حبیبہ نے 6ھ میں”ام المومنین“ کا معزز لقب پایا۔ اس وقت ام المومنین سیدہ ام حبیبہ کی عمر36 سال اوررسول اکرم ﷺ کی عمرمبارک 59 سال تھی۔ (مدارج النبوۃ)
اولاد: حضور ﷺ سے آپ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ عبیداللہ بن جحش سے سیدہ ام حبیبہ کے دو بچے عبداللہ اور دوسری حبیبہ پیدا ہوئے۔ بیٹی حبیبہ آپ ﷺ کی تربیت میں رہیں اور حضرت داؤد بن عروہ بن مسعود ثقفی سے ان کا نکاح ہوا۔
احادیث: سیدہ ام حبیبہ نے 65 حدیثیں رسول اﷲ ﷺ سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری و مسلم، ایک حدیث صحیح مسلم اور باقی حدیثیں حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ ان کے شاگردوں میں ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ اور ان کی صاحبزادی حضرت حبیبہ اور ان کے بھانجے ابو سفیان بن سعید رضی اﷲ تعالٰی عنہم بہت مشہور ہیں۔ (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب ام حبیبۃ ام المؤمنین، ج 4، ص 403، 408)
صحیح مسلم 1694:سیدہ ام حبیبہ عبادت گذار تھیں، فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا”جس نے ایک دن اور ایک رات میں بارہ رکعات ادا کیں اس کے لئے ان کے بدلے جنت میں ایک گھر بنا دیاجاتا ہے۔” ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب سے میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سنا، میں نے انھیں کبھی ترک نہیں کیا۔
ادب: سیدہ ام حبیبہ کے والد ایک دفعہ اسلام لانے سے پہلے مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہ آئے اور حضور ﷺ کے بستر پربیٹھنے لگے تو آپ نے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے، اُس بستر پر بیٹھنے سے منع کردیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج 5 ص8، طبقات الکبری، ج 8، ص 100، سير أعلام النبلاء ج 2 ص 223، اصابہ ج 7 ص 653)
فکرِآخرت: وفات سےچند دن پہلےحضرت عائشہ کو بلایا اور کہا:’’ میرے اور آپ کے درمیان سوکنوں والے تعلقات تھے، اگر کوئی غلطی مجھ سے ہوئی ہو تو اللہ کے لیے مجھے معاف کر دیجئے۔‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا’’ میں نے معاف کیا۔‘‘پھر ان کے لیے دعا مانگی۔ سیدہ امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ آپ نے مجھے خوش کیا اللہ آپ کو خوش رکھے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج 5 ص ۸)
وفات: 44ھ، مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہ، سیدہ ام حبیبہ کی وفات ہوئی اور جنت البقیع شریف میں دیگر ازواجِ مُطہرات کے پہلو میں مدفون ہیں۔ (سبل الہدی والرشاد ج 11 ص 196)
11۔ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنھا
سیدہ میمونہ کا نام پہلے ”بَرَّہ“ تھا،جس کا معنیٰ نیک اور صالحہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تبدیل فرما کر”میمونہ“ رکھا یعنی مبارک۔ آپ کے والِد کا نام’’حارث‘‘ ہے اور والِدہ ”ہند بنتِ عوف“ ہیں۔ (سبل الہدیٰ ج 11 ص 207)
سلسلہ نسب اسطرح ہے: میمونہ بنتِ حارث بن خزن بن بجیر بن ھرم بن رویبہ بن عبد اللہ بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس بن عیلان بن مضر بن نزار۔
خوش قسمتی: حضرت ہند بنتِ عوف کی 8 بیٹیاں اور داماد شاندار یہ ہیں:
1۔ ام الفضل لبابۃ الکبریٰ: حضرت عباس کی بیوی اور حضرت عبداﷲ بن عباس کی والدہ ہیں۔
2۔ لبابۃ الصغریٰ : یہ حضرت خالد بن الولید سیف ﷲ کی والدہ ہیں۔
3۔ عصماء: ابی بن خلف کی بیوی مگر صحابیہ ہیں۔
4۔ عِزّہ : یہ بھی صحابیہ ہیں جو زیاد بن مالک کے گھر میں تھیں۔ یہ چار حضرت میمونہ کی سگی بہنیں ہیں اور والدہ کی طرف سے 4 یہ اور ہیں:
5۔ اسماء بنت عمیس: پہلا نکاح حضرت جعفر بن ابی طالب جن سے تین بچے عبدﷲ وعون و محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔ حضرت جعفر کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر صدیقسے نکاح جن سے محمد بن ابوبکر۔ حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد سیدنا علی سے نکاح جن سے ’’یحییٰ‘‘ تھے۔
6۔ سلمیٰ بنت عمیس: پہلا نکاح سیدنا حمزہ سے جن سے ’’امۃ ﷲ‘‘ پیدا ہوئی۔ دوسرا نکاح شداد بن الہاد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جن سے دو بیٹے حضرات عبدﷲ و عبدالرحمن پیدا ہوئے۔
7۔ سلامہ بنت عمیس : ان کا نکاح عبداﷲ بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا تھا۔
8۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت خزیمہ جن کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے بھی ہوا۔
اسلئے حضرت میمونہ کی والدہ رسول ﷲ ﷺ (۲) حضرات ابوبکر (۳) علی (۴) حمزہ (۵) عباس (۶) شداد بن الہاد کی ساس ہیں۔ (زرقانی ج 3 ص 251 و مدارج ج 2، ص 484)
پہلا نکاح: سیدہ میمونہ کا پہلا نکاح مسعود بن عمرو بن عمیر ثقفی کے ساتھ ہوا۔ اس نے سیدہ میمونہ کو طلاق دے دی۔ یہ وہی عمرو بن عمیر ثقفی ہے جس کے تین بیٹے عبد یا لیل، مسعود اور حبیب طائف کے معززین شمار ہوتے تھے ان کو نبی کریم ﷺ نے اپنےسفر طائف میں خصوصی طور پر دعوت اسلام دی، لیکن انہوں نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور اوباش لڑکوں کو آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیا۔
دوسرا نکاح: اس کے بعد سیدہ میمونہ کا نکاح ابو رُہم بن عبدالعزیٰ سے ہوا لیکن اس کا انتقال ہو گیا۔
عمرۃ القضاء: آپ ﷺ ماہ ذوالقعدہ 7 ہجری کو تشریف لائے۔ آپ ﷺ کے ہمراہ صرف وہ صحابہ کرام تشریف لائے جو صلح حدیبیہ میں آپ کے ساتھ شریک تھے، آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمرہ ادا فرمایا۔ اسی دوران جب آپ ﷺ عمرۃ القضاء کو ادا فرما چکے تھےاور مکہ مکرمہ ہی میں تشریف فرما تھے تو سیدنا عباس نے نبی کریم ﷺ کو سیدہ میمونہ کا رشتہ پیش کیا کیونکہ سیدہ میمونہ کی بہن ام الفضل لبابۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سیدنا عباس کی اہلیہ تھیں، آپ ﷺ نے قبول فرمایا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے 400 درہم حق مہر کے عوض آپ کا نکاح کردیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا آخری نکاح تھا۔
جب نبی کریم ﷺ کی طرف سے انہیں نکاح کا پیام ملا وہ اونٹ پر سوار تھیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اونٹ اور جو اس پر ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لئے ہے۔ *(التفسیر القرطبی، الاحزاب:50، ج 7، ص 154)
نکاح کی برکات: سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے خاندان والے مکہ کے با اثر لوگوں میں سے تھے۔ اس نکاح کے بعد سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے سیدنا خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا، اسی موقع حضرت عمرو بن العاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کنجی بردار کعبہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔
دوسری طرف اہل نجد کا سردار زیاد بن مالک الہلالی جو کہ سیدہ میمونہ کا بہنوئی تھا، اب وہی لوگ رسول اللہ ﷺ کے حامی بن گئے اور مسلمان ہو کر اہل اسلام کی اجتماعی قوت میں اضافہ کا سبب بنے۔
خوفِ خدا: حضرت عائشہ صِدِّیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت میمونہ ہم میں سب سے زیادہ اللہ کریم سے ڈرنے والی اور صلۂ رحمی کرنے والی تھیں۔ (مستدرک 6878)
فَہم وفراست: حج کے موقع پر صحابۂ کرام کو یومِ عَرَفہ (9 ذی الحج) کے روزے کے بارے میں شک ہوا کہ حضور ﷺ روزے سے ہیں یا نہیں؟ حضرت میمونہ نے حضور ﷺ کی خدمتِ میں دودھ کا پیالہ بھیجا۔ آپ نے دودھ نوش فرما لیا۔ (بخاری: 1989)
راوی: حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کل چھہتر حدیثیں مروی ہیں جن میں سے سات حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں مذکور ہیں اور ایک حدیث صرف بخاری میں ہے اور ایک ایسی حدیث ہے جو صرف مسلم میں ہے اور باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔
انتقال: جب مرضِ وفات نے شدّت اختیار کی تو فرمانے لگیں: مجھے مکہ شریف سے باہَر لے جاؤ کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ نے مجھے بتایا ہے کہ میرا انتقال مکہ میں نہیں ہو گا چنانچہ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو مکہ شریف سے باہَر مقامِ سَرِف میں اس درخت کے پاس لایا گیا جہاں آپ نِکاح کے بعد رخصت ہو کر آئی تھیں تو آپ کا انتقال ہو گیا اور وہیں دفن کیا گیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج 6 ص 437)
آخری بیوی: یہ حضور ﷺ کی آخری بیوی ہیں جنہوں نے 51ھ میں انتقال فرمایا۔ ان کی وفات کے وقت ان کے بھانجے حضرت عبدﷲ بن عباس موجود جنہوں نے نماز جنازہ پڑھا کر قبر میں اتارا۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو حضرت عبدﷲ بن عباس نے بہ آواز بلند فرمایا کہ اے لوگو! یہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہیں ۔ تم لوگ ان کے جنازہ کو بہت آہستہ آہستہ لے کر چلو۔ (زرقانی ج 3 ص 253)