قضا نماز

قضا نماز

 

قرآن کی سورہ المدثر کی آیت 38 تا 49، التوبہ 5 اور 11، الروم 31، القیامہ 31 تا 35 اورصحیح مسلم 246، 247 ابوداود 4678 ترمذی 2618، 2621، 2622 ابن ماجه 1080 پڑھ لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ بے شک نماز کفرو ایمان کے درمیان فرق ہے اور مسلمان بے نمازی نہیں ہو سکتا۔
فتاوی: امام احمد ابن حنبل فرماتے ہیں کہ ایسا شخص مسلمان نہیں ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ امام مالک اورامام شافعی کہتے ہیں کہ نمازوں کو چھوڑنے والا ک ا ف ر تو نہیں، البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مر جائے۔ امام ابوحنیفہ: (حاشیہ ابن عابدین 352/1۔353، احکام القرآن للجصات 81/3۔83)، امام مالک: (مواہیب الجلیل 420/1۔421، الخرشی علی خلیل 227/1۔228)، امام شافعی: (المجموع للنووی 17/3۔19، روضۃ الطالبین 146/2)، امام احمد بن حنبل: (المغنی لابن قدامہ 444/2، المبدع لابن مفلح 305/1 ۔ 307)۔
حُکم: سات سال کا بچہ ہو تو پیار سے اور 10 سال کر بچے کو سختی کر کے نماز پڑھانے کا حکم ہے (ابوداود 495)، البتہ بالغ ہونے پر لڑکا اور لڑکی”نماز“ نہ پڑھیں تو سخت گناہ گار ہیں اور لڑکا احتلام ہونے پر اور لڑکی حیض آنے پر "بالغ” ہوتے ہیں۔ اگر سوتے ہوئے یا بھول کر”نماز“ اپنے وقت پرنہ پڑھی جا سکے تو اس نماز کو وقت نکلنے کے بعد ”قضا“ کرتے ہیں (ابن ماجہ 695)۔
صاحبِ ترتیب کی قضا: ترمذی 179: مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو خندق کے دن چار نمازوں سے روک دیا۔ یہاں تک کہ رات جتنی اللہ نے چاہی گزر گئی، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی، پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھی، پھرسیدنا بلال نے اقامت کہی تو آپ ﷺ نے عصر پڑھی، پھر سیدنا بلال نے اقامت کہی تو آپ ﷺ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ ﷺ نے عشاء پڑھی۔ صحیح بخاری 4112، صحیح مسلم 1425: نبی اکرم نے غزوہ خندق میں جب گھمسان کی لڑائی میں نمازیں قضا ہوئیں تو ان کو ترتیب سے پڑھا۔
صاحبِ ترتیب اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ذمے زیادہ سے زیادہ چھ نمازیں قضا ہوں، اگر چھٹی نماز کا وقت گزر جائے تو ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر فوت شدہ نمازوں کی قضا کر لیتا تو دوبارہ سے صاحبِ ترتیب بن جاتا ہے۔ اگر صاحب ترتیب نہ ہو تو کوئی بھی قضا نماز آگے پیچھے ادا کر سکتا ہے۔
وقت: کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرنمازِفجر قضا ہوجائے تو اگلے دن کی فجر کی نماز کے ساتھ ”قضا“ کرکے پڑھتے ہیں حالانکہ جب صبح اُٹھیں توسب کاموں سے پہلے بلکہ ناشتہ کرنے سے پہلے بھی نمازفجرقضا پڑھیں۔ ( پڑھیں صحیح بخاری 597)
اگر فجر کی سنت فرض کے ساتھ چھوٹ جائے تو اس کی فرض کے ساتھ زوال سے پہلے قضاء کی جائے جیسے ابوداود 443: رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے کہ لوگ نماز فجر میں سوئے رہ گئے، سورج کی گرمی سے وہ بیدار ہوئے تو تھوڑی دور چلے یہاں تک کہ سورج چڑھ گیا، پھر آپ ﷺ نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے اذان دی تو آپ نے فجر (کی فرض نماز) سے پہلے دو رکعت سنت پڑھی، پھر (مؤذن نے) تکبیر کہی اور آپ نے فجر پڑھائی۔
مسئلہ: صاحب ترتیب کی جب ایک نماز بھی قضا ہو جائے جیسے نمازِ فجرتو اس پر واجب ہے کہ ظہر سے پہلے فجر قضا پڑھے کیونکہ صاحب ترتیب کی نمازوں میں ترتیب ضروری (واجب) ہے۔
فرض: قضا نمازوں میں صرف ”فرض“ قضا کرتے ہیں لیکن سنتیں یا نفل نہیں۔ البتہ نفل و سنت کو پڑھتے ہوئے چھوڑ دیا تو قضا کریں گے جیسے ترمذی 667: نفلی روزہ رکھ کر توڑ دیا تو اُس پر رسول اللہ نے ایک روزہ کسی دن رکھنے کا حکم دیا۔ نماز وتر قضا کی جاتی ہے جیسے ترمذی 465: جو وتر پڑھے بغیر سو جائے، یا اسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یا جاگے پڑھ لے۔
قضائے عُمری: ادا کرنے اور صاحب ِ ترتیب بننے کیلئے”حساب“ لگائیں کہ ”بالغ“ ہونے کے بعد کتنی نمازیں ”قضا“ ہوئیں، پھر جتنے مرضی سال لگیں، پہلے ساری نمازیں قضا کریں، اس دوران اگر کوئی ”نئی“ نماز فوت ہو جائے توساتھ ساتھ وہ بھی ادا کرتے جائیں۔
دھوکہ: اللہ کے گھر میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب 1 لاکھ نمازوں کا ہے لیکن ساری عُمر کی قضا نمازیں ادا ”نہیں“ ہوتیں جیسے 5000 کا قرضہ 500 روپیہ رمضان میں دینے سے ادا نہیں ہو گا۔ یہ بھی کتنا بڑا دھوکہ ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ 2 نفل پڑھنے کو قضائے عمری کہتے ہیں۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general