استوی علی العرش

استوی علی العرش

 

اللہ کریم اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کی ذات سمجھ سے بالا تر ہے، باقی زمین، آسمان اور اُس کے درمیان، عرش، کُرسی وغیرہ سب اُس کی مخلوق ہیں جو ہمیشہ سے نہیں ہیں بلکہ اللہ کریم کے حُکم سے ہیں۔ اللہ کریم نہ توعرش کا محتاج ہے اور نہ فرش کا بلکہ عرش وکرسی کے وجود میں آنے سے پہلے وہ جس شان میں تھا اب بھی اسی شان میں ہے۔
’’بے شک تمھارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا۔‘‘(الاعراف: 54، سورۂ یونس: 3، الرعد: 2، طٰہٰ: 5، الفرقان: 59، السجدۃ: 4، الحدید: 4)
استواء کا لغوی معنیٰ تو ہے کہ کسی چیز کا کسی چیز سے بلند ہونا، کسی چیز کا کسی چیز پر بیٹھنا۔ اس پر دو سوال ہیں کہ کیا اللہ کریم مخلوق کی طرح ہے اور کیا کرسی پر بادشاہوں کی طرح بیٹھ کر آرڈر کر رہا ہے؟
امام مالک سے کسی شخص نے پوچھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے عرش پر کس طرح اِستواء فرمایا تو آپ نے تھوڑے سے تَوَقُّف کے بعد فرمایا ’’ہمیں یہ معلوم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے عرش پر اِستواء فرمایا لیکن اس کی کَیفیت کیا تھی وہ ہمارے فہم سے بالاتر ہے البتہ اس پرایمان لانا واجب ہے اور اس کے بارے میں گفتگو کرنا بدعت ہے۔ (تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 54، 2/137)
امام اعظم ابو حنیفہ: ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہیں اگرچہ اللہ تعالی کو عرش پر مستوی ہونے کی حاجت یا مجبوری نہیں اور نہ ہی مستوی ہونے کا کوئی خاص طریقہ اور کیفیت ہے۔ (تفسیر تبیان القرآن)
امام شافعی فرماتے ہیں: میں اللہ تعالی پر بغیر کسی تشبیہ کے ایمان لاتا ہوں اور کسی مخصوص صورت کا قائل ہوئے بغیر اس کی تصدیق کرتا ہوں اللہ تعالی کی ذات کی حقیقت کا ادراک نہ کر سکنے کا الزام خود کو دیتا ہوں اور اس بارے میں غور و خوض سے مکمل اجتناب کرتا ہوں۔ (تفسیر تبیان القرآن)
امام محمد فرماتے ہیں : ہم یوں کہتے ہیں کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس طرح کے متشابہات کی کیفیت معلوم کرنے میں الجھتے نہیں۔ اسی طرح جو کچھ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس طرح کی باتوں کی حقیقت معلوم کرنے میں نہیں الجھتے۔ (کتاب الآثار و تفسیر تبیان القرآن)
قانون: قرآن کریم کی وہ آیتیں جن میں اللہ کے لیے یداللہ، وجہ اللہ، استواء علی العرش ثابت کیا گیا ہے، یہ سب اللہ کی صفات متشابہہ ہیں، ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ کریم ہی ان آیات کا اصل مفہوم جانتا ہے اور ہم خود سے کوئی معنی متعین نہیں کر سکتے اور نہ ہی صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ سے اسطرح کے سوال کئے۔ نیز اللہ تعالی مخلوق کی مشابہات سے پاک ہے۔
البتہ علماء کرام نے اس کی تاویل اچھی کرنے کی کوشش کی ہے۔
1۔ استواء بمعنی’’ قہر وغلبہ ‘‘ہے، یہ معنی زبانِ عرب سے ثابت وپیدا (ظاہر) ہے، عرش سب مخلو قات سے اوپر اور اونچا ہے اس لئے اس کے ذکر پر اکتفا ء فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اللہ کریم تمام مخلوقات پرقاہر وغالب ہے۔
2۔ استواء بمعنی ’’عُلُوّ‘‘ ہے اور علو اللہ کریم کی صفت ہے، علوِ مکان صفت نہیں بلکہ علوِ مالکیت و سلطان صفت ہے۔
3۔ استواء بمعنی ’’قصد و ارادہ‘‘ ہے یعنی پھر عرش کی طر ف متوجہ ہوا یعنی اس کی آفرنیش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی۔
4۔ استواء بمعنی ’’فراغ و تمامی کار‘‘ ہے یعنی سلسلہ خلق و آفرنیش کو عرش پر ختم فرمایا، اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی، دنیا و آخرت میں جو کچھ بنایا اور بنائے گا دائرۂ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلو ق کو حاوی ہے۔
نتیجہ: اللہ تعالی کو عرش اور کرسی پر اس طرح متمکن سمجھنا جس طرح کوئی آدمی کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے، یہ سخت گمراہی ہے۔ اسلئے اللہ کریم اپنی شان کے مطابق اپنی حقیقت کو جانتا ہے، ہم ظاہری الفاظ پر ایمان لائے اور کیفیات کو سمجھ نہیں سکتے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general