بدبخت سامری
سورہ طہ کی آیت نمبر 85، 87 اور 95 میں "سامری” نام کے ایک بندے کا ذکر ہوا ہے۔ قرآن میں تفصیل یوں ہے:
سور طہ: فرمایا، تو ہم نے تیرے آنے کے بعد تیری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا۔
تشریح: سیدنا موسیٰ ‘ریڈ سی‘پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سمندر چیر دیا اور بنی اسرائیل گزر کر صحرائے سینا میں داخل اور فرعون سمندر میں ڈوب کر مر گیا، اس وقت سامری، سیدنا موسیٰ کے ساتھ تھا۔ جب اللہ کریم نے سیدنا موسی کوہ طور کی چوٹی پر 40 دن کے لئے اعتکاف کا حکم دیا تو سیدنا موسی اپنی امت کو سیدنا ہارون کے سپرد کر کے کوہ طور کی طرف لے گئے۔
سامری کون تھا؟
1۔ فرعون کو جب علم ہوا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو اس کی سلطنت تباہ کر دے گا تو بچوں کو قتل کرنے کا حُکم دیا۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت دو موسیٰ پیدا فرمائے تھے۔ ایک موسیٰ کلیم اللہ اور دوسرا موسی ابن ظفر
3۔ حضرت موسیٰ کی والدہ نے انہیں دریائے نیل میں چھوڑا اور سامری موسی کی ماں نے ایک غار میں ۔
4۔ ایک سیدنا موسی ہیں جو فرعون کے گھر میں پلے اور دوسرا موسیٰ ابن ظفر یعنی سامری جادوگر کی پرورش حضرت جبرائیل امین نے فرمائی تھی۔
5۔ تفسیر روح المعانی میں ہے: ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ موسیٰ سامری پیدا ہوا تو فرعون کی طرف سے تمام اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا حکم جاری تھا، اس کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعونی سپاہی اس کو قتل کر دیں گے تو بچہ کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھنے کی مصیبت سے یہ بہتر سمجھا کہ اس کو جنگل کے ایک غار میں رکھ کر اوپر سے بند کر دیا جائے، ادھر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو اس کی حفاظت اور غذا دینے پر مامور کر دیا، وہ اپنی ایک انگلی پر شہد ایک پر مکھن ایک پر دودھ لاتے اور اس کو بچہ کو چٹا دیتے تھے یہان تک کہ یہ غار ہی میں پل کر بڑا ہو گیا اور اس کا انجام یہ ہوا کہ کُ فر میں مبتلا ہوا اور بنی اسرائیل کو مبتلا کیا پھر قہر الٰہی میں گرفتا رہوا۔
طریقہ واردات: حضرت موسی علیہ السلام ادھر پہاڑ پر گئے تو سامری نے سیدنا موسی کی قوم سے زیورات لے کر ایک چھوٹا سا بچھڑا بنایا اور بچھڑے کے پیٹ میں حضرت جبرائیل امین کے گھوڑے کے پاؤں کی مٹی رکھ دی، بچھڑے نے بولنا شروع کر دیا۔سامری نے اس کے بعد بنی اسرائیل سے کہا حضرت موسیٰ پہاڑ پر گم ہوگئے ہیں، وہ پہاڑ پر جس اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے تھے وہ نعوذ باللہ یہ بچھڑا ہے۔ ہم سب پر لازم ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واپس لوٹنے تک اس بچھڑے کی پرستش کریں۔ لوگ گمراہ ہوگئے اور انہوں نے بچھڑے کو سجدہ شروع کر دیا۔
سورہ طہ: تو موسیٰ اپنی قوم کی طرف غضبناک ہوکر افسوس کرتے ہوئے لوٹے (اور) فرمایا: اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہ کیا تھا؟ کیا مدت تم پر لمبی ہوگئی تھی یا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اتر آئے؟ پس تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی ہے۔
انہوں نے کہا: ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی لیکن قوم کے کچھ زیورات کے بوجھ ہم سے اٹھوائے گئے تھے تو ہم نے ان زیورات کو ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے ڈال دیا۔
تو اس نے ان لوگوں کے لیے ایک بے جان بچھڑا نکال دیا جس کی گائے جیسی آواز تھی تو لوگ کہنے لگے: یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا معبود ہے اور موسیٰ بھول گئے ہیں۔
تو کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ بچھڑا انہیں کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور ان کیلئے نہ کسی نقصان کا مالک ہے اور نہ نفع کا۔
اور بیشک ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا کہ اے میری قوم ! تمہیں اس کے ذریعے صرف آزمایا جارہا ہے اور بیشک تمہارا رب رحمٰن ہے تو میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔
بولے ہم تو اس پر جم کر بیٹھے رہیں گے جب تک ہمارے پاس موسیٰ لوٹ کر نہ آجائیں ۔ ۔ موسیٰ نے فرمایا: اے ہارون! جب تم نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تمہیں کس چیز نے میرے پیچھے آنے سے منع کیا تھا؟ کیا تم نے میرا حکم نہ مانا؟
ہارون نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو بیشک مجھے ڈر تھا کہ تم کہو گے کہ (اے ہارون!) تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور تم نے میری بات کا انتظار نہ کیا۔
موسیٰ نے فرمایا:اے سامری! تو تیرا کیا حال ہے؟ اس نے کہا: میں نے وہ دیکھا جو لوگوں نے نہ دیکھا تو میں نے فرشتے کے نشان سے ایک مٹھی بھر لی پھر اسے ڈال دیا اور میرے نفس نے مجھے یہی اچھا کر کے دکھایا۔
موسیٰ نے فرمایا: توتو چلا جاپس بیشک زندگی میں تیرے لئے یہ سزا ہے کہ تو کہے گا۔ ’’نہ چھونا‘‘ اور بیشک تیرے لیے ایک وعدہ کا وقت ہے جس کی تجھ سے خلاف ورزی نہ کی جائے گی اور اپنے اس معبود کو دیکھ جس کے سامنے تو سارا دن ڈٹ کر بیٹھا رہا ،قسم ہے :ہم ضرور اسے جلائیں گے پھر ریزہ ریزہ کرکے دریا میں بہائیں گے ۔ تمہارا معبود تو وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔
سزا: لوگوں کو سامِری سے ملنا، بات چیت کرنا وغیرہ منع ہوگیا، اگر کسی کا جسم اتّفاقاً اس کے جسم سے چھو جاتا تو دونوں کو شدید بخار ہوجاتا، وہ جنگل میں یہی شور مچاتا پھرتا تھا کہ ’’کوئی مجھے نہ چھوئے‘‘۔
قوم کو سزا: ” جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اب تم اسے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ کے نزدیک اسی میں ہے۔ پھر اس نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔” (البقرۃ: 54)
لہٰذا انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا جس میں بہت سے لوگ مارے گئے جنکی تعداد تقریباً ستر ہزار تھی۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! بنی اسرائیل قتل ہو رہے ہیں۔ اے اللہ! انہیں بچا لے تو اللہ پاک نے قتل کا حکم ختم فرما دیا اور بقیہ کی توبہ قبول فرما لی۔ جو قتل ہوۓ وہ شہید کہلاۓ اور بقیہ کیطرف کفارہ بنے۔