Haroot Maroot Farishty (ھاروت ماروت فرشتے)

ھاروت ماروت فرشتے

 

اللہ کریم نے سورہ بقرہ آیت نمبر102 میں فرمایا:اور اس کے پیرو ہوئے جو”شیاطین“ پڑھا کرتے تھے سلطنت ”سلیمان“ کے زمانے میں، اور سلیمان نے”کفر“نہ کیا بلکہ شیطان کافر ہوئے لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں۔ اور وہ (جادو) جو بابل میں دو فرشتوں ”ھاروت ماروت“ پر اُترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو بڑی”آزمائش“ ہیں تو اپنا ایمان نہ کھوتو ان سے سیکھتے جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں، اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے مگر”اللہ کے حکم“ سے، اور وہ سیکھتے ہیں جو ان کونقصان دے گا نفع نہ دے گا۔ اور بے شک انہیں ضرور معلوم ہے کہ جس نے یہ”سودا“ لیا اُس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، اور بے شک کیا بری چیز ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح ان کو علم ہوتا۔

1۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں عوام کی آزمائش جادو سے کی گئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شیطان جادوگروں کی جادو کی کتابیں اُن سے چھین کرچُھپا دیں اور وہ جادوگر انتظار کرتے رہے حتی کہ آپ کی وفات کے بعد عوام کو ورغلا کراپنی جادو کی کتابیں نکالیں اور مشہور کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جادو کے زور پر حکومت کرتے تھے۔اسلئے حضرت سلیمان علیہ السلام کو یہود جادوگر کہتے تھے لیکن قرآن کریم میں اللہ کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے بہتان دور کیا۔

2۔ اُس دور میں عوام شیطان جادوگروں سے جادو سیکھتی تھی اور شیطانوں کا کافر کہا گیا ہے اسلئے جادو گر کافر ہے کیونکہ باطل کو حق کر دکھانا سحر (جادو) ہے، رب سے دور اور شیطان کا مقرب ہونے کا ذریعہ جادو ہے، نظر بندی اور شعبدے بازی بھی جادو ہے۔جادو کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اگر اُس میں شرکیہ الفاظ ہوں تو شرک ہے۔

3۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک جادوگر نے ارتداد کیا، اسلئے مرتد ہو گیا اس کی سزا قتل ہے جبکہ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس سے توبہ کروائی جائے۔

4۔ ھاروت و ماروت دو فرشتے اللہ کریم کی طرف سے بھیجے گئے، فرشتے معصوم ہوتے ہیں، اسلئے ہاروت ماروت فرشتوں کے متعلق ان روایتوں کو تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے اللہ کریم سے کہا کہ یا اللہ یہ آدم گناہ کیوں کرتے ہیں، اللہ کریم نے ان کو دنیا میں بھیجا، زہرا نامی عورت پر عاشق ہو گئے، شراب پی، زنا کیا، قتل کیا، زہرا ستارہ بن گئی وغیرہ جیسی روایات ناقابل قبول ہیں۔زہرا ستارہ شروع سے ہی موجود ہے اور فرشتوں کی عصمت کی گواہی خود قرآن دیتا ہے۔باقی تفاسیر و احادیث میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ بندہ ایک نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا۔

5۔ ھاروت ماروت کہتے کہ ہم سے سحر سیکھو جس میں شرک نہ ہو، شریعت کے خلاف نہ ہو لیکن جادوگرشیطانوں والا نہیں لیکن عوام ان سے وہ سیکھتی جس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جائے، اسلئے ہمیشہ سے ہی انسان گھاٹے کا سودا کرتا رہتا ہے جس سے آخرت کا نقصان ہے۔

6۔ عوام کو یاد رکھنا چاہئے کہ ”باذن اللہ“ یعنی اللہ کریم کے حکم سے ہی جادو بھی اثر کرتا ہے ورنہ جادو بھی اثر نہیں کرتا۔ ایمان والے اس سے توکل کا درجہ حاصل کرتے ہیں لیکن جس عوام کی عقل سے یہ بات باہر ہے وہ کہتی ہے کہ جادو برحق ہے کیونکہ حضورﷺ پر بھی جادو ہو گیا، اسلئے جادوگروں کے پاس بھاگ بھاگ جاتی ہے تاکہ ہمیں بیماری کوئی نہ آئے اور رزق میں کبھی گھاٹا نہ ہو۔ ان دونوں کے علاوہ عوام کو کوئی بات پریشان نہیں کرتی۔

ھاروت ماروت کا قصہ اس سائنسی دور میں بھی بتاتا ہے کہ عوام کیسے توہمات کا شکار ہو کر مادی اسباب کو چھوڑ کر، بے روزگاری، بیماری، نفسیاتی عوارض اور دیگر مصائب دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدام اٹھانے کی بجائے، تعویذ و عملیات کے حصول کے لئے عاملوں کے چکر لگاتے ہیں، جس سے جعلی پیر اور عامل مرد کا مال اور عورت کی عزت بھی بے ایمان ہو کر لوٹ لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ جانی نقصان پہنچانا، نفسیاتی خلل ڈالنا، خاندانی فساد برپا کرنا اور بھائی کو بھائی سے لڑوانے کی سازشیں کرنا اور بدگمانی پیدا کرکے ہنستے بستے رشتوں کو منقطع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قبرستانوں سے لاشیں چوری کرنے کے لئے مردوں کی بے حرمتی اور دیگر شیطانی وارداتیں بھی ان کی وجہ سے ہیں۔
قرآن: اور وہ (جادو) جو بابل میں دو فرشتوں ”ھاروت ماروت“ پر اُترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو بڑی”آزمائش“ ہیں تو اپنا ایمان نہ کھوتو ان سے سیکھتے جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں، اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے مگر”اللہ کے حکم“ سے، اور وہ سیکھتے ہیں جو ان کونقصان دے گا نفع نہ دے گا۔ اور بے شک انہیں ضرور معلوم ہے کہ جس نے یہ”سودا“ لیا اُس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، اور بے شک کیا بری چیز ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح ان کو علم ہوتا۔ (سورہ بقرہ 102)
1۔ ھاروت و ماروت دو فرشتے اللہ کریم کی طرف سے بھیجے گئے، فرشتے معصوم ہوتے ہیں، اس پر مندرجہ ذیل دلائل ہیں:
وہ وہی کا م کرتے ہیں جن کا انہیں اللہ حکم فرماتا ہے (التحریم 66)
بلکہ ( فرشتے) ان کے مکرم بندے ہیں، اس (کی اجازت) سے پہلے بات نہیں کرتے اور وہ اسی کے حکم پر کار بند رہتے ہیں (الانبیاء 27 ۔ 26)
وہ (فرشتے) تکبر نہیں کرتے ،اپنے اوپر رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے(النحل 49 – 50)
اور جو اس کے پاس (فرشتے ) ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ وہ تھکتے ہیں رات اور دن اس کی تسبیح کرتے ہیں (اور ذرا) سستی نہیں کرتے (الانبیاء 19-20)
2۔ اسلئے ہاروت ماروت فرشتوں کے متعلق ان روایتوں کو تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے اللہ کریم سے کہا کہ یا اللہ یہ آدم گناہ کیوں کرتے ہیں، اللہ کریم نے ان کو دنیا میں بھیجا، زہرا نامی عورت پر عاشق ہو گئے، شراب پی، زنا کیا، قتل کیا، زہرا ستارہ بن گئی وغیرہ جیسی روایات ناقابل قبول ہیں۔ زہرا ستارہ شروع سے ہی موجود ہے اور فرشتوں کی عصمت کی گواہی خود قرآن دیتا ہے۔ باقی تفاسیر و احادیث میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ بندہ ایک نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا۔
مفسرین کی رائے
1۔ علامہ الوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: کہ یہ اور اس کے علاوہ بہت سی روایات جن کی طُرق کی تعداد بیس سے زائد ہے۔کثرتِ طُرق کے باوجود محدثین کی ایک جماعت نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے جن میں قاضی ایاز رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔انہوں نے فرمایا کہ یہ واقعہ اہل اخبار اور آثارنے بیان کیا ہے اور مفسرین نے بھی اس واقعہ کو ہاروت اور ماروت کے قصہ میں نقل کیا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ سے یہ واقعہ صحت و سقم کے ساتھ وارد نہیں ہوا۔ (روح المعانی۔307،306:1)
2۔ حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں:ہاروت و ماروت کے قصہ میں تابعین کی ایک جماعت نے روایت ذکر کی ہےاور متقدمین اور متاخرین مفسرین نے بھی اس کاذکر کیا ہے، جس کا مرجع بنی اسرئیل ہیں، اور اس قصہ میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی حدیث مرفوع صحیح متصل الاسناد مروی نہیں ہے، اور قرآن مجید میں ہاروت و ماروت کا قصہ بغیر کسی تفصیل کے اجمالاً ذکر ہے سوہم اُس پر ایمان لاتے ہیں جو قرآن میں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر :248،1)
3۔ علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں: یہ تمام روایات ضعیف ہیں، فرشتے اللہ کے سفیرہیں اور اس کی وحی پر ایمان ہے، وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے۔ (الجامع لاحکام القرآن :52،2)
4۔ امام رازی لکھتے ہیں: یہ تمام روایات فاسد، مردود اور غیر مقبول ہیں قرآن مجید میں فرشتوں کی عصمت بیان کی گئ ہے، اور یہ روایات ان کے مخالف ہیں۔ (تفسیر کبیر :429،1)
5۔ علامہ ابن حیان اندلسی لکھتے ہیں: ان روایات میں کوئی صحیح نہیں۔ (البحر المحیط:528،1)
6۔ جناب احمد رضا خان صاحب نے فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ہاروت اور ماروت کا واقعہ جس طرح عوام میں مشہور ہے آئمہ کرام اس کا شدید اور سخت انکار کرتے ہیں، اس کی تفصیل شفاء شریف اور اس کی شروحات میں موجود ہے، یہاں تک کہ امام اجل قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’ہاروت اور ماروت کے بارے میں یہ خبریں یہودیوں کی کتابوں اور ان کی گھڑی ہوئی باتوں میں سے ہیں۔ اور راجح یہی ہے کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی آزمائش کے لئے مقرر فرمایا کہ جو جادو سیکھنا چاہے اسے نصیحت کریں کہ ’’اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ‘‘ ہم توآزمائش ہی کے لئے مقررہوئے ہیں توکفرنہ کر۔ اور جو ان کی بات نہ مانے وہ اپنے پاؤں پہ چل کے خود جہنم میں جائے، یہ فرشتے اگر اسے جادو سکھاتے ہیں تو وہ فرمانبرداری کر رہے ہیں نہ کہ نافرمانی کر رہے ہیں۔ (الشفاء، فصل فی القول فی عصمۃ الملائکۃ، ص 175-176، الجزء الثانی، فتاوی رضویہ، کتاب الشتی، 26/ 397)
اس کے متعلق علامہ سیداحمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:مسند امام احمد سے ایک مرفوع روایت بطریق نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما تفسیر ابن کثیر میں منقول ہے جس کی بنیاد پر بعض مفسرین نے اس قصہ کی فی الواقع صحیح وثابت ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس کے جواب میں ابن کثیر نے کہا کہ اس روایت کا مرفوع ہونا درست نہیں۔ اقرب یہ ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے یہ قصہ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہی نہیں، بلکہ "کعب احبار” سے سناتھا جو پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئےوہ صحابی بھی نہیں تھے بلکہ وہ تابعی تھے۔ اور وہ یہودیت کے زمانہ میں بہت سی باتیں اور بہت سے قصہ یہودیوں سے سنا کرتے تھے اور وہ بطور حکایت صحابہ و تابعین کے سامنے بیان کردیا کرتے تھے، جس سے ان کی غرض یہودکے اقوال اور ان کے من گھٹرت قصوں کی توثیق وتصدیق ہوتی تھی۔
اسرائیلیات: کعب احبار کے بطور حکایت بیان کئےہوئے اِنہیں اقوال اور قصوں کو "اسرائیلیات” سے تعبیرکیا جاتاہے، جنہیں کعب احبار سے سن کر بعض صحابہ اور تابعین کے سامنے بیان کردیا کرتے تھے اور اس طرح وہ واقعات مسلسل نقل ہوتے چلے آئے۔ (کیونکہ) سننے اور بیان کرنے والے ثقہ ہوتے تھے اس لئے وہ روایات، روایت کے درجہ میں صحیح اور ثابت قرار پائیں مگر فی نفسہا وہ اقوال اور منقولہ واقعات واقع کے مطابق نہ تھے۔ ہاروت وماروت سے متعلق اِس قصہ کی روایات بھی اسی قبیل سے ہیں۔ ابن کثیر نے بطریق "سالم بن عبداللہ بن عمر” اسانید متعددہ سے ثابت کیا کہ "عبداللہ بن عمر” نے یہ قصہ ” کعب احبار” سے سنا "عبد اللہ بن عمر” سے روایت کرنے میں نافع کی یہ نسبت ان کے بیٹے "سالم بن عبد اللہ” اثبت اور احفظ ہیں اس لئے ان کی روایت راجح اور قابل قبول ہے۔ لہذا واضح ہوگیا کہ "عبداللہ بن عمر: کی جس روایت کو مرفوع کہا جاتاہے دراصل وہ بھی "کعب احبار” ہی سے مروی ہے، ایسی صورت میں دیگر روایات کی طرح یہ روایت بھی اسرائیلیات ہی میں شامل ہو گی۔ اس تفصیل سےواضح ہوگیا کہ ہاروت وماروت فرشتے کسی معصیت کے مرتکب نہیں ہوئے۔ (التبیان :263)
4۔ ھاروت ماروت کہتے کہ ہم سے سحر سیکھو جس میں شرک نہ ہو، شریعت کے خلاف نہ ہو لیکن جادوگرشیطانوں والا نہیں لیکن عوام ان سے وہ سیکھتی جس سے میاں بیوی میں جدائی ہو جائے، اسلئے ہمیشہ سے ہی انسان گھاٹے کا سودا کرتا رہتا ہے جس سے آخرت کا نقصان ہے۔
5۔ عوام کو یاد رکھنا چاہئے کہ ”باذن اللہ“ یعنی اللہ کریم کے حکم سے ہی جادو بھی اثر کرتا ہے ورنہ جادو بھی اثر نہیں کرتا۔ ایمان والے اس سے توکل کا درجہ حاصل کرتے ہیں لیکن جس عوام کی عقل سے یہ بات باہر ہے وہ کہتی ہے کہ جادو برحق ہے کیونکہ حضورﷺ پر بھی جادو ہو گیا، اسلئے جادوگروں کے پاس بھاگ بھاگ جاتی ہے تاکہ ہمیں بیماری کوئی نہ آئے اور رزق میں کبھی گھاٹا نہ ہو۔ ان دونوں کے علاوہ عوام کو کوئی بات پریشان نہیں کرتی۔
اسرائیلی روایات: ہاروت ماروت فرشتوں کے متعلق جتنی روایات ہیں وہ زیادہ تراسرائیلی روایات ہیں جس کے متعلق قانون ہے کہ تردید بھی نہیں کرتے اور ایمان بھی نہیں لاتے بلکہ خاموش ہیں۔
سوال: جادو جو کہ ناجائز تھا پھر ہاروت اور ماروت کیوں سکھاتے تھے؟ اس کا جواب یہ کہ اس میں حکمت الٰہیہ مضمر تھی کہ معجزہ سحر سے ممتاز ہوجائے، جس طرح سیدنا موسی علیہ السلام کے معجزہ عصا کا سحر سے ممتاز ہونا اور ساحروں کو علم سحر سے معلوم ہونا کہ (حضرت موسی کی طرف سے جو ظاہر ہوا) یہ سحر نہیں ہے یہ واقعی معجزہ ہے اورپھر ان ساحروں کا مسلمان ہونا۔
فرشتوں کاجادو کی تعلیم دینے کامقصد، معجزہ اور جادو میں فرق کرنے کے لئےتھا، تاکہ ظاہر ہوجائے کہ کون جادو پر عمل کرنے سے باز رہے کر ایمان پر مضبوط رہتا ہے اور کون جادو سیکھ کر اس پر عمل کر کے کفر کرتا ہے ۔ اور رہا یہ سوال کہ انبیاء کی بجائے فرشتوں سے یہ کام کیوں لیا گیا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام کا بنیادی کام لوگوں کوکفر وشرک سے بچنے کے لئے تعلیم دینا تھا، اگر وہ فرشتوں کی طرح سحر کی اعمال کفریہ شرکیہ کی تعلیم دیتے تو یہ ان کے بنیادی کام کے مخالف ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے فرشتوں کو مامور فرمایا۔
عقیدہ: اُس دور میں عوام شیطان جادوگروں سے جادو سیکھتی تھی اور شیطانوں کو کافر کہا گیا ہے، اسلئے جادو گر کافر ہے کیونکہ باطل کو حق کر دکھانا سحر (جادو) ہے، رب سے دور اور شیطان کا مقرب ہونے کا ذریعہ جادو ہے، نظر بندی اور شعبدے بازی بھی جادو ہے۔ جادو کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اگر اُس میں شرکیہ الفاظ ہوں تو شرک ہے۔
قانون: حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک جادوگر نے ارتداد کیا، اسلئے مرتد ہو گیا اس کی سزا قتل ہے جبکہ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس سے توبہ کروائی جائے۔
اتحاد امت: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم پر سب مسلمان اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ دوسرا اگر وہابی اور اہلحدیث ایک ہو کر، چاہے حنبلی ہوں یا غیر مقلد ہوں، اہلسنت سے مذاکرات کر لیں تو دین کو فائدہ ہو گا ورنہ 100 سالوں میں جو سیاست ہو رہی ہے اُس کا انجام لبرلز، سیکولر، غیر مسلم اور دیگر جماعتوں کا پروموٹ ہونے سے نکل رہا ہے۔
غیر مسلم: اہلتشیع حضرات کو مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ صحابہ کرام اور اہلبیت کا دین ایک تھا؟ دونوں نبوت کے فیضان سے منور ہوئے مگر دین میں پنجتن کی اصطلاح ڈال کر، امامت کو نبوت کے مقابل لا کر، رسول اللہ نے جن خلفاء کے فضائل بیان کئے ان کو نعوذ باللہ منافق بنا کر، سیدنا علی کے مخالف ایک دین ایجاد کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔ اسلئے ان سے صرف ایک سوال ہے کہ نبوت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا اور امامت نے کونسی تعلیم دے کر کونسے صحابہ کو مسلمان کیا۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general