تین واقعات
1۔ حضرت معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ بنانے کے لئے راہ ہموار کی، البتہ اُن کا یہ اجتہاد درست ثابت نہیں ہوا لیکن حضرت معاویہ کی اجتہادی غلطی سے حضرت معاویہ، صحابی رسول، کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان میں وہ شامل ہیں اور کوئی بڑے سے بڑا محقق و محدث بھی ان کو صحابیت سے نہیں نکال سکتا۔
2۔ البتہ اہلسنت دیوبندی و بریلوی کی رائے یزید کے بارے میں اچھی نہیں ہے بلکہ فاسق، پلید، گناہ گار وغیرہ کہتے ہیں۔ اہلحدیث حضرات میں سے کئی ان کو خلیفہ بھی مانتے ہیں اور اُس کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ اہلتشیع حضرات یزید کے نام کا پراپیگنڈا کر کے خود کو حُسینی ثابت کرتے ہیں اور 12 امام کے نام پر ایک نیا دین متعارف کرواتے ہیں حالاکہ رسول اللہ، صحابہ کرام اور اہلبیت کے دور میں کوئی اہلتشیع نہیں تھا اور نہ ہی کسی اہلتیشع سے سیدنا علی نے اپنی بیٹیوں کا نکاح کیا۔
3۔ اہلتشیع حضرات کی بنیادی کتابیں اصول اربعہ کا اسلام نبی کریم ﷺ کے بعد شروع ہوتا ہے جس میں صحابہ کرام کو برا بھلا کہا جاتا ہے اور سیدنا علی کی اولاد کو امام بنا کر عقیدہ امامت سے ایک نیا دین قائم کیا جاتا ہے حالانکہ عقیدہ امامت سیدنا علی پر بہتان ہے کیونکہ تاریخ میں ہی وہ چوتھے خلیفہ ہیں جو صحابہ کرام کے اجماع سے بنے۔
تین سیاہ واقعات
1۔ حضرت حسین بن علی، ان کے خاندان کے چھوٹے بڑے بچے اور اُن کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کو یز ید کی فو ج نے شہید کر دیا۔ (تاریخ طبری، ج 5، ص 454، 455 ماخوذاً)
2۔ واقعۂ حَرَّہ: جب یزید کے خلاف تحریک چلی اور اُس کی بیعت توڑ دی گئی تو یزید نے مدینہ منورہ میں فوج بھیجی جس نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا، مسجد نبوی کا تقدس پامال کیا، عورتوں اور مردوں سے زیادتی کی۔ (وفاء الوفا، ج 1، ص 125 ماخوذاً) یزیدی لشکرنے صرف قتل وغارت ہی پر اِکْتِفا نہ کیا بلکہ وہاں پر خوب لوٹ مار مچائی، تین دن تک مدینۂ طیبہ میں ہر ناجائز کام ان ظالموں نے کیا۔ (البدایۃ والنہایۃ،ج 5، ص 732 ماخوذاً) مسجدِ نبوی شریف کی بھی شدید بےحُرمتی کی، جس مسجد میں رسولِ کریم ﷺ نے صحابۂ کرام کے ساتھ نمازیں ادا فرمائیں اس پاکیزہ مسجد میں گھوڑے باندھے۔ (وفاء الوفا،ج 1،ص126 ماخوذاً)
ایامِ حرّہ میں مسجد نبوی میں تین دن تک اذان واقامت نہ ہوئی۔ نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک سے ہلکی آواز آتی جسے سن کرجلیل القدرتابعی بزرگ حضرت سعید بن مُسَیَّب نمازوں کے اوقات پہچان لیتے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ج 2، ص 400، حدیث: 5951 ملتقطا)
(3) حضرت عبداللہ بن زبیر کو مکہ مکرمہ میں خلیفہ بنا لیا گیا تھا، اسلئے واقعہ حرہ کے بعد بیت اللہ کا محاصرہ کر لیا، بیتُ اللہ شریف پر منجنیقوں سے پتھر پھینکے جس سے خانۂ کعبہ میں آگ لگ گئی اور اس کے پردے جل گئے۔ کعبہ کی چھت پر سیّدنا اسماعیل کے فدیے میں جنّت سے بھیجے گئے دُنبے کے سینگ محفوظ تھے وہ متبرک سینگ بھی اس آگ کی نذر ہو گئے۔ ابھی یہ قبیح افعال جاری ہی تھے کہ یزید پلید کی موت کی خبر آگئی۔ (تاریخ الخلفاء، ص 167 مفہوماً، الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 464)
موت: یزید پلید صرف تین برس اور چھ ماہ تختِ حکومت پر خباثتیں کر کے ربیع الاوّل 64ھ کو ملک شام کے شہر حمص کے علاقے حُوّارِین میں کم و بیش 39 سال کی عمر میں مر گیا۔ (الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 464)
تفصیلات: یزید پلید کو خلیفہ کہنے والے اور اس کا دفاع کرنے والوں کے دلائل کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔ اہلسنت کی رائے بھی کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا دین ہو گا مگر ہم اہلسنت کے ساتھ ہیں۔ اہلسنت دیوبندی یا بریلوی نہیں بلکہ ہر مسلمان جو اجماع امت کے دور یعنی خلافت عثمانیہ کے 600 سالہ دور میں اہلسنت علماء کرام حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے متفقہ عقائد و اعمال پر ہے وہ مسلمان اہلسنت کہلاتا ہے۔ اہلحدیث اور اہلتشیع دونوں فرقے ہیں جن کے درمیان یزید کے بارے میں نورا کشتی جاری رہتی ہے اور اہلسنت کو بھی کہتے ہیں کہ تم یزید کو خلیفہ مانتے ہو حالانکہ یہ سب جھوٹ ہے۔