دین اور امتحان

دین اور امتحان

 

اعلانِ نبوت کے بعد تین برس تک خاموشی سے تبلیغ کی گئی۔ پھر سورۂ شعراء 216 :’وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘ ترجمہ: اور آپ ﷺ اپنے قریبی خاندان والوں کو اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرائیں” ۔ جس پر رسول اللہ ﷺ نے کوہِ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر قبیلہ قریش کو پکار کر اللہ کریم کی واحدانیت کا درس دیا، جس پر صادق و امین کہنے والے ناراض ہو گئے اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے لگے جس میں ابو لہب پیش پیش تھا۔ (مکمل واقعہ صحیح بخاری 4770 کمنٹ سیکشن میں )۔
اعلانِ نبوت کے چوتھے سال سورۂ حجر 94 :’’ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‘‘ یعنی آپ ﷺ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی الاعلان بیان فرمائیے۔ اس کے بعد تبلیغ اور تکالیف کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔(المواہب، ذکر اوّل من آمن باللّٰہ ورسولہ، 1 / 461-462)
پہلا واقعہ: فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَر‘‘ نازل ہوئی نبی کریم ﷺ نے توحید کا اعلان کیا، مشرکین مکہ نے ہنگامہ بپا کیا، سب پل پڑے، حارث بن ابی ہالہ (حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے خاوند سے بیٹے) گھر میں موجود تھے وہ بچانے آئے اور شہید ہو گئے۔ (اصابہ فی احوال الصحابہ ذکر حارث بن ابی ہالہ، بحوالہ سیرت النبی، ج: 1، ص: 314)
دوسرا واقعہ: ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں نے تو عہد کیا ہے کہ میں سجدے میں گئے محمد (ﷺ) کا سر کچل دوں گا، چاہے تم میرا ساتھ دو یا نہ دو، بعد میں بنو عبد۔ مناف جو مرضی سلوک مجھ سے کریں۔ ساتھی اس کے ساتھ ہو گئے مگر جب ابوجہل پتھر لے کر آپ کے قریب پہنچا، ڈرا، پتھر نیچے رکھا اور بھاگ کر واپس ہوا، ساتھیوں نے پوچھا یہ کیا ہوا؟ کہنے لگا: جب میں محمد(ﷺ) کے پاس ہوا تو تو ایک مہیب شکل کا اونٹ، ڈرائونی کھوپڑی، گردن اور ایسے ڈرائونے دانت کہ میں نے پہلے نہیں دیکھا، وہ اونٹ مجھے نگل جانا چاہتا تھا اور میں نے مشکل سے پیچھے ہٹ کر اپنی جان بچائی تھی۔ (ابن ہشام، 1:298۔299، بحوالہ الرحیق المختوم، ص:151)
تیسرا واقعہ: نبی کریم ﷺ کعبہ میں نماز ادا کر رہے، عقبہ بن ابی معیط نے اپنی چادر حضور ﷺ کی گردن میں ڈالی، آنکھیں باہر آئیں، قریب تھا کہ دم گھٹ جاتا کہ اتنے میں سیدنا ابوبکر آن پہنچے انہوں نے زور سے دھکا دے کر، اُسے حضور ﷺ سے دور کیا اور فرمایا:کیا تم ایک شخص کو محض اس لئے مار ڈالناچاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، در آنحالے کہ وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔(صحیح بخاری 4815)جب عقبہ نے آپ کی گردن میں چادر ڈال کر زور سے گھونٹا تو آپؐ کے منہ سے چیخ نکل گئی کہ ’’اپنے ساتھی کو بچائو‘‘ آپ کی یہ چیخ سن کر ہی حضرت ابوبکر آپ کی مدد کے لئے آئے تھے اور جب حضرت ابوبکر نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین حضرت ابوبکر پر حملہ آور ہوگئے اور جب حضرت ابوبکر واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔(مختصر سیرت الرسول، ص: 13، بحوالہ الرحیق المختوم، ص:153)
چوتھا واقعہ: حضرت عمر ، اسلام لانے سے قبل، جوش میں، ننگی تل وار لے کر حضور ﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے نکلے، راہ میں ایک مسلمان حضرت نعیم بن عبداللہ ملے، ارادہ جان کر کہنے لگے، پہلے اے عمر اپنے گھر کی خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں۔ غصے میں بہن کے گھر پہنچے، اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی ہے، حضرت خباب بن ارت قرآن کی تعلیم دے رہے تھے دروازہ کھٹکھٹایا، درواز کُھلنے پر حضرت عمر نے اپنے بہنوئی کو مارا، بہن آئی بچانے تو اسے بھی مار مار کر لہو لہان کر دیا جس پر بہن فاطمہ نے کہا کہ اے عمر: مار ڈالو مگر اسلام نہیں چھوڑیں گے جس پر دل نرم پڑا، کلام الہی سننے کی فرمائش کی اور دل ہی بدل گیا، وہیں سے دار ارقم رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے اور اسلام قبول کر لیا۔ (سیرت النبی، ج:1، ص: 228، بحوالہ طبقات ابن سعد و ابن عساکر و کامل لابن الاثیر)
پانچواں واقعہ: شَعَبِ ابی طالب میں معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ ابوجہل تھا، اس مقاطعہ کی شرائط کہ بنو ہاشم اور بنو عبد ِمناف سے نہ کوئی لین دین کیا جائے، نہ بول چال رکھی جائے گی اور نہ ہی رشتہ ناطہ کیا جائے یہاں تک کہ لوگ مجبور ہو کر محمد(ﷺ) کو ہمارے حوالہ نہ کر دیں۔ یہ تحریر وادی محصب (کا ذکرصحیح بخاری 7479 ) میں جمع ہو کر اور لکھ کر کعبہ کے دروازے پر لٹکا دی گئی، مقصد سب ایمان والوں کا خاتمہ کر دینا تھا، تین سال کے صبر آزما اور پرمشقت دور کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس تدبیر کو بھی ناکام بنا دیا۔
چھٹا واقعہ: چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو لے کر چچا ابوطالب کے پاس آ کر کہنے لگے کہ یہ عمارہ قریش کا سب سے خوبصورت نوجوان ہے اس کو اپنی کفالت میں لے کر اپنا متبنّیٰ بنا لو، اس کے عوض اپنے بھیتجے کو ہمارے حوالہ کر دو، جو ہمارے آبائو اجداد کے دین کا مخالف اور ان کو احمق قرار دےکر قوم کا شیرازہ بکھیر رہا ہے، ہم اسے قت ل کردینا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔ چچا ابو طالب نے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ میں عمارہ کو پالوں اور اس کے عوض تم میرے بیٹے کو قت ل کر دو۔ اس پر مطعم بن عدی نے کہا کہ ہم نے تو انصاف کی بات کی ہے جس پر چچا ابوطالب کہنے لگے: مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا ساتھ چھوڑ کر میرے مخالفین سے مل گئے ہو لیکن میں نے اپنا بیٹا قتل ہونے کے لئے تمہارے حوالے نہیں کرنا (ابن ہشام، 1:266 ،267، بحوالہ الرحیق المختوم، ص: 145)
ساتواں واقعہ: ہجرت کا سبب بھی حضور ﷺ کو شہید کرنے کی سازش تھی، مجلس مشاورت میں ابلیس شیطان خود شامل ہوا اور طے یہ پایا کہ مختلف قبائل کے 11 آدمی نبی کریم ﷺ کے گھر کے محاصرہ کر کے، یکبارگی حملہ کر کے آپ کو شہید کر دیں گے، اس کی اطلاع حضور ﷺ کو بذریعہ وحی ہو گی اورہجرت کا حُکم ہو گیا تھا۔
آٹھواں واقعہ: ادھر ہجرت ہوئی، ادھراعلان ہو گیا کہ جو شخص حضور ﷺکو قتل کر دے یا زندہ گرفتار کر کے لائے تو ہر ایک کے بدلے ایک سو اونٹ اسے بطور انعام دئے جائیں گے اور سراقہ کا واقعہ مکمل طور پر صحیح بخاری 3906 میں موجود ہے۔
نواں واقعہ: عمیر بن وہب جہمی مسلمانوں کا دشمن تھا، میدان بدر میں اس کا بیٹا وہب گرفتار ہو گیا۔ عمیر نے صفوان بن امیہ سے بدر کے کنویں میں پھینکے گئے 70 مشرکین مکہ کا ذکر کا تو صفوان کہنے لگا: اب تو جینے کا مزہ ہی نہیں ہے تو عمیر کہنے لگا: اگر میرے سر پر قرض اور اہل و عیال نہ ہوتے تو میں محمد ﷺ کو مدینے جا کر قتل کر دیتا۔ صفوان کہنےلگا: تمہارا قرض میں ادا کروں گا اور تیرے بچے بھی پالوں گا تو محمد ﷺ کو شہید کر دے۔ عمیر نے تل وار کو زہر لگایا ، مدینہ منورہ پہنچا۔ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: عمیر کیسے آنا ہوا؟ کہنے لگا: بیٹے کو ملنے۔ نبی کریم ﷺ نے صفوان اور عمیر کا تمام واقعہ بیان کر کے کہا کہ تم مجھے مارنے آئے ہو۔ عمیر نے کہا کہ آپ ﷺ سچے نبی ہیں، یہ واقعہ کسی کو معلوم نہیں تھا اور ایمان لے آیا۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور ا س کے بیٹے کو آزاد کردو۔ مکہ مکرمہ میں موجود لوگ جو عمیر سے امیدیں لگائے ہوئے تھے، عمیر کے مسلمان ہونے پر اس سے تعلق نہ رکھنے کی قسمیں کھانے لگے۔ عمیر اسلام سیکھ کر چند دن مکہ آئے اور یہاں آکر دعوت کا کام شروع کردیا اور ان کے ذریعہ بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔(ابن ہشام، 1:661 تا 663، بحوالہ الرحیق المختوم، ص: 272)
دسواں واقعہ: بَابُ غَزْوَةُ الرَّجِيعِ وَرِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبِئْرِ مَعُونَةَِ غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان، صحیح بخاری 4086، 4088، 4090، 4091، 4093 میں مختلف واقعات میں دھوکہ دہی سے مسلمانوں کو شہید کرنے کے واقعات لکھے ہیں۔ ستر قاریوں میں سے صرف عمرو بن امیہ ضمری بچے جو مشرکین کی قید سے نکل بھاگے اور راستے میں دو آدمیوں کو جن سے نبی کریم ﷺ کا معاہدہ تھا، غلطی سے دشمن سمجھ کر مار دیا (الرحیق المختوم، ص:461) نبی کریم ﷺ ان کی دیت دینا چاہتے تھے اور یہود بھی معاہدہ کی رو سے دیت میں برابر کے شریک تھے۔ آپ یہود کے قبیلے بنو نضیر کے پاس گئے، مکان کے صحن میں ٹیک لگا کر بیٹھے، یہود نے کہا کہ ہم دیت کی رقم لے کر آتے ہیں لیکن یہود نے مشورہ کر کے، نبی کریم ﷺ پر مکان کی چھت سے چکی کا پاٹ گرا کر قتل کرنے کو تیار ہو گئے (الرحیق المختوم، ص 462) نبی کریم ﷺ کو بذریعہ وحی علم ہوا تو وہاں سے اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہو گئے۔
گیارھواں واقعہ: سلام بن مُشکم کی بیوی اور مرحب کی بیٹی زینب نے حضور ﷺ کو کھانے کی دعوت دی جو آپ ﷺنے قبول کر لی، اُس نے زہر آلود بکری سے سالن تیار کیا، پہلا لقمہ ڈالتے ہی آپﷺکو زہر کا اثر محسوس ہونے لگا اور آپ ﷺ نے کھانے سے فورا ً ہاتھ کھینچ لیا لیکن حضرت بشیرؓ بن براء نے چند لقمےلئے جس سے وہ ایک دو دن بعد شہید ہو گئے پہلے تو حضور ﷺ نے عورت کو معاف کر دیا لیکن صحابی کی وفات کی وجہ سے اس عورت کو سزا میں قتل کروا دیا۔(صحیح بخاری 4249 ، الرحیق المختوم، ص: 598) صحیح بخاری 4428: آخری وقت تک حضور کو زہر کا اثر محسوس ہوتا تھا۔
بارھواں واقعہ: حضرت عبداللہ بن حذافہؓ سہمی کے ہاتھ بحرین کے حاکم (منذر بن ساویٰ) کو رسول اللہ ﷺ نے خط دے کر روانہ کیا۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط شاہِ ایران کو بھیج دیا۔ کسریٰ نے جب خط پڑھا تو اسے اپنی توہین و تحقیر سمجھتے ہوئے: غصہ سے خط پھاڑ ڈالا۔ آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! ان لوگوں کو بھی ایسے ہی چاک کر دے اور آپ کی یہ دعا ان لوگوں کے حق میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ ۔(صحیح بخاری 64 اور 4426) کہتے ہیں کہ خسرو نےخط ہی نہیں پھاڑا بلکہ دو آدمی نبی کریمﷺکو بلانے بھیجے جنہوں نے کہا: شہنشاہِ کسریٰ نے تم کو بلایا ہے اگر تعمیل حکم نہ کرو گے تو وہ تمہیں اور تمہارے ملک کو تباہ کردے گا۔ آپ ﷺنے ان آدمیوں سے کہا کہ ’’اچھا تم کل آنا‘‘ جب وہ دوسرے دن حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے شہنشاہِ عالم کو تو آج رات اس کے بیٹے نے قتل کر ڈالا ہے۔ تم واپس چلے جائو اور اس سے کہہ دینا کہ اسلام کی حکومت ایران کے پایہ ٔ تخت تک پہنچے گی۔ ‘‘ وہ جب یمن واپس آئے تو وہاں خسرو کے قتل کی خبر پہنچ چکی تھی، یہ ماجرا دیکھ کر وہ لوگ مسلمان ہو گئے۔(سیرت النبیؐ، ج:1، ص: 482)
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general