ولادت و وفات حضور ﷺ
دن: جب اللہ کے رسولﷺ سے پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "یہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا”۔ (صحیح مسلم: 1162)
کیلنڈر: حضور ﷺ جب پیدا ہوئے تواس وقت کسی مشہور واقعے سے تاریخ متعین کر دی جاتی تھی جیسے عام الفیل، عام الحزن۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں حضور ﷺکی ہجرت کے بعد سے ہجری سال سے کیلنڈر بنایا گیا۔ اسلئے آج تک مشہور شخصیات کی تاریخِ پیدائش اور وفات میں اختلاف موجود ہے۔
تاریخ ولادت اور وفات پر مختلف روایات اور جمہور علماء پر اعتماد
تاریخ ولادت: بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث حضرات سے ثابت ہے کہ "جمہور علماء” کے نزدیک حضور ﷺ کی پیدائش و وفات 12 ربیع الاول ہی ہے:
1۔ دیوبندی حضرات کے نزدیک تاریخ ولادت
دیوبندی ادارے، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، فتوی نمبر : 143503200007 میں لکھا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں کی آراء مختلف ہیں، البتہ مشہور اور راجح قول یہ ہے کہ 12 ربیع الاول کو پیدائش ہوئی۔
جناب ابو القاسم محمد رفیق دلاوری دیوبندی لکھتے ہیں کہ : حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ٰﷺ دوشنبہ کے دن 12 ربیع الاوّل صبح صادق کے وقت مکہ معظمہ کے محلہ شعب بنو ہاشم میں اس مقام پرظہور فرماہوئے۔ (سیرت کبریٰ ج 1 ص 224)
مفتی اعظم محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں کہ : ماہ ربیع الاوّل کی بارھویں۔۔۔ہمارے آقا ئے نامدار محمد رسول اللہ ﷺ رونق افروز عالم ہوتے ہیں۔۔۔مزید لکھتے ہیں کہ : (آپ ﷺ کی ولادت کے متعلق)مشہور قول بارھویں تاریخ کا ہے۔ (سیرت خاتم الانبیاء ص 20)
علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی : جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاوّل تاریخ ولادت شریف ہے۔ ( ارشاد العباد فی عیدالمیلاد صفحہ 5)
امام التفسیر احمد علی دیوبندی لاہوری لکھتے ہیں کہ : احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ رحمۃ للعالمین ﷺ 12 ربیع الاوّل بیس اپریل 571ء پیر کے دن عرب دیس کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے۔(ہفت روز خدام الدین ، مارچ 1977ء)
علامہ سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ) پیدائش 12 تاریخ کو ربیع الاوّل کے مہینے میں پیرکے دن حضرت عیسٰی ؑسے پانچ سوا کہتر (571) برس بعد ہوئی۔(رحمت عالم صفحہ 13 طبع مکتبہ دارارقم)
اہلحدیث حضرات کے نزدیک تاریخ ولادت
اہلحدیث حضرات کے ایک فتوی میں مختلف تاریخ لکھنے کے بعد لکھا گیا کہ "چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی، اسی موقف کی صراحت ابن اسحاق نے کی ہے، اور ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف” میں عفان سے انہوں نے سعید بن میناء سے انہوں نے جابر اور ابن عباس دونوں سے روایت کیا ہے، اور دونوں کہتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ عام الفیل بروز سوموار 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، سوموار کے دن ہی آپ مبعوث ہوئے، اور اسی دن آپکو معراج کروائی گئی، اور اسی دن آپ نے ہجرت کی، اور اسی دن آپ فوت ہوئے، جمہور اہل علم کے ہاں یہی مشہور ہے۔ واللہ اعلم (السيرة النبوية 1 / 199)
جماعت اہلحدیث کے مفسر مولوی نواب صدیق حسن بھوپالی لکھتے ہیں: ولادت شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجر کے روز دو شنبہ شب دواز دہم ربیع الاوّل عام فیل کو ہوئی۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے۔ ابن الجوزی نے اس پر اتفاق نقل کیا ہے ۔(اشمامۃ العنبریہ من مولد خیرالبریہ، ص 7)
اہلحدیث کے مشہور مولوی عبدالستار اپنے پنجابی اشعار پر مشتمل کتاب میں لکھتے ہیں کہ :
بارھویں ماہ ربیع الاوّل رات سو سوار نورانی
فضل کنوں تشریف لیایا پاک حبیب حقانی
(کرام محمدی صفحہ 270)
ابراہیم میر صادق سیالکوٹی اہلحدیث لکھتے ہیں کہ : بہار کے موسم بارہ ربیع الاوّل (22 اپریل 571ء) سونموار کے روز نور کےتڑکے……..امت محمدیہ کے زہےنصیب کہ یہ آیہ رحمت اسے عطا ہوئی ۔ (سیدالکونین ،ص 59۔60)
بریلوی حضرات کے نزدیک تاریخ ولادت
بریلوی حضرات کا موقف:اس (ولادت کی تاریخ کے بارے) میں سات اقوال ہیں: دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس مگر اشہر و اکثر و مأخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکۂ معظّمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولِد اقدس کی زیارت کرتے ہیں ۔ کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواھب لدنیہ اورمدارج نبوۃ میں ہے) اورخاص اس مکانِ جنّت نِشان میں اسی تاریخ میں مجلسِ میلادِ مقدّس ہوتی ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 411)
شَرْعِ مُطہّر میں مشہور بینَ الجمہور ہونے کے لئے وقعت عظیم ہے (یعنی جوموقف اکثر علما کا ہووہ خود ایک بہت بڑی دلیل ہوتی ہے)اور مشہور عندَ الجمہور 12ربیع ُالاوّل ہے اور علِم ھَیْئَت و زیجات کے حساب سے روز ولادت شریف 8ربیعُ الاوّل ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں’’ تعامل مسلمین حرمین شریفین و مصر وشام بلاد اسلام و ہندوستان میں بارہ ہی پر ہے ۔ اس پر عمل کیا جائے۔الخ ( فتاویٰ رضویہ، ج 26، ص 427)
تاریخ وفات
اسی طرح تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے، مشہور قول کی بنا پر 12 ربیع الاول سن 11 ہجری بروز پیر کو وفات ہوئی۔
اہلحدیث حضرات کا فتوی
آپ ﷺ کی وفات کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات سوموار کو ہوئی، اور ابن قتیبہ سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کی وفات بدھ کے دن ہوئی تو یہ درست نہیں ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ انکی مراد نبی ﷺ کی تدفین ہو، تو یہ درست ہے کہ آپ ﷺ کی تدفین بدھ کے دن ہوئی، وفات کے سال کے متعلق بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ سن گیارہ ہجری میں ہوئی اور ماہِ وفات کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات ربیع الاول میں ہوئی جبکہ اس مہینے کے دن کے متعلق علمائے کرام میں اختلاف ہے کہ:
1- تو جمہور علمائے کرام 12 ربیع الاول کے قائل ہیں۔
2- خوازمی کہتے ہیں کہ آپکی وفات ربیع الاول کی ابتدا میں ہوئی تھی۔
3- ابن کلبی ، اور ابو احنف کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاول کو ہوئی، اسی کی جانب سہیلی کا میلان ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے جبکہ مشہور وہی ہے جس کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موقف ہے کہ آپ ﷺ کی وفات 12 ربیع الاول سن گیارہ ہجری کو ہوئی تھی۔
دیکھیں: ” الروض الأنف ” از: سہیلی: ( 4 / 439 ، 440 ) ، ” السيرة النبوية ” از: ابن كثير( 4 / 509 ) ، ” فتح الباری ” از: ابن حجر ( 8 / 130 )
بریلوی حضرات کا موقف
1۔ تاریخ وفات شریف اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات شریف کے بارے میں ایک استفتا کے جواب میں رقم طراز ہیں: ”قول مشہور و معتمد جمہور دواز دہم ربیع الاول شریف ہے۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد نمبر 26 صفحہ نمبر 415)
2۔ اعلیٰ حضرت یہ فرمارہے ہیں کہ یہ قول مشہور ہے اور جمہور یعنی اکثر علما نے اِسی قول پر اعتماد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اقدس 12ربیع الاول ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک 13ربیع الاول ہے اور جمہور کے قول 12 ربیع الاول کی 13 ربیع الاول کے ساتھ یوں تطبیق فرماتے ہیں:”اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقتاً بحسب رؤیتِ مکۂ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی۔ مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی (یعنی چاند نظر نہیں آیا) لہٰذا اُن کے حساب سے بارہویں ٹھہری وہی رُواۃ (یعنی روایت کرنے والوں) نے اپنے حساب کی بناہ پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ و غیرھم محدثین و محققین ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 417)
دیوبندی فتوی کے مطابق
اسی طرح تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے، مشہور قول کی بنا پر 12 ربیع الاول سن 11 ہجری بروز پیر کو وفات ہوئی، لیکن تحقیق کے مطابق یہ قول درست نہیں ہے۔ بعض نے یکم ربیع الاول کو اور بعض نے 2 کو تاریخ وصال قرار دیا ہے، علامہ سہیلی نے روضۃ الانف میں اور علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
مزید تحقیق
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پیرکے دن ہوئی، اور صحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی(81) دن کے بعد آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔اس حساب سے 12/ربیع الاول کو پیر کا دن کسی طرح نہیں پڑتاہے،لہٰذا علامہ ابن حجرعسقلانی ہی کی رائے کو ماننا پڑے گا کہ آپ کی وفات دو (2)ربیع الاول بروزپیر کو ہوئی۔
علامہ سہیلی(متوفی 581 ھ)نے روض الانف میں، علامہ تقی الدین ابن تیمیہ متوفی 728 ھ) نے منہاج السنة میں، علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی میں یکم/ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعی متوفی 930 ھ) نے حدائق الانوارمیں، مفتی محمد شفیع دیوبندی مفتی اعظم پاکستان )نے سیرت خاتم الانبیاء میں، میاں عابداحمد نے شانِ محمد ﷺ میں دوم ربیع الاول لکھاہے، سیرت خاتم الانبیاء کے حاشیہ میں لکھاہے۔
تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ 12/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج 9 ذی الحجہ روزجمعہ کو ہواان دونوں باتوں کے ملانے سے 12 ربیع الاول روز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجر نے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے 2 کا 12 بن گیا۔ حافظ مغلطائی نے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم
بارہ ربیع الاول 11 ہجری کوپیرکادن کسی حساب سے نہیں پڑتا، اس لحاظ سے رسول اللہ ﷺ کی وفات یکم / یادوم ربیع الاول بروز پیر کو صحیح معلوم ہوتی ہے۔اوریہ تاریخ 28 مئی 632 عیسوی ہوتی ہے۔جس وقت آپ ﷺ کا وصال ہوااس وقت مدینہ میں دوم/ربیع الاول 11 ہجری مطابق 28/مئی 632 عیسوی پیر کا دن تھا اور دوسرے علاقوں میں یکم /ربیع الاول 11ہجری مطابق 28 مئی 632 عیسوی پیرکا دن ہوگا۔ اس حساب سے یکم/اور دوم ربیع الاول کا اختلاف ختم ہوگا۔غرض ہرجگہ پرپیرکادن تھااور 28 مئی 632 عیسوی کی تاریخ تھی، ہجری تاریخ مختلف ملک میں مختلف ہوسکتی ہے۔
نتیجہ: حضور کی ولادت اور وفات سے نبی کریم کے ذکر کاکوئی تعلق نہیں یعنی میلاد سے اور نہ ہی میلاد کا کوئی طریقہ کار ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ طریقہ کار ہے:
حضور ﷺ کے ذکر کرنے کو میلاد کہتے ہیں۔ البتہ حضور ﷺ کا "ذکر” کرنے میں کوئی بھی شرط، فرض، واجب نہیں ہے جیسے نماز کی شرائط، فرائض، واجبات ہوتے ہیں۔ اسلئے حضور ﷺ کے ذکر کا کسی دن، رات، مہینہ، ہفتہ، سال یا 12 ربیع الاول سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، جب چاہیں اور جس وقت مرضی چاہیں حضور ﷺ کا ذکر کریں۔ میلاد کی دو صورتیں ہوتی ہیں:
1۔ اللہ کریم سے ثواب لینے کے لئے حضور ﷺ کا "ذکر” احادیث سُنا کر، درود و سلام اور نعت سُن سُنا کر یا سیرت بیان کر کے کرنا اور حضور ﷺ کو ہدیہ، تحفہ بھیجنا۔
2۔ اللہ کریم کے لئے غریبوں کو کھانا کھلا کر، روزہ رکھ کر، قرآن پاک پڑھ کرجو ثواب اللہ کریم دے، اُسے حضور ﷺ کے لئے ہدیہ، تحفہ، نذرانہ بھیجنا کیونکہ ایصال ثواب کا لفظ نبی کریم ﷺ کے لئے بہتر نہیں ہے۔
ان دونوں طریقوں کا تعلق اجتماعی صورت میں نہیں بلکہ انفرادی صورت میں بھی ہے لیکن اجتماعی طور پر منع بھی نہیں ہے۔
رائے: عوام کو سمجھانے اور جہالت دور کرنے کے لئے عید میلاد النبی ﷺ، جشن عید میلاد النبی ﷺ وغیرہ کے الفاظ ختم کر کے "ذکر حضور ﷺ” کا نام استعمال کریں ورنہ جشن کے نام پر عوام بہت کچھ کر رہی ہے۔
بدعت: دیوبندی کی المہند کتاب اور بریلوی حضرات کے فتاوی رضویہ میں میلاد کو مستحب کہا گیا ہے یعنی کر لیں تو ثواب اور نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں لیکن جو لوگ مروجہ و رسم و رواجی طریقے سے حضور ﷺ کا ذکر نہیں کرتے ان کو وہابی، دیوبندی، کہنے والے اہلسنت نہیں ہو سکتے۔ البتہ حضور ﷺ کے ذکر کو روکنے والے بھی گناہ گار ہیں۔