یا اللہ مدد ۔۔۔ یا رسول اللہ مدد
پہلی بات: اللہ کریم ہر ایک کی دعا بغیر وسیلے کے بھی قبول فرماتا ہے اور وسیلہ ڈالنا احادیث کے مطابق جائز ہے۔
دوسری بات: یا رسول اللہ مدد بھی کہنے سے مدد نبی کریم ﷺ نے نہیں بلکہ اللہ کریم نے ہی کرنی ہے کیونکہ یا رسول اللہ مدد پکارنا بھی وسیلے کی ایک قسم ہے۔
تیسری بات: علم کے بغیر پُکارنے والا مشرک بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جاہل کا دین جہالت ہے۔
چوتھی بات: صحیح احادیث کے اصول پر عمل کرنے والی اہلحدیث جماعت کا اہلسنت جماعت کے اصول سے فرق ہے کیونکہ اہلحدیث جماعت سے پوچھ لیں کہ نماز کا ایک طریقہ صحیح احادیث سے کس نے سکھایا تو رولا ڈالیں گے مگر بتا نہیں سکیں گے۔
پانچویں بات: 24 گھنٹوں میں ہر لمحہ اللہ کریم بن مانگے ہمارے نیک اعمال پر ہماری مدد ثواب، رحمت، برکت، اجر اور درجہ بلند کر کے فرماتا ہے۔ کسی بھی مشکل میں بھی اللہ کریم فرشتوں، جنوں، انبیاء و اولیاء کی ارواح، ابابیلوں وغیرہ (اسباب) سے مدد فرماتا ہے، چاہے ہم دعا کریں یا نہ کریں۔ اسلئے حقیقی مددگار ہر وقت اللہ کریم ہے اور جس سبب کو مدد کے لئے مقرر کرے وہ بھی مددگار ہے۔
چھٹی بات: اللہ کے سوا کسی کو الہ سمجھنا شرک ہے، اللہ کے سوا کسی کو الہ سمجھ کر پکارنا شرک ہے، اللہ کریم کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے مگر اللہ کریم کی عطا اور حُکم سے رسول اللہ، اللہ کے بندے، مقرب فرشتے وغیرہ سب مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح ان احادیث پر عمل جائز ہے ، اگر حقیقی مددگار اللہ کریم کو سمجھیں:
حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم میں کسی کی کوئی چیز گم جائے اورمدد مانگنی چاہے اور ایسی جگہ ہوجہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے "یا عبدالله اعینونی” اے الله کے بندو! میری مدد کرو۔ الله تعالٰی کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا، وہ اس کی مدد کرینگے۔ (اسے طبرانی نے عتبہ بن غزوان سے روایت کیا) (المعجم الکبیر حدیث 290)
حضور ﷺ نے فرمایا : جب جنگل میں جانور چھوٹ جائے تو یوں آواز لگائے "یا عبدالله احبسوا” اے الله کے بندو! روک دو توعباد الله اسے روک دیں گے۔ (اس حدیث کو ابن السنی نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے)
حضور ﷺ نے فرمایا : یوں ندا کرو "أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ ﷲِ، عباد اللہ” مدد کرو اے اللہ کے بندو۔ ( اسے ابن ابی شیبہ اور بزار نے ابن عباس سے روایت کیا) امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔ مکمل احادیث کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں
نوٹ: ان سب احادیث (1) امام محدث طبرانی نے "طبرانی کبیر” 217/10 حدیث نمبر 10518 (2) حافظ ابوبکر دینوی عمل الیوم و الیلہ حدیث نمبر 509 ص 170 (3) امام ابن ابی شیبہ، المصنف جلد 10 ص 390 حدیث 9770 (4) امام بزار نے کشف الاستار عن زوائد الزار ص 34، 34/4 حدیث 3128 (5) حافظ الہیثمی نے مجمع الزوائد ج 10 ص 132 (6) ابویعلی جلد 9 ص 177 حدیث 5269 (7) البیہقی فی شعب الایمان جلد اول حدیث 167 ( قاضی محمد بن علی شوکارنی، تحفتہ الزاکرین ص 181 کے سیکن حوالہ جات کمنٹ سیکشن میں موجود ہیں۔
اصول: یہ حدیث کئی طریق سے روایت کی گئی ہے اور کثرت طرق سے حدیث حسن ہوجاتی ہے. جرح و تعدیل کمنٹ سیکشن میں موجود ہے۔
فتاوی رضویہ: بریلوی عالم جناب احمد رضا خاں صاحب یہ حدیثیں کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے روایت فرمائیں، شروع سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول ومعمول ومجرب ہیں۔ (جلد 21، صفحہ 318، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
نشرالطیب: دیوبندی عالم اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ مواہب الدنیہ،ابن النجار، ابن عساکر اور اب الجوزی نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا: ایک اعرابی آیا اور رسول اللہ کی قبر کی زیارت کر کے عرض کیا یا خیر الرسل اللہ تعالی نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ارشاد ہے وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا: اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کے حضور آپ کے وسیلے سے شفاعت چاہتا ہوں نیز اسی طرح کا مفہوم رشید احمد گنگوہی نے بھی لکھاہے۔