دعائیں اور سوال
1۔ دُعا کی قبولیت کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اللہ کریم پر ہے جب چاہے دے، جو مانگا ہے اُس کے بدلے میں بہتر دے یا ویسا ہی دے دے، اگر نہ دے تو جنت میں دعا کے بدلے میں درجہ بلند کر دے۔
2۔ طوائف نے کتے کو پانی پلایا ، اللہ کریم نےاُس کو بخش دیا یعنی اُس نے بدکاری چھوڑ دی، جب کسی کا عمل قبول ہوتا ہے تو گناہ معاف اور گناہ چُھوٹ جاتے ہیں۔ دعائیں قبول کرنے کا اختیار اللہ کریم کے پاس ہے وہ متقی یا گناہ گار دونوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔ اسلئے ہر ایک کو لائن میں لگا رہنا چاہئے اور دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔
3۔ دُعا مانگنے کا کوئی وقت نہیں، جب مرضی دُعا مانگو مگر رٹی رٹائی دعائیں نہیں بلکہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسطرح یقین سے مانگیں کہ اللہ کریم کی عطا بھی عطا کرنے پر آ جائے۔
4۔ نماز کے بعد دُعا بالکل ضروری نہیں ہے لیکن نبی کریم کے فرمان کے مطابق فرض نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے، اسلئے مانگنے میں حرج کوئی نہیں کیونکہ دُعا بھی عبادت ہے اور ایسی عبادت ہے کہ ہر وقت کی جا سکتی ہے۔
5۔حضور ﷺ نے جو دُعائیں مانگی ہیں، جو احادیث کی کتب میں لکھی ہیں، ان کو یاد کرنا چاہئے اور نہ یاد ہوں تو اپنی مادری زبان میں مانگ لیں۔
6۔ دعا میں حضور اکرم ﷺ , اھل بیت , صحابہ کرام , شھداء کرام اور اپنے پیر و مرشد کا واسطہ یا وسیلہ ڈال کر دُعا مانگنا جائز ہے اور ایسا بھی نہیں کہ اگر وسیلے کے بغیر دعا کی جائے تو دعا قبول نہ ہو گی کیونکہ دعا قبول ہی قبول ہے۔ ترمذی 3578 اور ابن ماجہ 1358 کے مطابق وسیلہ جائز ہے۔
7۔ اصول یہ ہے کہ جنازے کے بعد صفیں توڑ کر دعا مانگ سکتے ہیں مگر کثیر تعداد میں جاہلوں نے دیوبندی و بریلوی علماء کی لڑائی کی وجہ سے اس کو فرض قرار دے دیا جس پر ان کو بدعتی کہا جاتا ہے اور جو نہیں مانگتا اُس کو وہابی کہا جاتا ہے۔ یہ جاہلیت ہر جماعت میں موجود ہے کہ اصول نہیں بتاتے بلکہ عوام گمرہ ہو چُکی مگر کسی کو تکلیف بھی نہیں ہے۔
8۔ والدین کے حق میں دُعا ضرور کرنی چاہئے جیسے ہم حضور اکرم ﷺ کے لئے اذان کے بعد مقام محمود کی دعا کرتے ہیں اور الھم صلی علی محمد پڑھکر اللہ کریم سے نبی کریم ﷺ پر رحمت بھیجنے کی دعا کرتے ہیں۔
مختلف دُعائیں جو کی ہیں اور کچھ لائن میں لگی ہیں اور کچھ پوری ہو چکی ہیں
1۔ حج کرنے گیا تو شدید ترین دُعا صرف ایک تھی کہ یا اللہ ہر دیکھنے والا، چاہنے والا، پیار کرنے والا، ساتھ چلنے والا جنت میں جائے،ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہ جائے۔
2۔ میرے تمام دوستوں کو ہر شے دے یعنی نعمتیں ہمارا گھر دیکھ لیں، رحمتیں ہمارا گھر دیکھ لیں، برکتیں ہمارا گھر دیکھ لیں، خوشیاں ہمارا گھر دیکھ لیں۔
3۔ بھائی شدید ترین بیمار ہو گیا، ایسا لگا کہ اب مر جائے گا، دُعا کی کہ یا اللہ اس کی موت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ موت اس وقت دینا جب یہ ایمان کی حالت میں ہو لیکن اللہ کریم نے صحت عطا کر دی۔
4۔ والد صاحب بیمار ہوئے، دو نفل پڑھے اور دُعا کی کہ یا اللہ تیرا فرمان ہے کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو، اسلئے نفل پڑھ لئے ہیں تیری مہربانی، میرے والد صاحب کو شفا دے یا صبر عطا فرما دے۔ اللہ کریم نے اُن کو اپنے پاس بُلا لیا، سب کو صبر آ گیا۔
5۔ نکاح کے وقت میں یہی دُعا تھی کہ یا اللہ اپنا ایمان بچانے اور ایک عورت کو ایمان دینے کے لئے نکاح کرنے لگا ہوں، اولاد عطا کرنا اور ان تحفوں کی تربیت کرنے کی ہمت بھی عطا کرنا۔
6۔ حضورﷺ کی یہ دُعا بڑی پسند تھی جو اکثر مانگی کہ یا اللہ مجھے لوگوں کی نظر میں بڑا اور اپنی نظر میں چھوٹا کر دے۔ اسلئے شہرت اور پیسے کی بجائے گمنامی پسند ہے۔
7۔ حضورﷺ کے روضہ اطہر پر دُعا مانگی کہ یا اللہ حکمت، دانائی، رقت قلبی عطا فرما اور میرے الفاظ اتنے آسان اور سادہ فرما دے کہ عوام کو آسانی سے سمجھ آ سکیں۔ وہ نورفراست عطا فرما جس میں خوش فہمی اور غلط فہمی نہ ہو بلکہ حقیقت سمجھنے کی صلاحیت ہو۔
8۔ یا اللہ مرنے سے پہلے پہلے میری بخشش فرما دینا اور میرے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دینا، جہاں جہاں گناہ کئے ہوں وہاں سے نشانات ختم ہو چُکے ہوں، کراما کاتبین نے جو برائی لکھی ہو وہ بخشش کی وجہ سے مٹ گئی ہو، جن کے ساتھ برا کیا ہو ان کے دل سے نقوش مٹ گئے ہوں اور ان کو تو اُس کے بدلے میں اچھا صلہ دے چُکا ہو، جو ہاتھ پیروں نے کل قیامت والے دن گواہی دینی ہے وہ اچھے گواہ بن چُکے ہوں، قبر میں نیک عمل کی روشنی مل جائے۔
دعا یا خواہشیں
1۔ شدید ترین دعا اور خواہش ہے کہ نبی کریم نے جو امتی امتی فرمایا، اُس میں اللہ کریم مجھے شامل فرما لے۔
2۔ یا اللہ مجھے علم ہو گیا ہے کہ کل قیامت والے دن شفاعت نبی کریم ﷺ نے کرنی ہے، اور اُس سے پہلے نیک لوگ بابا آدم علیہ السلام سے ہوتے ہوئے سیدنا عیسی علیہ السلام تک آئیں گے اور پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں گے۔ یا اللہ میری دعا ہے کہ اُس نفسا نفسی میں مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہی رکھنا تاکہ نفسا نفسی اور محشر کے عذاب سے محفوظ رہوں۔
3۔ یا اللہ تیرے شکر گذار بندے تھوڑے ہی ہیں، مجھے ان بندوں میں شمار فرمانا جو پریشانی، مصیبت، دُکھ، موت پر صبر کر کے تیرا ساتھ مانگتے ہیں اور اُس میں بھی انا للہ و انا الیہ راجعون کے ساتھ ساتھ الحمد للہ بھی پڑھتے ہیں۔
4۔ یا اللہ تقریبا ہر بندہ یہ روتا ہے کہ اُس کے ساتھ کوئی دینے والا نہیں ہے لیکن یا اللہ مجھے ایسی طاقت عطا فرما کہ میں اس حالت میں ہوں کہ محسوس کررہا ہوں کہ تیرے قُرب میں ہوں، کوئی دوری نہیں، بلکہ اپنی جان سے زیادہ تجھے قریب جان کر عبادت کروں۔
5۔ یا اللہ اس دنیا میں دنیا کی رونقوں سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اُس میں نور نیک لوگوں کے تذکرے سے پیدا ہوتا ہے، اسلئے ہمیشہ انبیاء کرام، صجابہ کرام، شہدا اور صالح لوگوں کے تذکرے کر کے اپنے دل میں نور پیدا کرتا رہوں۔
6۔ یا اللہ فرشتوں کو تو نے اپنی عبادت میں لگا رکھا ہے اور جو سجدے میں ہے وہ سجدے میں ہی مزہ لے رہا ہے، جو رکوع میں ہے وہ رکوع میں مزے لے رہا ہے، یا اللہ اُن کے اوپر جو نورارنی کیفیت، تیری عظمت و جلال کا اثر، تیری محبت کا اثر اور تیری توجہ ہے اُس میں سے ہمیں بھی حصہ ملے تاکہ بشری تقاضے کم ہو جائیں اور روحانی و ایمانی قوت زیادہ ہو جائے۔
7۔ یا اللہ زندگی میں سب سے بڑا مشن اپنی اصلاح کرنا ہے اور دوسروں کو اچھی صلاح دینا ہے، یا اللہ اصلاح وہی کرتا ہے جو اصلاح یافتہ ہو، اسلئے اصلاح یافتہ لوگوں میں ہمیں بھی شمار فرما تاکہ ہم دوسروں سے صلاح لے کر مزید ترقی کریں۔
8۔ یا اللہ اس دنیا میں سب سے بڑا منصوبہ اور کام تجھے جاننا، تجھے ماننا، تجھے چاہنا، تیرے لئے کچھ کر جانا، تیرے لئے کچھ سہہ جانا، تیرے لئے کچھ کہہ جانا ہے، یا اللہ جس دن دین کی بات نہ کروں وہ میری موت کا دن ہو۔ جس دن تیرا ذکر نہ ہو وہ دن میری زندگی میں کبھی نہ آئے۔
9۔ جنت میں جو مانگا جائے گا وہ ملے گا تو میری شدید ترین خواہش ہے کہ اللہ کریم اپنے فضل و کرم سے جنت عطا فرمائے تو وہاں قرآن مجیداور احادیث میں لکھے ہوئے دنیا میں گذرے واقعات آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں جیسے اللہ کریم نے فرشتوں سے مشورہ کیا ”انی جاعل فی الارض خلیفہ“ اُس کے بعد فرشتوں نے جو جواب دیاوہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت بابا آدم علیہ السلام نے کیا جواب دیا، شیطان نے کیسے دھوکہ دیا، جنت سے دنیا میں کیسے اتارے گئے، تمام انبیاء کرام کے واقعات، شیطان اور کافروں کی سازشیں اور چالیں، اللہ کریم کی انوار و تجلیات، کراماً کاتبین کیسے لکھتے، ہر جوڑ پر فرشتے کیسے مقرر ہیں، قبر میں آنے والے دو منکر نکیر فرشتے حضرت ملک الموت علیہ السلام کی طرح ایک ہیں یاہر قبر کے منکر نکیر علیحدہ علیحدہ ہیں۔
10۔خلفاء کرام اور سب صحابہ کرام کی زندگی، واقعات و جذبے و واردات، جنگ جمل و صفین و نہروان میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والے اور مقابلہ کرنے والوں کودیکھنے کی شدید ترین خواہش ہے۔
11۔ عوام کو حضورﷺ کے دیدار کا شوق ہوتا ہے مگرمیری عاجزی کے ساتھ یہ خواہش ہے کہ”یا اللہ اگر مجھے حضورﷺ کا دیدار ہو تو حضورﷺ کا نقشہ میری آنکھوں میں ایسا نقش ہو جائے کہ میری آنکھوں سے حضورﷺ کبھی دور نہ ہوں کیونکہ وصل کے بعد جدائی موت ہے۔دوسری بات یا اللہ میں ان کو دیکھ کر کبھی یہ نہ کہوں کہ میں رج گیا ہوں بلکہ ان کو دیکھنے کے بعد میری پیاس کبھی نہ بُجھے۔
12۔ میری شدید ترین خواہش ہے کہ جب میری موت ہو تو میرے نام پر کوئی جائیداد نہ ہو۔ شدید ترین خواہش ”یا اللہ میری نسلوں میں شکر، توکل، صبر، یقین رکھ دے تاکہ ان کے پاس پیسہ نہ بھی ہو مگر تیری محبت کی جائیداد ان کے پاس کبھی ختم نہ ہو اور اُس جائیداد سے وہ اپنی زندگی آرام سے گذار سکیں۔
13۔ زندگی کی شدید ترین خواہش ہے کہ حالات جیسے مرضی ہوں مگر دل کی حالت ایک جیسی ہو جس میں کبھی بھی حالات کا شکوہ نہ ہو بلکہ حالت بہتر بنانے کا عزم ہو کیونکہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور ساری عوام پاگل ہو کر اس قید خانے سے چھوٹ جانے کا سوچ رہی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہونا۔
14۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ دو بندوں پر حسد (رشک) جائز ہے ایک تو جس کے پاس علم ہو اور وہ علم انسانوں کو سکھا رہا ہو اور دوسرا جس کے پاس پیسہ ہو اور وہ پیسہ دین پر لگا رہا ہو۔ اسلئے دو باتیں سامنے آئیں کہ عقل و پیسہ دین پر لگانا ہے یہی شدید ترین خواہش ہے۔
15۔ شدید ترین خواہش ہے کہ قبر میں رکھا جاؤں تو برگزیدہ فرشتے منکر نکیرآئیں اور پوچھیں من ربک تو ادب سے ان کے آگے عرض کروں کہ جو آپ اور میرا رب ہے جس کی بندگی کرتے ہوئے، موت آئی وہی میرا رب ہے اور جب حضورﷺ کی صورت مبارک نظر آئے تو آنکھوں سے آنسو اتنے نکلیں کہ پوچھنے والے پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں بلکہ قبر میں روشنی ہو جائے اور ایمان چیخ چیخ کر میرے مسلمان ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔
16۔ شدید ترین خواہش ہے کہ میرے ملک پاکستان سے دیوبندی، بریلوی، وہابی، شیعہ کے لفظ ختم ہو جائیں اور صرف قرآن و سنت کے مطابق مسلمان ہوں۔ اگر کوئی قرآن و سنت کے مطابق نہیں تو اُس کو مسلمان کرنے کی شرائط بیان کی جائیں اور سب کو اسکی غلطی بتا کر، توبہ کروا کر، ایک جماعت میں شامل کیا جائے۔
سمجھانے کا طریقہ
1۔ ایک پیر صاحب سمجا رہے تھے کہ یہ بتاو کہ کیا اللہ کریم کے پاس سب خزانے ہیں، سب نے کہا بالکل ہیں۔ کیا ساری طاقتوں کا مالک اللہ ہے، کہنے لگے بالکل ہے، پوچھا کیا وہ کسی کو کچھ دے تو کوئی واپس لے سکتا ہے، کہنے لگے نہیں تو پیر صاحب نے کہ تو پھر اپنے رب سے لے کر دکھاو جو سب کچھ دے سکتا ہے۔
2۔ رب کریم سے لمبی چوڑی دعائیں نہیں مانگی جاتیں بلکہ جیسے کسی دوست سے کہنا ہو کہ کیا 500روپیہ مل سکتا ہے۔ اسطرح اللہ کریم کے آگے عرض کر دینا چاہئے یا اللہ یہ مشکل مجھے تنگ کر رہی ہے اور میری عبادت میں خلل ڈال رہی ہے، اس کا حل شریعت کے مطابق عطا فرما دے۔