حجرہ مبارک

حجرہ مبارک

 

حضور ﷺ کی بیویوں کے حجرہٴ مبارک
1۔ حضرت حارثہ بن نعمان وہ خوش نصیب ہیں، جنہوں نے پیارے آقا ﷺ اور اہلِ بیت کی رہائش کے لئے اپنی زمین اور گھر تحفہ میں پیش کیا۔ (وفاء الوفا للسمہودی ، جز2 ، ص 718) مکۂ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والی معزَّز خواتین، سیدہ فاطمہ و سیدنا علی، سیدہ اُمِّ کُلثوم، رضاعی والدہ حضرت اُمِّ ایمن، حضرت اسماء بنت ابو بکر، سیدہ سَوْدَہ بنتِ زَمْعَہ اور سیدہ عائشہ کو رہائش گاہ اس ایک صحابی نے دی۔ (طبقات ابن سعد، 8 / 132 ملخصاً)
حضرت صَفِیَّہ نبیِّ کریم ﷺ کے نکاح میں آئی تھیں ، جب مدینے پہنچیں تو حضرت حارثہ بن نعمان کے گھر میں ہی قیام پذیر ہوئیں۔ (طبقات ابن سعد ، 8 / 100) نبیِّ کریم ﷺ جب نیا نکاح فرماتے تو حارثہ بن نعمان حضور ﷺ کے لئے اپنا قریبی گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں منتقل ہوجاتے یہاں تک کہ آپ کے ( قریب کے) سارے گھر پیارے آقاﷺ اور ازواجِ مطہَّرات کے ہوگئے۔ (الوفاء لابن الجوزی، 1 / 202)
عالم دنیا سے عالم برزخ میں تشریف لے جانا
1۔ حضور ﷺ کی روح مبارک کو عالم برزخ میں لے جانے کے لئے حضرت ملک الموت علیہ السلام سیدہ عائشہ کے حجرہ میں تشریف لائے اور نبی کریم ﷺ اس عالم دنیا سے عالم برزخ میں تشریف لے گئے۔
ابن ماجہ حدیث نمبر 1628:
بغلی قبر: مکہ والے صندوقی اور مدینہ والے بغلی قبر کھودتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح مکی اور حضرت ابوطلحہ مدنی کو قبر کھودنے کے لئے بلا بھیجا تو حضرت ابوطلحہ تشریف لائے اور بغلی قبر کھودی۔
درود: نبی کریم ﷺ کا مخصوص دعاوں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز جنازہ نہیں ہوا بلکہ عورت و مرد و بچوں نے جماعت در جماعت حضور ﷺ پر درود بھیجا۔
مقام قبر: سیدنا ابوبکر نے فرمایا: جس نبی کا بھی انتقال ہوا اسے وہیں دفن کیا گیا جہاں پہ اس کا انتقال ہوا، صحابہ کرام حضور ﷺ کا بستر اٹھایا جس پر آپ کا انتقال ہوا تھا اور سیدہ عائشہ کے حجرے میں قبر کھود کر آرام کے لئے سیدنا علی بن ابی طالب، فضل بن عباس، ان کے بھائی قثم بن عباس، رسول اللہ ﷺ کے غلام شقران اور ابولیلیٰ اوس بن خولہ نے اتارا۔
2۔ مدینہ پاک میں جا کر مشاہدہ کریں تو معلوم ہو گا کہ سورج مشرق سے جنت البقیع کی طرف سے نکلتا ہے لیکن نماز جنوب کی طرف رُخ کر کے ادا کی جاتی ہے۔
3۔ حضور اکرم سیدہ عائشہ ﷺ کے حجرے میں آرام فرما ہیں اور کہتے ہیں کہ اس حجرے کی لمبائی تقریباً 16 اور چوڑائی 12 فٹ تھی جس میں کوئی غسل خانہ، باورچی خانہ اورکھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور مہمانوں کے لیے الگ جگہیں نہیں تھیں۔
4۔ سیدہ فاطمہ اور سیدہ عائشہ کے حجرے بالکل ساتھ ساتھ تھے، جن کے دروازے مسجد نبوی میں کُھلتے تھے اوراس وقت دونوں کے حجرے جالیوں کے اندر اور گنبد خضرا کے سائے تلے ایک ہو چُکے ہیں۔
5۔ سیدہ عائشہ کے حجرے کے ساتھ مشرق میں جنت البقیع کی طرف سیدہ سودہ کا حجرہ تھا اور جہاں آجکل حاجی گداز دل، تر آنکھوں سے کھڑے ہو کر درود و سلام پیش کرتے ہیں، وہاں سیدہ حفصہ کا حجرہ تھا۔ سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ کے حجروں کے درمیان تنگ سی گلی تھی اور ہماری مائیں اس وقت حجروں میں بیٹھیں آپس میں بات چیت کرلیتی تھیں۔
6۔ حضور ﷺ کی پانچویں بی بی حضرت زینب بنتِ خزیمہ کا حجرہ بھی سیدہ فاطمہ کے گھر کے پیچھے تھا۔ پانچ مزید حجرات تقریباً ایک قطار میں، وقتاً فوقتاً رسول کریم ﷺ کی پانچ دیگر ازواج مطہرات کی رہائش گاہیں تھیں۔ یہ سمجھ لیں کہ مسجد نبوی کے باب جنت البقیع سے باب جبرائیل تک یہ سارے حجرات موجود تھے جو کہ اب مسجد نبوی میں شامل ہیں۔
حقیقت: حضورﷺ کی قبر انور سیدہ عا ئشہ کے حجرے میں بنی تھی جو درخت کے تنے کا تھا تو 17ھ میں سیدنا عمر نے چار دیواری بنا دی۔ 91 ھ میں حضرت عمر بن عبدالعزیر نے چار دیواری کے ارد گرد پانچ کونے والی دیوار بنوائی، یہ دیوار اسلئے پانچ کونوں والی تھی تاکہ خانہ کعبہ سے مشابہت نہ ہو۔
حضور ﷺ کے جسد خاکی کو قبر انور سے نکالنے کی ناکام کوشش
557ھ (مطابق 1162ء)، مختصر تاریخ ”وفا الوفاء“ کے مصنف علّامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ سلطان نور الدین زنگی کو خواب میں تین مرتبہ دو سرخی مائل رنگت کے آدمی نبی کریم ﷺ کے دائیں بائیں نظر آئے اور حضور ﷺ نے خواب میں فرمایا کہ مجھے ان سے بچاؤ۔ مدینہ جا کر سب کی دعوت کی اور دو آدمیوں کے گھر کی تلاشی لینے پر علم ہوا کہ وہ دونوں نبی کریم ﷺ کا جسم اقدس ان کی قبر سے نکالنے آئے تھے۔ سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔
دیوار کے گرد پھر دیوار
پانچ کونوں والی دیوار کمزور ہونے کی وجہ سے 881ھ (مطابق 1476ء) میں اس پانچ کونوں والی دیوارکے ارد گرد پھر پانچ کونوں والی دیوار بنائی گئی۔ اس پانچ دیواروں والے کمرے کو ہی آج کل ”حجرہ شریفہ“ کہا جاتا ہے۔ یہ ”پانچ دیواری“ بھی مہر بند ہے اور اس کے اوپر سبز غلاف چڑھا ہوا ہے۔
جھوٹ: بہت سے دفاتر میں خوبصورت قبر جس کے ارد گرد سٹیل کے پائپ پر دستار نظر آتی ہے اور عوام سمجھتی ہے کہ یہ رسول اللہ کی قبر انور ہے حالانکہ یہ جھوٹ ہے، رسول اللہ کی قبر انور پانچ کونوں والی بند دیوار کے اندر ہے جس کے اندر صدیوں سے کوئی مسلمان نہیں گیا کیونکہ دروازہ بھی نہیں ہے۔
سنہری جالیاں: پانچ کونوں والی دیوار مسجد نبوی کے اندر سنہری جالیوں کے اندر ہے جس پر غلاف پڑا ہوا ہے۔ جب بھی مسلمان جاتے ہیں تو وہ جالیوں کے اندر قبر تلاش کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ قبر انور تو صدیوں سے دیواروں کے اندربہت نیچے ہے۔ اسلئے علماء کرام نے فرمایا کہ موجودہ دور میں جالیوں کی زیارت ہی قبر کی زیارت ہے، اسی طرح جالیوں کے اندر حضور ﷺ کی قبر کو نہیں بلکہ حضور ﷺ کو محسوس کرکے درود و سلام پیش کرنا ہے۔
چیچن صدر: رسول اللہ ﷺ کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے جس کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی طرف جو خاص شخصیات کے لئے کھولا جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں چیچن صدر کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس کا لنک کمنٹ سیکشن میں موجود ہے اور ساتھ ہی سعودی عرب نے 3D میں روضہ رسول کی ویڈیو بھی موجود ہے۔
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general