عالم الغیب یا علم غیب
اللہ کریم عالم الغیب ہے، ازلی اور ابدی ہے، عالم الغیب کا لفظ صرف اللہ کریم کے لئے بولا جاتا ہے، البتہ کوئی کہے کہ اہلسنت حضرات نبی کریم ﷺ کو عالم الغیب کہتے ہیں یا اللہ کے برابر نبی کریم ﷺ کا علم جانتے ہیں تو اُس نے بغیر سوچے سمجھے بات کی۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور تم اپنے منہ سے وہ بات نکالتے ہو جسکے بارے میں تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور تم اسے ہلکا سمجھتے ہو حالانکہ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔” (النور 15) ” بے شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کئے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جسکے سبب جہنم کی آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔” (متفق علیہ)۔
عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ:غیب اور ظاہر کو جاننے والا ہے۔ یہ صفت صرف اللہ کریم کی ہے اور اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے جیسے لفظ ِ رحمٰن ہے۔
جناب احمد رضا خاں صاحب نے لکھا ہے ’’ہماری تحقیق میں لفظ ’’عالم الغیب ‘‘کا اطلاق حضرت عزت عَزَّجَلَالُہ کے ساتھ خاص ہے کہ اُس سے عرفاً علم بالذات متبادر ہے اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔ حضورپر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قطعاً بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں مگر ’’عالم الغیب‘‘ صرف اللہ عَزَّوَجَلَّ کو کہا جائے گا۔ جس طرح حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قطعاً عزت جلالت والے ہیں ، تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل ہے نہ ہوسکتا ہے، مگر محمد عَزَّ وَ جَلَّ کہنا جائز نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ و محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (کہا جائے گا)۔ (فتاوی رضویہ، 29/ 405)
’’علم غیب بالذات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے خاص ہے کفار اپنے معبودانِ باطل وغیرہم کیلئے مانتے تھے لہٰذا مخلوق کو’’ عالم الغیب ‘‘کہنا مکروہ ، اور یوں (کہنے میں ) کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے سے امورِ غیب پر انہیں اطلاع ہے۔ (فتاوی رضویہ، 30/ 575)
’’اس پر اجماع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دیئے سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے، یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے ،جو اس کا منکر ہوک اف ر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضلِ جلیل میں محمَّد رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا حصہ تمام انبیاء و تمام جہان سے اتم و اعظم ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے حبیب اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی جانتا ہے۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: خالص الاعتقاد، 29/ 451)
اللہ کریم کے مقابلے میں نبی کریمﷺ کے علم’’ ما کان و ما یکون‘‘ایک’’حد‘‘ ہے اور اللہ کریم کے علم کا ایک’’قطرہ‘‘ بھی نبی کریمﷺ کے علم سے زیادہ ہے ۔(فتاوی رضویہ، جلد 29، صفحہ 433)
نبی کا مطلب ہے خبر دینے والا۔ اسلئے نبی وہ خبر دیتا ہے جو اللہ کریم اُس کو وحی کرتا ہے، جو اللہ کریم اُس کو مشاہدہ کرواتا ہے، جو اللہ کریم اپنے پیارے نبی کو بتاتا ہے جو وہ پہلے سے نہیں جانتا۔ اسلئے کوئی بات خبر کہلائے گی اور کوئی بات مشاہداتی خبر کہلائے گی۔ اسلئے نبی غیب کی خبر دیتا ہے جو اُس پر وحی کی جاتی ہے یا اُن کو دکھایا جاتا ہے۔