دفاع عقائد اہلسنت یا لفظ اہلسنت
جناب زعیم قادری نے ایک مضمون میں اکابر علماء بریلوی کے مندرجہ ذیل اقوال نقل کئے، کیوں کئے وہ بہتر بتا سکتے ہیں:
1۔ مفتی اعظم ھند حضرت مولانا الشاہ مصطفی رضا خان نوری رحمہ اللہ 1960 کی دہائی کے آغاز میں اپنے ایک فتوی میں تحریر فرماتے ہیں:’’ہم وہی قدیم چودہ سو سالہ اہلسنت و جماعت ہیں اور وہابیہ، دیابنہ ملاعنہ اہلسنت کو بریلوی کہتے ہیں۔ اگر کوئی تم کو بریلوی کہے تو شدت سے انکار کرو‘‘ (عرفان مسلک و مذھب صفحہ 47 بحوالہ مطبوعہ ماہنامہ پاسبان الہ باد)
2۔ اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا ہندوستانی دیوبندیوں کا طریقہ ہے۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر3 از تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب)
3۔ حضرت علامہ مولانا مفتی اختررضاخاں الازہری مدظلہ عالیہ نے ایک انٹرویو میں فرمایا: ’’ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988، ص 14)
4۔ سعودی عرب میں گرفتاری کے بعد سی آئی ڈی سے گفتگو کے دوران تاج الشریعہ اختر رضا خان الازہری حفظہ اللہ نے فرمایا: ہم پر کچھ لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ ہم اور قادیانی ایک ہیں۔ یہ غلط ہے اور وہی لوگ ہمیں بریلوی بھی کہتے ہیں، جس سے وہم ہوتا ہے کہ ’’بریلوی‘‘ کسی نئے مذھب کا نام ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ ہم اہلسنت و جماعت ہیں۔ (حیات تاج الشریعہ صفحہ 42 بحوالہ عرفان مسلک و مذھب صفحہ 45) اسی کتاب حیات تاج الشریعہ میں یہ بھی درج ہے اقرار نامہ میں تاج الشریعہ نے ان الفاظ کا اضافہ کروایا:
’’بریلویت کوئی نیا مذھب نہیں ہے، ہم لوگ اپنے آپ کو اہلسنت و جماعت کہلوانا ہی پسند کرتے ہیں‘‘
5۔ ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:’’اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علماء دیوبند کا دیا ہوا ہے”۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے۔‘‘ (آئینہ رضویات، ص 300)
6۔ آستانہ عالیہ شاہ آبادشریف کے سجادہ نشین صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں۔‘‘(فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت، ص 69)
7۔ سیالکوٹ کے مشھور عالم دین مفتی حافظ محمد عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسے مخالفین کی سازش قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بریلوی ہمارا مسلک نہیں ہے‘‘ کچھ آگے چل کر یوں رقمطراز ہوتے ہیں: ’’اگر لوگ ہمیں بریلوی کہہ دیتے ہیں تو ہمیں خود کو بریلویت کے تنگ حصار میں بند نہیں کرنا چاہیے، یہ ہمارے خلاف ایک سازش ہے کہ ہم اجماع امت کے مسلک حقہ اہلسنت کی وسیع شناخت کھو کر بریلویت کا لیبل اور بقیہ فرقہ وارانہ جماعتیں خود کو اہلسنت کہلوائیں۔ ‘‘(ماہنامہ العلماء، صفحہ 52، لاہور، دسمبر جنوری 1995-1996)
8۔ شرف ملت حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری رحمہ اللہ بھی بریلوی نام کو مخالفین کا عطیہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’امام احمد رضا بریلوی کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہو کر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا۔ ‘‘(البریلویہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ)
9۔ جناب سید صابر حسین شاہ بخاری لکھتے ہیں:’’دشمنوں نے (اعلی حضرت اور انکے ہم مسلک علماء کو) اہل سنت سے الگ کرنے کیلیے ’فرقہ بریلویہ‘‘ مشھور کر دیا۔‘‘(امام احمد رضا کاملین کی نظر میں صفحہ 29)
10۔ دیوبندی مولوی سرفراز گکھڑوی کی کتابوں کا مدلل اور باکمال رد لکھنے والے حضرت مفتی غلام فرید ہزاروی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’وہابی دیوبندی اس دور میں یہ پراپگنڈہ زور شور سے کر رہے ہیں کہ بریلوی کہلانے والے اب پیدہ ہوئے ہیں‘‘النجدیت بجواب بریلویت صفحہ 49،50″
11۔ مناظر اہلسنت مولانا سعید احمد اسعد لکھتے ہیں:’’مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تابناک مساعی سے گھبرا کر مخالفین نے اعلی حضرت اور انکے مریدین، متوسلین اور شاگردوں کو بدنام کرنے کیلیے کہیں ’’رضا خانی فرقہ‘‘ کے نام سے یاد کرنا شروع کیا اور کہیں ’’بریلوی فرقہ‘‘ کے نام سے اور اس نام کو خوب اچھالا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بے علم حضرات کو یہ تاثر دیا جائے کہ یہ نیا فرقہ ہے۔‘‘(وہابیت و بریلویت بجواب بریلویت صفحہ 45،46)
12۔ اہلسنت کے موجودہ بڑے علماء میں سے ایک نام شاگرد حکیم الامت مفتی کبیر علامہ اشرف القادری حفظہ اللہ ہے ، آپ ایک بیان میں فرماتے ہیں:’’میں تو عرصہ دراز سے ہمارے اپنے احباب کو عرض کرتا رہا ہوں کہ بریلوی نہ کہلوایا کرو ٹھیک ہے فاضل بریلوی ہمارے بہت بڑے عالم اور ہمارے امام ہیں، بریلوی تو تب ہم کہلائیں کہ جب انہوں نے نیا عقیدہ ایجاد کیا ہو اور ہم اس عقیدے میں انکی پیروی کرتے ہوں انہوں نے تو کوئی عقیدہ ہی ایجاد نہیں کیا انہوں نے تو اسی اہلسنت و جماعت کے پرانے مذھب پر پہرا دیا ہے اس پر جو اعتراض تھے اس کا جواب دیاہے اسکے مخالفین کا رد کیا ہے ہمارے لوگ جو ہیں وہ بریلوی بن گئے اور بریلوی کہلوانا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ بریلوی کہلوانے سے زیادہ فرق محسوس ہوتا ہے اور اس سے strength آتی ہے اور اہلسنت و جماعت کا آدھا میدان خالی دیکھ کر اس پر انہوں نے قبضہ کر لیا‘‘۔
جنریشن گیپ: کبھی ہم لوگوں نے سروے ہی نہیں کروایا کہ عوام کو بریلوی و دیوبندی مسالک کا علم ہے؟ وہابی علماء اور اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) میں فرق کیا ہے؟
اہلسنت: حرمین شریفین (مکہ و مدینہ) کے عثمانیہ خلافت، اجماع امت، اہل سنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) ہیں۔ دیوبندی و بریلوی کے اصولی اختلاف کو چھوڑ کر پہلے سمجھیں کہ دونوں حرمین شریفین کے متفقہ قانون کو فالو کرتے ہیں اور اگر دیوبندی حضرات سعودی وہابی علماء پلس سلفی، توحیدی، محمدی، غیر مقلد، اہلحدیث جماعتوں کے عقائد پر ہیں تو ان کے اکابر وہابی علماء کے نزدیک بدعت و مشرک ہیں۔
عقائد اہلسنت جس مسجد میں نہیں سکھائے جاتے وہ مسجد اہلسنت کی نہیں ہے؟
اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) نے متفقہ طور پر 10 عقائد منظور کئے جو فتاوی رضویہ کی جلد 29 صفحہ نمبر 339 پر تحریرہیں۔ مفصل عقائد کے مطالعہ کے لئے کمنٹ سیکشن میں لنک موجود ہے۔
قانون نمبر1 یعنی عقیدۂ ِ اُولیٰ: اس عقیدے کے مطابق اللہ کریم کی ذات و صفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔
قانون نمبر2 یعنی عقیدۂ ِ ثانیہ: حضورﷺ کی شان میں گستاخی نہیں کرنی۔
قانون نمبر3 یعنی عقیدۂ ِ ثالثہ: انبیاء کرام میں سے کسی کی شان میں ”گستاخی“ کرنا دین سے خارج کرتاہے۔
قانون نمبر4 یعنی عقیدۂ رابعہ: حضرت جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل علیھم السلام اللہ کریم کے رسول فرشتے ہیں اُنکی شان میں ”گستاخی“ کرنا بھی جرم ہے۔
قانون نمبر5 یعنی عقیدۂ خامسہ: اہلبیت اور صحابہ کرام دونوں معصوم نہیں ہیں لیکن ان کی توہین کرنا اہلسنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔
قانون نمبر 6 یعنی عقیدۂ ِ سادسہ: عشرہ مبشرہ (دس جنتی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) اور چاروں خلفاء کرام سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، علی کی توہین جُرم ہے۔
قانون نمبر 7 یعنی عقید ہ سابعہ: اہلبیت کے اہلبیت سے ”معاملات“ جیسے سیدہ عائشہ کی سیدنا علی سے جمل کی لڑائی، سیدہ فاطمہ کا باغ فدک کا مسئلہ، اہلبیت کے صحابہ کرام سے معاملات جیسے امامت ابوبکر یا حضرت معاویہ کی سیدنا علی سے سے صفین کی لڑائی، صحابہ کرام کا صحابہ کرام کے ساتھ اختلاف پر اہلسنت نے قانون بنایا کہ قرآن نے صحابہ کرام کو جنتی فرمایا اور حضور نے صحابہ کی تعریف کی، اسلئے اہلبیت اور صحابہ کرام کے ”معاملات“ میں خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ کسی ایک کا ساتھ دیں گے تو دوسرے کو کیا نعوذ باللہ ظالم ثابت کریں گے؟
قانون نمبر 8 یعنی عقیدۂ ِ ثامنہ: اجماع صحابہ کے مطابق سیدنا ابوبکر سیدہ فاطمہ و سیدنا علی کے امام ہیں،اسلئے امامت ابوبکر کے مُنکر کو مسلمان نہیں کہتے۔ دما دم مست قلندر علی دا پہلا نمبر یا روحانی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلند کرکے پہلے نمبر پر بھی لانا جائز نہیں۔
قانون نمبر 9 یعنی عقیدۂ ِ تاسعہ: ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کے ماننے سے کوئی مسلمان ہوتا ہے اور جن میں سے کسی ایک کے انکار سے بھی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
قانون نمبر 10 یعنی عقیدۂ عاشرہ: قانون شریعت و طریقے کے مطابق صوفی شریعت کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتا۔ کتابوں میں سب سے اوپر قرآن پھر احادیث پھر فقہاء کی کتابیں اور اُس کے نیچے تصوف کی کتابیں آتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق صوفی قرآن و احادیث کے خلاف نہیں ہو سکتا اور صوفی پیر فقیر کے لئے قرآن و احادیث اور فقہ کا علم ضروی ہے ورنہ وہ صوفی نہیں ہو سکتا۔ فلسفہ وحدۃ الوجود یا فلسفہ وحدۃ الشہود پر بحث فضول ہے کیونکہ یہ عام آدمی کو گمراہ کرتی ہے۔
فروعی مسائل
1۔ عالم الغیب کا لفظ نبی کریم کے لئے کبھی استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم کو مشاہدہ یا خبر کے ساتھ بہت زیادہ علم غیب حاصل ہے۔ (2) حاضر ناظر نہیں بلکہ قرآن و سنت میں اصل لفظ شاھد ہے جس کا مطلب ہے گواہ، اسلئے فروعی مسئلہ ہےکہ نبی کریم گواہی دیکھ کر دیں گے، دیکھ رہے ہیں اسلئے دیں گے یا ان دیکھی دیں گے یا اُسی وقت دکھا دیا جائے گا۔ (3) اللہ کریم کے حُکم سے شریعت کے احکام بیان کرنے میں مُختار کُل ہیں لیکن اللہ کے مقابلے میں نہیں۔ (4) حضور یوحی الی بشر ہیں، نور آپ کی صفت ہے مگر اللہ کریم لم یلد و لم یولد ہے، اسلئے اللہ کریم کی جنس سے نہیں ہیں۔ اگر اس کے خلاف تعلیم کسی کتاب میں موجود ہے تو ریفرنس پلیز
مستحب اعمال یا معمولات اہلسنت
ایک مثال پہلے فتاوی رضویہ سے سمجھ لیں اُس کے بعد باقی پڑھ لیں تو سمجھ آ جائے گی: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اشھد ان محمد رسول اللہ جو اذان و اقامت میں واقع ہے، اس میں انگوٹھوں کا چُومنا جو مستحب ہے، اگر کوئی شخص باوجود قائل ہونے استحباب کے احیانا عمداًترک کرے تو وہ شخص قابل ملامت ہے یا نہیں "کے جواب میں فرمایا ” جبکہ مستحب جانتا ہے اور فاعلون (کرنیوالوں پر) اصلاً ملامت روا نہیں جانتا فاعلون (اور جو انگوٹھے چومنے والوں) پر ملامت کرنے والوں کو برا جانتا ہے تو خود اگر احیانا کرے نہ کرے ہر گز قابل ملامت نہیں (کہ مستحب کا درجہ و مقام یہی ہے) (فتاوی رضویہ جلد 5 ص 414)
اذان سے پہلے درود فرض نہیں تھا بلکہ درود کسی وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے، اگر کوئی اذان سے پہلے درود نہ پڑھنے والے کو اہلسنت نہ مانے وہ جاہل ہے۔
جنازے کے بعد دُعا کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ جب مرضی دعا جائز ہے مگر جو فرض سمجھے بدعتی ہے۔
قل و چہلم، تیجہ، دسواں، ذکر ولادت، گیارھویں شریف سب الفاظ ہیں حالانکہ اصل یہ ہے کہ اپنے فرض یا نفلی عبادات کا ایصال ثواب کرنا اور اس کا بھی کوئی خاص طریقہ کار کسی اہلست کتاب میں نہیں لکھا جیسے کسی سے پوچھ لیں میلاد منانے کا ایک متفقہ طریقہ کار بتا دو تو نہیں بتا سکتا۔
عُرس یعنی کسی بھی قبر کی زیارت کرنا جائز ہے مگر نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کر سکتا اور اللہ کے حُکم سے ہر عمل پر 24 گھنٹے مدد ہوتی ہے۔