حقیقی اور حکمی شہید
اللہ کریم ہمیں بندگی میں اپنے سامنے سرجُھکانے والا بھی بنائے اور وقت آنے پر اپنے دین کے لئے سر کٹوانے والا بھی بنائے۔
جو شخص اللہ واسطے لڑتے ہوئے، بغیر علاج و معالجہ اور وصیت کئے بغیر، خالق حقیقی سے جا ملے، اُس کو غسل و کفن نہیں دیا جائے گا بلکہ جنازہ پڑھ کر انہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے گا کیونکہ ایسا شخص حقیقی شہید ہے۔
البتہ کچھ مسلمان وہ ہوتے ہیں جن کو ”حکمی شہید“ کہا گیا ہے مگر ان مسلمانوں کا کفن دفن، غسل و جنازہ سب کیا جائے گا کیونکہ وہ عام میت کی طرح ہیں۔حکمی شہداء پانچ طرح کے ہیں:
1۔ طاعون (یا اس جیسی دیگر مہلک بیماری مثلاً کینسر، ٹی بی، چیچک، ایکسیڈنٹ وغیرہ) میں مرنے والا
2۔ ڈوب (دریا، جھیل، سمندر، سیلاب، گلیشئرز، کنواں، نہر، ڈیم) کر مرنے والا۔
3۔ دب (مکان کی چھت گرنے، پہاڑی تودا گرنے، گاڑی کے نیچے، دیوار جس پر گر جائے وغیرہ) کر مرنے والا
4۔ پیٹ کی بیماری (حیضہ، قولنج، ہارٹ اٹیک، لوز موشن وغیرہ) میں مرنے والا
5۔ جو اللہ کی راہ میں (دشمنوں، راہزنوں سے لڑتے ہوئے) قتل ہو گیا۔(صحیح بخاری 2829 و مسلم 4940)
ابو داود 3111:(6) ”ذات الجنب“ (نمونیہ) سے مر جانے والا شہید ہے (7) جل کر مر جانے والا شہید ہے اور ( عورت جو حالت حمل میں ہو اور مر جائے تو وہ بھی شہید ہے“۔
صحیح مسلم 4930 (9) جس نے اللہ تعالی سے صدقِ دل سے شہادت کا سوال کیا، اللہ تعالی اسے شہدا کا مرتبہ عطا کرتا ہے خواہ بستر پر ہی فوت ہو۔
ابو داود 4772: (10) جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے اور (11) جو اپنے بال بچوں کو بچانے یا اپنی جان بچانے یا اپنے دین کو بچانے میں مارا جائے وہ بھی شہید ہے“۔
(12) جس نے دل وجان سے بغیر مال کو چھپائے، کسی کی زیادتی ہونے کے باوجود، اللہ کی رضا اور آخرت میں کامیابی کے لئے، زکوۃ ادا کی اور نماز قائم کی، ایسا شخص بھی شہید ہے۔(المعجم الکبیر للطبراني ح : 632، المستدرک علی الصحیحین للحاکم ح : 1470)
(13) ابوداود 2493: (جہا د یا حج کے لیے) سمندر میں سوار ہونے سے جس کا سر گھومے اور اسے قے آئے تو اس کے لیے ایک شہید کا ثواب ہے، اور جو ڈوب جائے تو اس کے لیے دو شہیدوں کا ثواب ہے۔
(14) جو زمین میں اپنے اہل و عیال کے لئے رزق حلال کے لئے نکلتا ہے وہ بھی اللہ کی راہ میں ہوتا ہے (یعنی شہید ہوتا ہے)، جو زیادہ مال بنانے کے لئے نکلتا ہے وہ شیطان کی راہ میں ہے (مصنف عبدالرزاق)
(15) کسی لڑکے کو کسی لڑکی یا کسی لڑکی کو لڑکے سے محبت ہو جائے اور وہ اس عشق میں مر جائیں تو اُسے بھی حکمی شہید کہا جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ (1) وہ اپنے عشق کا کسی پر اظہار نہ کرے، نہ معشوق پر اور نہ ہی کسی اور پر (2) پرہیز گار رہے (3) اپنے عشق کو چھپاتے ہوئے مر جائے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: من عشق فکتم و عف ثم مات، مات شھیدا (البدایہ و النھایہ لابن کثیر)، مختلف الفاظ کے ساتھ ان کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 185، ذم الھوی صفحہ 314، العلل المتناھہ جلد 2 صفحہ 771)، کنزالعمال جلد 4، صفحہ 416)،
نتیجہ: اس سے علم ہوا کہ شہید محبت کو ٹینشن لینا، عشق کا اظہار کسی سے نہ کرنا، لڑکی کی گلی کے چکر نہ لگانا، یا لڑکے کو بدنام نہ کروانا، فون، میسج وغیرہ کچھ بھی نہ کرنا اور لازم بات ہے یہ مسئلہ کسی رشتے دار یا غیر پر اچانک نظر پڑنے سے شروع ہوتا ہے، اسے اللہ کریم کی طرف سے امتحان سمجھنا اوراس پر عشق کا روگ اندر ہی اندر عاشق کوکھا جائے تو اسے ”شہید محبت“ کہیں گے۔
زبردست: اگر ایسے عاشق کو اُس وقت کوئی نیک آدمی عورت کے عشق سے نکال کر حضورﷺ کے عشق میں ڈال دے تو سونے پر سُہاگہ ہو گا کیونکہ اُس کا عشق اُس سے وہ کام کروائے گا جو دوسرا نہیں کر سکے گا۔ مجازی عشق سے عشق حقیقی کا روگ لگ سکتا ہے جیسے تصوف والے کہتے ہیں کہ اگر پیر و مرید کے درمیان اللہ کریم کی ذات کا واسطہ ہو، دنیا داری نہ ہو، پیر بھی شریعت سکھانے والا ہو اور مرید بھی اللہ کی راہ پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہو تو پھر اللہ کریم دونوں کا ہادی ہے۔
ڈرامہ: کچھ لوگ میڈیا کے شہید ہوتے ہیں جن کو شہید سیاست، شہید جمہوریت، شہید تحریک، شہید آزادی کہتے ہیں حالانکہ ان میں سے کئی تو مسلمان بھی نہیں ہوتے۔
سوال: اگر پاکستان کی فوج ہندوستان کی فوج کے ساتھ لڑے تو درمیان میں مسلمان ہوں تو شہید کون ہو گا؟
جواب: علماء قرآن و سنت کے مطابق شہید کی قسمیں بتا سکتے ہیں لیکن انجام کا علم کل قیامت والے دن ہی ہو گا کہ کونسامسلمان اللہ واسطے اسلام اور مسلمان کو بچانے کے لئے لڑا یا مالِ غنیمت، پیشہ، تنخواہ، تمغوں، عورت اور جہنم کمانے کے لئے لڑتا رہا۔