اپنی موت آپ
پرابلم: کسی کی پسند کی شادی نہیں ہوتی تو۔۔، کسی کو خاوند کما کر نہیں دیتا تو عورت کی بچوں سمیت ۔۔، کسی کے پاس بچوں کو عیدی دینے کے پیسے نہیں تو۔۔، کسی کو ماں نے برا بھلا کہا اس نے تیزاب پی کر۔۔، کسی نے کہا میری شادی یہاں نہ کی تو میں۔۔، فلموں اور ڈراموں میں بھی یہی دکھا کر خود کشی کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
سوال: کیا ان لوگوں کا تعلق دین سے ہے اور کیا ان پر قرآن و احادیث اثر کرے گا؟ کیا اب بھی خود کشی کا رحجان ہمارے لکھنے کی وجہ سے کم ہو جائے گا؟ کیا ہم نے خود کشی کرنے والوں کو بچانے کی کوشش کی تو کسطرح؟
مجبوریاں: کسی کے پاس ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے پیسے نہیں تو ہم نے کتنوں کی مدد کی؟ البتہ کوئی خود ہی کوئی ٹیسٹ نہیں کرواتا کہ اگر ٹیسٹ میں کینسر نکل آیا تو پھر کیا ہو گا؟ یہ بھی بزدل انسان ہے جو خود کشی ہی کر رہا ہے کیونکہ علاج سے بھاگ رہا ہے، کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے کہ بلی مجھے نہیں کھائے گی۔
بیمار: جو بیمار اپنا علاج نہیں کرتا اور پراپر دوائی نہیں کھاتا وہ بھی تو خود کشی کر رہا ہے۔ جو خود بیمار ہے مگر پیسے اپنے بچوں پر لگا رہا ہےتو وہ مر کر اپنے بچوں کو یتیم کرنے کا سہرا اپنے سر لینا چاہتا ہے۔ کوئی کام نہیں کرتا مگر سوچ سوچ کر بیمار ہے اس کو کیا کہا جائے؟ کوئی محنت مزدوری نہیں کرنا چاہتا بلکہ ڈائریکٹ آفسیر کی سیٹ پر بیٹھنا چاہتا ہے اس کو کیا کہیں گے؟ ہزاروں باتیں ہیں جو روزانہ ہر عورت اور مرد کو مارتی ہیں کیونکہ ہم زندگی انجوائے کر رہے ہیں مگر اپنےاندر کا اندھیرا قرآن و احادیث کے نور سے دور نہیں کرتے۔
قرآن مجید میں سورہ بقرہ 195 ، سورہ نساء 29 – 30 کی آیات مفسرین کے نزدیک اپنے آپ کو خود موت کے گھاٹ میں اُتارنے والوں کے لئے ہے۔ اللہ کریم کو ماننے والے کبھی بھی خود کشی نہیں کرتے بلکہ حکمت و دانائی سے اسباب کے سامنے رکھتے ہوئے ساری زندگی دنیاداری سے مقابلہ کر کے دوسروں کی راہنمائی کرتے ہیں۔
بزدلی کا انجام: جو شخص اپنے آپ کو دھاری دار چیز سے ذبح کر لے اسے جہنم میں اسی ہتھیار سے اپنے آپکو ہمیشہ ذبح کرنا ہو گا۔ پھانسی لے لے تو جہنم میں ہمیشہ، زہر پی لے تو جہنم میں ہمیشہ، عذاب ہوتا رہے گا۔ (صحیح بخاری 1363، 1975، 5778 صحیح مسلم 304، 303، 302، 300)
سزا: ایک شخص نے زخم کی تکلیف برداشت نہ ہونے کی وجہ سے خود کو مار ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں، میں اس پر جنت حرام کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری 1364، 3463 صحیح مسلم 306)
لیڈر کی نافرمانی جائز: حضور ﷺ کے ایک فوجی دستے کے لیڈر کو غصہ آیا تو اُس نے اپنے سپاہیوں کو لکڑیاں جلا کر آگ میں کودنے کا حکم دیا تو کچھ نے نافرمانی کرتے ہوئے کہا کہ آگ سے بچنے کے لئے تو اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ حضور ﷺ کو جب علم ہوا تو فرمایا کہ اگر وہ آگ میں کود جاتے تو قیامت تک باہر نہ نکل پاتے، اسلئے گناہ کے کاموں میں حکومت کی نافرمانی جائز ہے۔ (صحیح بخاری 7145، مسلم 7466)
لڑائی کے دوران خود کشی کرنے والا:ایک غزوہ میں ایک بندے کے بارے میں حضور ﷺ نے پہلے ہی فرما دیا کہ یہ جہنمی ہے حالانکہ وہ بندہ شجاعت اور بہادری سے لڑ رہا تھا، یہی ہوا کہ اُس نے اپنے زخموں کی تکلیف کو ختم کرنے کے لئے خود کشی کر لی۔ (صحیح بخاری 4202، مسلم 305، 306)
نماز جنازہ: حضور ﷺ نے نیزے سے اپنے آپ کو مارنے والے کی نماز جنازہ ادا نہیں کی۔ (صحیح مسلم 2262) اسلئے کوئی بھی متقی خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہ پڑھائے بلکہ عام عوام میں سے کوئی پڑھائے۔ البتہ خود کشی کرنے والے کا نماز جنازہ ادا کیا جائے گا کیونکہ اللہ کریم شرک کے سوا سب گناہ معاف کر سکتا ہے۔ صحیح بخاری 44 : جس نے لا الہ الا اللہ کہا اس کے دل میں گیہوں برابر بھلائی ہو وہ (ایک نہ ایک دن ضرور) دوزخ سے نکلے گا۔
سوال: کیا عورت اپنی عزت بچاتے ہوئے خود کشی کر لے؟
جواب: سوال کو اُلٹ دیں اور کہیں کہ کیا عورت کی عزت بچانے والے کو مارنا جائز ہے تو ترمذی 1421 ہے اپنی عزت بچاتے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے، اسلئے کوئی زیادتی کی کوشش کرے تو اُس کو مار دیا جائے تو صحیح مسلم 360 کہ تحت آگ میں مرنے والا جائے گا۔
دوسرا صحیح بخاری 6949 کے مطابق اگر کسی نے کسی عورت سے زبردستی کر لی تو حد زبردستی کرنے والے پر لگے گی مگر عورت کو معافی ہے، اس کے خاوند کو چاہئے کہ صرف یہ دیکھے کہ حاملہ تو نہیں ہوئی تاکہ حرامی بچہ حکومت کے سپرد کیا جائے۔ صحیح بخاری 5641، 5640 کے مطابق غلط کاری کی تکلیف اس عورت کے گناہوں کا کفارہ ہو جائیں گے۔
لا علاج مریض: لا علاج مریض کو بھی زہر کا ٹیکہ نہیں لگایا جا سکتا بلکہ جب تک وہ مرتا نہیں اُس کی زندگی کی دعا اور اس کا ساتھ دیا جائے گا۔ اسطرح اس کی خدمت کی تکلیف برداشت کرنے والے بھی اپنے گناہ معاف کروا کر جنت پائیں گے۔