قبر کیا ہے؟
1۔ قبر ایک گڑھا ہے جہاں مسلمان “مُردے” کو نہلا کر، کفن پہنا کر، اس کے لئے بخشش کی دعا (نمازِ جنازہ) کر کے ادب کے ساتھ قبلہ رُخ منہ کر کے رکھ آتے ہیں۔ (ابن ماجہ: 1454، ابوداود: 3120، ابن ماجہ: 1462، صحیح مسلم: 2185، صحیح بخاری: 1333)
دوسري بات: مردہ قبر میں کیوں نہیں ہوتا؟
مٹی سب کے اجسام کو کھا جاتی ہے، اسلئے جب ہم کسی اپنے کی قبر میں دوسرا مردہ ڈالنے لگیں تو جسم تلاش کرنے پر ہمیں جسم نہیں ملتا۔ البتہ پاک نبیوں کے علاوہ سب کے اجسام مٹی کھا جاتی ہے، سوائے اللہ کریم جس کا جسم چاہے سلامت رکھے۔ (ابو داود: 1047)
تیسری بات: قبر میں نہیں بلکہ مردہ عالم برزخ میں ہوتا ہے یا جنت میں۔
بہت سے عالم اللہ کریم نے بنائے ہیں کیونکہ وہ خود رب العالمین ہے اور نبی کریم رحمتہ اللعالمین ہیں:
صحیح بخاری 3336:(عالم ارواح میں) روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں۔
۔۔۔ فرشتے اس روح کو مومنوں کی ارواح (عالم برزخ) میں لے جاتے ہیں۔ اس کی آمد سے انہیں بہت خوشی ہوتی ہے جیسے پردیسی کے آنے سے ہم خوش ہوتے ہیں، پہلے سے موجود روحیں اس روح سے سوال کرتی ہیں: فلاں کیسے تھا؟ فلاں کی سنائیں؟ وہ جواب دیتی ہے: اسے چھوڑئیے، وہ تو دنیوی فکر و غم میں مبتلا تھا۔ (اور فلاں تو مجھ سے پہلے مر چکا تھا کیا اس کی روح) تمہارے پاس نہیں آئی؟ وہ کہتی ہیں: (نہیں، اور یہاں نہ پہنچنے کا مطلب یہ ہوا کہ) وہ اپنے ٹھکانے ”ہاویہ“ (جہنم) میں پہنچ چکی ہے۔ (سلسله احاديث صحيحه 1712)
صحیح مسلم 4885: (عالم جنت) شہیدوں کی روحیں سبز چڑیوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں، جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں، اور جہاں چاہتی ہیں جنت میں چرتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ رہتی ہیں۔
چوتھی بات: روح کیا ہے؟
صحیح مسلم 7059 : آپ ﷺ کا یہود کے چند لوگوں کے قریب سے گزر ہوا ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ان سے روح کے بارے میں سوال کرو پھر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کے بارے میں تمھیں شک کس بات کا ہے؟ایسا نہ ہو کہ وہ آگے سے ایسی بات کہہ دیں جو تمھیں بری لگے پھر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوکر آپ کے پاس آگیا اور آپ ﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ ﷺ (تھوڑی دیر کے لیے) خاموش ہو گئے اور ان کو کوئی جواب نہ دیا۔مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ کہا میں بھی اپنی جگہ پر (رک کر)کھڑا ہو گیا۔جب وحی نازل ہو چکی تو آپ نے (یہ پڑھتے ہوئے) فرمایا: "یہ لوگ آپ ﷺ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تم (انسانوں) کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔
پانچویں بات: نبیوں کا تعلق ہر عالم سے ہے
1۔قبر سے تعلق: صحیح مسلم احادیث 411 سے 424 (معراج شریف کے واقعات) میں بعد از وصال انبیاء کرام کی ”حیات“ کے متعلق عقیدہ یہ دیا کہ انبیاء قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں جیسے حضرت موسی علیہ السلام۔
2۔ آسمانوں سے تعلق: انبیاء کرام (حضرت آدم، عیسی و یحیی، یوسف، ادریس، ہارون، موسی و ابراہیم، موسی علیہ السلام) آسمانوں پر بھی ہیں اور شہداء کی طرح انبیاء کرام کا جنت سے تعلق بھی ہے۔
3۔صحیح مسلم 421: بعد از وصال حضرت موسی اور یونس علیہ السلام کو آپ ﷺ نے حج کرتے ہوئے بھی دیکھا۔
4۔ عالم سے دوسرے عالم تصرف: صحیح مسلم 2102 کے مطالعہ سے علم ہوا کہ نماز کسوف پڑھاتے ہوئے حضور ﷺ اپنا ہاتھ جنت میں لے گئے یعنی حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ عالم دُنیا، عالم قبر، عالم حشر سے گذار کر عالم جنت میں لے گئے اور ساتھ میں آپ ﷺ نے دعوی کیا کہ اللہ کریم نے تم سے قرآن پاک میں جن چیزوں کا وعدہ کیا ہے میں نے سب دیکھ لیں۔یہی سوال ہے کہ کیا اس عالم میں رہنے والا نبی عالم قبر، عالم برزخ، عالم حشر اور عالم جنت کو دیکھ سکتا ہے تو عالم برزخ کی حیات میں اللہ کے حُکم سے اس دُنیا میں ہاتھ نہیں لا سکتا؟
چھٹی بات: کیا عذاب قبر ہوتا ہے؟
مندرجہ ذیل آیت و احاديث سے علم موتا ہے کہ مردہ دنیا سے جانے کے بعد قبر میں، عالم برزخ میں اور جنت یا جہنم سے رابطے میں ہوتا ہے اور ان پر ایمان لانا لازم ہے مگر دکھانا لازم نہیں۔
قرآن: فرمان نبوی ﷺ ہے کہ ”یہ آیت «يُثَبِّتُ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ» (۱۴-ابراھیم: ۲۷) کہ ”اللہ تعالیٰ قائم رکھتا ہے ایمان والوں کو پکی بات پر دنیا میں اور آخرت میں“، قبر کے عذاب کے بارے میں اتری ہے۔ میت سے پوچھا جاتا ہے: تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میرا رب اللہ تعالیٰ ہے اور میرے نبی محمد ﷺ ہیں۔ یہی مراد ہے اللہ کے اس قول سے کہ قائم رکھتا ہے ایمان والوں کو پکی بات پر۔“ (صحیح مسلم: 7219 ) اس سے معلوم ہوا کہ عذاب قبر سے بچنے کی دعائیں کرنی چاہئیں مگر محفوظ وہی رہے گا جسے اللہ کریم چاہے گا۔
عالم قبر یا عالم برزخ میں ٹھکانہ دکھایا جانا: تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو صبح اور شام اپنے ٹھکانے کے سامنے لایا جاتا ہے۔ اگر جنت والوں میں سے ہے تو جنت والوں میں سے اور جو دوزخ والوں میں سے ہے تو دوزخ والوں میں سے، پھر کہا جاتا ہے: یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ بھیجے گا تجھ کو اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن۔“(صحیح مسلم 7211)
چنگاڑیں اور سزائیں: اس امت کا امتحان ہو گا قبروں میں، پھر اگر تم دفن کرنا نہ چھوڑ دو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تم کو قبر کا عذاب سنا دیتا جو میں سن رہا ہوں(صحیح مسلم 7213)
ساتویں بات: کس کس وجہ سے عذاب ہوتا ہ؟
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب قبر ہو رہا ہے، اس میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ (صحیح بخاری: 1378)
آٹھویں بات: کیا عذاب قبر عام آدمی کو نظر اتا ہے؟
سورہ مومن :46آ گ جس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، (حکم ہوگا) فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو۔
اس آیت کے مطابق فرعون جس کی ممی مصر میں حنوط کی، موجود ہے، اس پر بھی آگ صبح و شام پیش کی جا رہی ہے مگر نظر نہیں آتی، اسلئے عذاب کا نظر آنا لازم نہیں۔
نویں بات: عذاب شروع کب ہوتا ہے؟
اگر کسی بھی جسم کو چند دنوں کے لئے برف خانہ میں رکھ دیا جائے یا کیمیکل کے ذریعے جسم محفوظ کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا حساب کتاب نہیں ہوا۔ یہ بے وقوفی ہو گی کہنی کہ جب تک اسے قبر میں نہیں رکھا جائے گا اس کا حساب قبر اور عذاب قبر نہیں ہو گا بلکہ میرے خیال کے مطابق جیسے ہی اس دنیا کا انسان مردہ کہلاتا ہے، اُسی وقت اُسی عالم میں اس کا حساب قبر اور عذاب قبر شروع ہو چکا ہوتا ہے، چاہے اسے قبر میں رکھا جائے یا نہ رکھا جائے۔
دسویں بات: عذاب قبر سے محفوظ کون رہے گا؟
ہر نیک آدمی جسے اللہ کریم توفیق دے گا۔ البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں فوت ہونے والا، روزِجمعہ یاشَبِِ جمعہ انتقال کرنے والا، روزانہ رات میں تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ (پوری سورت) پڑھنےوالا، تلاوتِ قراٰن کرنے والا، اسی طرح ہر وہ مسلمان جس سے قبر کے سوالات نہیں ہوں گے اسے عذابِِ قبر بھی نہیں ہو گا۔ حضرت سیِّدُنا امام عمر نَسَفِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے فرمایا: فرمانبردار مسلمان کو عذابِِ قبر نہیں ہو گا لیکن اسے قبر دبائے گی اور وہ اس کی تکلیف اور خوف کو محسوس بھی کرے گا۔
گیارھویں بات: عذاب قبر سے پناہ کے لئے دُعا کب؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے نماز میں تشہد پڑھے تو چار چیزوں سے پناہ مانگے، کہے:
«اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ» یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری جہنم کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے عذاب سے اور دجال کے فتنہ سے۔“(صحیح مسلم: 1324)
بارھویں بات: عذاب قبر کا نبی کریم نے کب بتایا؟
پہلی حدیث: ام المؤمنین سیدہ عائشہ راوی، رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور یہودی عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی، وہ کہنے لگی: تم کو معلوم ہے تم قبر میں آزمائے جاؤ گے (یعنی تمہارا امتحان ہو گا اور جو امتحان میں پورے نہ اترے تو عذاب ہو گا) یہ سن کر رسول اللہ کانپ گئے اور فرمایا: ”یہ یہود کے واسطے ہو گا۔“سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر ہم چند راتیں ٹھہرے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تجھ کو معلوم ہے کہ میرے اوپر وحی اتری ہے کہ قبر میں تمہاری آزمائش ہو گی۔(صحیح مسلم: 1319 )
دوسري حديث: ام المؤمنین سیدہ عائشہ راوی، میرے پاس مدینہ والوں میں دو یہودی بڑھیاں آئیں اور کہنے لگیں کہ قبر والوں کو عذاب ہوتا ہے قبروں میں۔ میں نے ان کو جھٹلایا اور مجھے ان کو سچا کہنا اچھا نہ لگا۔ پھر وہ دونوں چلی گئیں اور رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ میں نے آپ سے بیان کیا جو ان بڑھیوں نے کہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”انہوں نے سچ کہا۔ قبر والوں کو ایسا عذاب ہوتا ہے جس کو جانور تک سنتے ہیں۔
وضاحت: ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کریم کو علم آہستہ آہستہ دیا گیا ہے حتی کہ جس وقت الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت اتری اس وقت دین مکمل ہو گیا تھا۔ اسلئے اگر نبی کریم کو پہلے معلوم نہ تھا تو کوئی بات نہیں، وحی آنے کے بعد علم ہو گیا ہو گا جیسے سورہ کہف 23؛ جب روح،اَصحاب ِکہف اور حضرت ذوالقر نین کے بارے میں دریافت کیا تھا تو حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ کل بتاؤں گا اور اِنْ شَاءَ اللّٰہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ “اور ہر گز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردوں گامگر یہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کی یاد کر جب تو بھول جائے اور یوں کہہ کہ قریب ہے کہ میرا رب مجھے اس سے نزدیک تر راستی(ہدایت) کی راہ دکھائے”۔
عقیدہ: اہلِ سنّت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عذابِ قَبْر اور تَنْعِیمِ قبر روح اور جسْم دونوں کو ہوتا ہے۔(المعتمد المستند، ص182، بہارِ شریعت، ج1، ص111 ملخصاً) حضرت سیّدنا امام احمد بن حنبل علیہ رحمۃ اللہ الاکبر فرماتے ہیں: عَذابُ الْقَبْرِ حَقٌ لَا يُنكِرُه اِلَّا ضَالٌّ مُضِلٌّ یعنی عذابِِ قبر حق ہے اس کا انکار گمراہ اور گمراہ گر کے سواکوئی نہیں کرے گا۔(طبقات الحنابلہ،ج1،ص166) عذابِ قبر سے مراد بَرزَخ میں ہونے والا عذاب ہے،اسے عذابِ قبر اس لئے کہا جاتا ہے کہ عام طور پر میِّت کو قبْر میں ہی دَفْن کیا جاتا ہے ورنہ جسے اللہ تعالیٰ نے عذاب دینے کا ارادہ فرمایا ہے اسے عذاب ضرورہوگا، چاہے وہ قبر میں دفن ہو یا نہ ہو،خواہ اسے درِندوں نے کھا لیا ہو ،یا اسے جلاکراس کی خاک ہوا میں اُڑادی گئی ہو۔