مہمان کی اذیت یا اہمیت
مہمان کی دینی طور پر اہمیت بھی ہے اور دنیاوی طور پر اذیت بھی ہے، اسلئے کہ ہم شرعی قانون و اصول نہیں جانتے جیسےدعوت میں غریب کو بھی شامل کرنا چاہئے۔
صحیح مسلم 3521: حضور ﷺ کا فرمان ہے: برا کھانا اس ولیمہ کا کھانا ہے جس میں امیر بلائے جائیں اور مساکین نہ بلائے جائیں تو جو دعوت میں نہ حاضر ہو اس نے نافرمانی کی اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی۔
صحیح بخاری 4889؛ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک صاحب خود (سیدنا ابوہریرہ) حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس بھیجا (کہ وہ آپ کی دعوت کریں) لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ) کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یعنی اور اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔
کاش: ایسا کوئی عمل ہمیں بھی ایسا کرنے کی توفیق مل جائے ، جس پر رب مسکرائے اور بخشش فرمائے۔
کھانا کھلانا: نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں : تم میں سے سب سے بہتر آدمی وہ ہے جو کھانا کھلاتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے (صحيح الجامع: 3318) اور جو ضیافت نہیں کرتا تو فرمان ہوا: اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو میزبانی نہ کرے۔ (صحيح الجامع: 7492)
زبردستی: ہم نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا آپ ہمیں مختلف ملک والوں کے پاس بھیجتے ہیں اور (بعض دفعہ) ہمیں ایسے لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے کہ وہ ہماری ضیافت تک نہیں کرتے۔ آپ کی ایسے مواقع پر کیا ہدایت ہے؟ آپﷺ نے ہم سے فرمایا، اگر تمہارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور تم سے ایسا برتاؤ کیا جائے جو کسی مہمان کے لیے مناسب ہے تو تم اسے قبول کر لو، لیکن اگر وہ نہ کریں تو تم خود مہمانی کا حق ان سے وصول کر لو۔(صحيح بخاری 2461)
واجب: علماء کرام فرماتے ہیں کہ کسی کو کھانا کھلانا واجب ہے۔
صحیح بخاری 6019: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
دورانیہ(period): ایک دن رات کی مہمان نوازی کرنا واجب ہے اور دوسرے و تیسرے دن کی مہمان نوازی مستحب ہے، اس کے بعد مہمان نوازی نفلی صدقہ کے مقام پر آ جاتی ہے۔
میزبان: اگر کسی کے پاس مہمان گئے تو ان کے حالات کا بھی علم ہونا چاہئے، اگر امیر ہیں اور مہمان نوازی کو برکت سمجھتے ہیں، ان سے تعلقات اچھے ہیں تو جتنے دن مرضی رہیں لیکن اگر محسوس ہو کہ تعلق بوجھ ہے تو پھر ان کو اذیت نہ دی جائے۔ اگر ان کو کسی وجہ سے پریشانی ہو رہی ہے تو اپنے گھر واپس آ جائیں۔
اگر غریب ہیں تو جتنے دن ان کے گھر رہیں اور جو خرچہ ہوا ہو خود ادا کریں تاکہ ان کی مدد بھی ہو جائے۔ اس طرح وہ کبھی بھی ایسے مہمان کی مہمان نوازی کرنے میں ناخوش نہیں ہوں گے۔
تجربہ: اس کا تجربہ کر کے دیکھا ہوا ہے کہ امیر ہوں یا غریب، ہر ایک کے گھر میں تحفہ بھی لے جائیں۔ دوسرا غریب کی مدد ضرور کریں، اللہ کریم برکتیں عطا فرماتا ہے۔
اذیت: اگر کوئی مہمان اپنا حق سمجھ کر بوجھ بن جائے تو شریعت نے فارمولہ دے رکھا ہے کہ مہمان تین دن کا ہے اُس کے بعد اُس کو کہہ دیں کہ ہمیں کام ہے آپ اپنے گھر جائیں۔ شرم و شرمی اذیت محسوس کرنا عبادت نہیں ہے ، دوسرا عوام کو شریعت سکھائیں ان کے پاس علم نہیں ہے
میزبانی کے آداب:
(1) مہمان گھر آئے، اسے مناسب وقت دیں، خوشی کا اظہار کریں، آنےکا مقصد پوچھیں، کتنے دن کے لئے آیا ہے وہ پوچھیں تاکہ اُس کے اتنے دن کے کھانے پینے کا انتظام کیا جا سکے۔
(2) مہمان کو ایک چارپائی، موسم کے مطابق بستر گرم یا سرد، بیت الخلاء کا راستہ بتائیں، دور سے آیا ہو تو کھانا پہلے پوچھ لیں اور پھر آرام کرنے دیں۔
(3) اپنی حیثیت اور اس کی حیثیت کے مطابق اُس کو کھانا کھلائیں۔ البتہ پہلے دن کھانا اچھا ہو۔
(4) اگر مہمان بے تکلف ہو تو ساتھ بیٹھ کر اس کے ساتھ کھائیں، اگر کھانے میں شرم کرتا ہو تو اُٹھ جائیں تاکہ وہ آرام سے کھانا کھا سکے۔
(5) مہمان سے وہ باتیں کریں جو اس کی دل جوئی کریں، اپنے گھر کے اصول و قانون بھی بتا دیں تاکہ وہ بھی اس پر عمل کرے۔ جب مہمان جانے لگے تو باہر نکل کر اُس کو رخصت کریں تاکہ محلے داروں کو علم ہو کہ ان کا اپنا کوئی تھا۔
مہمان کے لئے ہدایات:
(1) کسی کے گھر میں اُس وقت جائیں جب وہ جاگتا ہو اور اُس کو مہمان نوازی میں پریشانی نہ ہو کیونکہ آجکل کوئی رات کی ڈیوٹی پر ہے اور کوئی دن کی ڈیوٹی پر۔ کوئی ساری رات جاگتے ہیں اور کوئی جلد سو جاتے ہیں۔
(2) خود ہی کہہ دے کہ مجھے تو دال یا سبزی بہت پسند ہے بلکہ چٹنی سے روٹی بھی کھا لیتا ہوں یا کبھی کبھی خود بھی کھانا لے کر جا سکتا ہے تاکہ کہہ سکے میرا دل کر رہا تھا یہ کھانے کو اسلئے کہا ساتھ مل کر کھا لیں گے۔ کئی دفعہ کسی کے گھر ہم خود مہمان گئے تو بوتل یا جوس وغیرہ خود لے لیا کہ ان کے ساتھ بیٹھنا مقصود ہے تو ان کو اُٹھ کر پانی لینے بھی نہ جانا پڑے۔
(3) کھانے میں عیب نہ نکالے بلکہ کہہ دے کہ بھوک نہیں ہے تاکہ کھا کر تکلیف محسوس نہ ہو۔
(4) کھانا کھا لیا تو الحمد للہ کہے اور میزبان کے لئے دعا مانگے کہ یا اللہ: برکت دے ان کی روزی میں اور بخش دے ان کو اور رحم کر ان پر۔ان کی بخشش فرما، ان کو برکت عطا فرما، ان کو اچھی زندگی عطا فرما اور اچھا رزق عطا فرما۔(صحيح مسلم: 5328) اسے اللہ ! جس نے مجھے کھلایا تو اس کوبھی پلا اور جس نے مجھے پلایا اس کو بھی پلا۔(صحيح مسلم: 5362)
(5) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ضیافت تین دن تک ہے اور اس کا تکلف ایک دن رات تک چاہیے اور کسی مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو گناہ میں ڈالے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس طرح اس کو گناہ میں ڈالے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو کھلانے کے لیے۔(تو وہ غلط کام کر کے یا حرام کما کر اسکی میزبانی کرے)(صحيح مسلم: 4514)
اصول و قانون: ہر مسلمان ہر عمل میں قانون و اصول پر ہو تو جینے کا مزہ کچھ اور ہے، کسی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔