بابرکت مقام
سورہ بنی اسرائیل 1: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے (محمد ﷺ) کو ایک ہی رات میں مسجد حرام سےمسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے آس پاس (بھی) ہم نے(بڑی) برکت رکھی ہے تاکہ ہم اپنے بندے محمد ﷺ کو اپنی بعض نشانیاں دکھائیں بلاشبہ وہ اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
تفسیر قرطبی:اقصیٰ کا معنی دوردراز کا ہے چونکہ مسجد اقصیٰ مسجد الحرام اور (مسجد نبوی) سے کافی دور ہے اس لئے اسے یہ نام دیاگیا۔
صحیح بخاری 1339: سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے تو اس سرزمین(بیت المقدس) پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی تھی۔
سیدنا لوط علیہ السلام کے متعلق سورہ الانبیاء 71: اور ہم ابراھیم اور لوط علیہھما السلام کو ان (ظالموں) سے نجات دے کر ایسی زمین کی طرف لے کر آئے جس میں ہم نے جہان والوں کیلئے برکتیں کی ہیں۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کوحکم دیا۔ المائدہ 21: اےمیری قوم! اس مقدس (پاک) سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔
سورہ الانبیاء 81: اورسلیمان(علیہ السلام) کیلئے ہم نے تندوتیزہوا کو بھی تابع بنا دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین (شام) کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔
سورہ الاعراف 137: اور ہم نے اس قوم کو جو کمزور سمجھی گئی تھی اِس زمین کے مشرق ومغرب کا وارث کیا جس میں ہم نے برکت رکھی۔
سورہ المؤمنون 50: اور ہم نے مریم کے بیٹےعیسیٰ اور ان کی والدہ کو(اپنی قدرت کی) ایک نشانی بنادیااورا نہیں ایک ایسے ٹیلے (بلندمقام) پر جگہ دی جوپرسکون ،قابل اطمئنان اور چشمے والاتھا۔
ان سب آیات سے مراد بِیت المقدس اور شام کے علاقے ہیں۔
احادیث کی روشنی میں
فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر کا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد (نبوی) میں ایک نماز (اجر و ثواب کے اعتبار سے) اس (بیت المقدس، مسجد اقصیٰ) میں چار نمازوں سے زیادہ افضل ہے اور وہ ( مسجد اقصیٰ) نماز پڑھنے کی بہترین جگہ (و لنعم المصلٰی) ہے۔ عنقریب ایسا وقت بھی آنیوالا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدرزمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت کرسکے (اس کے لئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا) پوری دنیا یا فرمایا دنیا وما فیھا سے زیادہ افضل ہوگا۔ (مستدرک حاکم: 8553، شعب الایمان :3849، صحیح الترغیب: 1179)
ابن ماجہ 1408: جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں (1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصـلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے (3) یااللہ! جو آدمی اس مسجد (بیت المقدس) میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فرما لی ہیں، (کہ ان کا ذکر توقرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔ (نسائی: 693)
ترمذی 2217: قیامت سے پہلے حضر موت یا حضر موت کے سمندر کی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھا کرے گی“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تم شام چلے جانا“۔
مستدرک حاکم 6404: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری والدہ نے خواب دیکھا تھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
مستدرک حاکم 8413: قرب قیامت جب فتنے بکثرت ہونگے تو ایمان اور اہل ایمان (زیادہ تر) شام کے علاقوں میں ہی ہونگے۔
ترمذی 3954: آپ ﷺ نے فرمایا: ”مبارکبادی ہو شام کے لیے“، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھاتے ہیں“۔
ابو داود 2483: عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑی شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں“۔ ابن حوالہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اپنے اوپر شام کو لازم کر لو، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا، کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔
ابو داود 4294: قیامت سے قبل مدینہ منورہ (غیر آباد) ویران ہوجائے گا اوربیت المقدس آباد ہوگا تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا۔
مسند احمد 23683: دجال چارمقامات پر داخل نہیں ہوسکےگا: (1) مکۃ المکرمہ (2) مدینہ منورہ (3) بیت المقدس، مسجد الاقصیٰ (4) طور۔
صحیح مسلم 7335: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل نہ کریں گے حتی کہ اگر کوئی یہودی کسی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا تو وہ بھی بول اٹھے گا کہ اے مسلمان! میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کردو۔
صحیح بخاری 6522: قیامت سے پہلے ایک آگ لوگوں کودھکیلتی ہوئی میدان محشر (شام) کی طرف لے کر آئے گی، وہ آگ صبح دوپہر اور شام ہر وقت ان کے ساتھ ہوگی حتی کہ وہ انہیں میدان محشرتک پہنچادے گی۔
مختصر واقعات
1۔ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے جن میں سیدنا ابراھیم، سیدنا اسحاق، سیدنا یعقوب، سیدنا یوشع، سیدنا موسی و عیسی علیہ السلام شامل ہیں۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔
3۔ حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔
4۔ حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔
5۔ چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ” یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل” یعنی چیونٹیوں کی وادی رکھ دیا گیا تھا۔
6۔ حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔
7۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔
8۔ اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔
9۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔
10۔ ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔
11۔ قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔ ابن ماجہ 4075: سیدناعیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ان ہی علاقوں دمشق کے مشرق میں سفید مینار کے پاس ہوگا۔
12۔ اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔ صحیح مسلم 7373: سیدناعیسیٰ علیہ السلام دجال کو’’باب لد‘‘ کے پاس قتل کردیں گے۔ فتنہ یاجوج وماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب’’جبل الخمر‘‘ کے پا س ہوگی۔
باب لد فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، پر جس اسرائیل غاصب نے قبضہ کررکھا ہے۔
13۔ فلسطین ہی ارض محشر ہے۔ ترمذی 3918: شام محشر ومنشر کی سرزمین ہے۔ (یعنی محشر سرزمین شام میں بپا ہو گا۔)
14۔ اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔
15۔ اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔
16۔ فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے حضورﷺ کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔ (صحیح بخاری: 4492، صحیح مسلم 1176)
17۔ حضور اکرم ﷺ معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔ صحیح مسلم 411: آپ ﷺ کومسجد الحرام سے براق (ایک جانور) پرسوار کیا گیا جس پر آپ بیت المقدس مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے، وہیں آپ ﷺ نے دودھ کے برتن کواختیار فرمایا، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: اخترت الفطرۃ یعنی آپ نے فطرت کو اختیار کیا وہیں بیت المقدس سے ہی آسمان کی طرف معراج کاآغاز ہوا۔
18۔ سرکار دو عالم ﷺ کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔ صحیح مسلم 430: بیت المقدس مسجد اقصیٰ میں امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی۔
19۔ وصال حبیبنا ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ ﷺ کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔
20۔ اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔
21۔ دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔
22۔ بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔
23۔ مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین” انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون” زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔
24۔ اور قران پاک کی یہ آیت مبارک ( وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔