کھانے کی ڈش کو "حلیم” کہنے کا حکم
بعض اوقات چھوٹی چھوٹی بات بھی عام عوام کو پریشان کر دیتی ہے جیسے اگر کوئی کہے کہ جناب کھانے کی ڈش کا نام حلیم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حلیم تو اللہ کریم کا صفاتی نام ہے۔ اب جب یہ بات کی جائے گی تو عام عوام پریشان ہو جائے گی اور عوام کسی سے پوچھتی ہی نہیں، دوسرا ایسی باتیں کرنے سے جہالت کا یہ سلسلہ پھر پھیلتا چلا جاتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے”، لہذا اگر کوئی اس نیت سے اس ڈش کا نام "حلیم” لیتا ہے کہ میں نعوذبااللہ اللہ کی شان میں گستاخی کر رہا ہوں تو پھر تو یہ حرام اور غلط ہے مگر صاف بات ہے کہ کسی کی بھی یہ نیت نہیں ہوتی، سب اسے ایک کھانا سمجھتے ہوئے ہی حلیم کہتے ہیں۔
بہت سے لڑکوں کے اسلامی نام اللہ کریم کی صفت سمجھ کر رکھے جاتے ہیں اور ان لڑکوں کے نام کے ساتھ ہ لگا دی جائے تو لڑکی کا نام بن جاتا ہے جیسے حلیم سے حلیمہ لیکن اللہ کریم کا صفاتی نام لطیف ہے مگر کوئی بھی لڑکی کا نام لطیفہ نہیں رکھے گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں مذاق بن جائے گا۔
ان تینوں قرآنی آیات رب العالمین (فاتحہ) میں رب کا لفظ اللہ کریم کے لئے استعمال ہوا ہے، ربہ خمرا (یوسف 41) میں رب کا لفظ سردار کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور رب الرحمھما کما ربینی صغیرا (بنی اسرائیل 24) میں لفظ ’’رب‘‘ کا لفظ والدین کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
اللہ کریم سب سے "اعلی” ہے لیکن کسی عالم کو "ابوالاعلی” کہنے سے وہ اللہ کا باپ نہیں بن جائے گا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کہ لفظ حلیم نہیں دلیم تھا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی مگر جتنی مرضی کہانیاں ہر قوم میں گھڑی جاتی ہیں۔ اگر اللہ کریم کے صفاتی نام کو کھانے کی ڈش حلیم سے موازنہ کریں گے تو کیا:
اللہ کریم اول ہے تو آپ کا بچہ اول آئے گا یا کہیں گے میرا بچہ اول آیا ہے؟
اللہ کریم وکیل ہے تو کیا مقدمے کے لئے وکیل کو دکیل کہیں گے؟
اللہ کریم کا صفاتی نام وارث بھی ہے تو کیا فلاں اس کا دارث کہیں گے؟
حلیم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تحمل، برداشت یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہے۔ اور یہی لفظ حلیم اردو میں ایک خاص قسم کے کھانے کا نام ہے، آپ وہم میں نہ پڑیں، اردو زبان میں حلیم جس کھانے کو کہا جاتا ہے اسے حلیم کہہ بھی سکتے ہیں اور حلیم کو کھا بھی سکتے ہیں۔