با لغ لڑ کی
1
1۔ صحیح بخاری 5063: تین حضرات (سیدنا علی، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون) نے حضور ﷺ کی بیویوں سے آپ ﷺ کی عبادت کا حال پوچھا تو کہا ہمارا، آپ ﷺ سے کیا مقابلہ، ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ ساری رات نماز، دوسرے نے ہمیشہ روزہ رکھنے اور تیسرے نے عورت کے پاس نہ جانے کا عزم کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ "فمن رغب عن سنتي فليس مني” میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔
ابن ماجہ 1846: النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي” نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ ان دونوں احادیث کو اکٹھا کر کے نکاح کے خطبے میں النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فمن رغب عن سنتي فليس مني پڑھا جاتا ہے۔
2۔ نکاح کسی پر فرض، کسی پر واجب، کسی پر سنت موکدہ، کسی کے لئے مکروہ تحریمی اور کسی کے لئے حرام ہے۔ اگر لڑکا یا لڑکی میں سے کوِئی نکاح نہ کرنا چاہے تو یہ اُس کا اختیار ہے کیونکہ با لغ لڑکا اور لڑکی کی رضا مندی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ بالغ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو کم از کم دو مسلمان مردوں (گواہ شرط میں شامل ہیں) کی موجودگی میں حق مہر(واجب) مقرر کر کے قبول کریں۔
احادیث: ابن ماجہ 1881، ابو داود 2085، ترمذی 1101، مسند احمد، دارمی 2229 : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا نكاح إلا بولي "”ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے”۔ اس حدیث میں حضور نے لڑکا لڑکی کو والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کو بہتر نہیں جانا مگر فرض قرار نہیں دیا، اگر دیا ہوتا تو نکاح کرنا حرام بلکہ زنا میں شمار ہوتا مگر
ابو داود 2085، ترمذی 1101، مسند احمد و دارمی: "جو عورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ البتہ اگر اس نے اس سے صحبت کر لی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کر لی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں”۔
شرح: اس حدیث میں بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کو باطل یعنی زجر و توبیح (لعنت ملامت) کے طور پر فرمایا گیا ہے۔اسلئے یہ بھی فرمایاگیا کہ اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر کے قربت کر لی تو مہر پورا دینا ہو گا، اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو یہ نکاح زنا میں شمار ہوتا اور حق مہر لازم نہ ہوتا۔
با لغ عورت کا اختیار
1۔ صحیح بخاری 5136: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
2۔ ابو داود 2096: ایک کنواری لڑکی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کر دیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے اسے نکاح (توڑنے کا) اختیار دیا۔ (سنن ابن ماجہ 1875، مسند احمد)
3۔ صحیح بخاری 5138: خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا تھا، وہ بیوہ تھیں، انہیں یہ نکاح منظور نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، نبی کریم ﷺ نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔
4۔ اللہ کریم مرد کے لئے فرماتا ہے کہ ان عورتوں سے نکاح کروجو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں (النساء) اور لڑکی کی طرف نسبت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں، اُس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح خبردار ہے (البقرہ)
البتہ ہمارا معاشرہ کرپٹ ہے، کوئی شرعی سسٹم نہیں ہے، کہیں لڑکا لڑکی بے غیرتی کر جاتے ہیں، کبھی قبیلہ یا خاندان لڑکا لڑکی کو معاف نہیں کرتا بلکہ قتل کر دیتا ہے یا ساری زندگی کے لئے قطع تعلقی کر لیتا ہے۔
اسلئے کہیں کاروکاری (سندھی زبان میں سیاہ کار یعنی غیرت کے نام پر قتل کرنا)، سوارا یا ونی (یعنی کسی جرم یا الزا م کی صورت میں جان بخشی کیلئے اپنی بچیاں مردوں کے نکاح میں دے دینا)، قرآن سے شادی (باثر خاندان میں عورت کو جائیداد میں سے حصہ دینے کی بجائے قرآن سے نکاح کر دینا)، پیر کی اونٹنی (نام نہاد رافضی پیر کسی لڑکی کو پسند کر لیتے ہیں تو وہ لڑکی شادی نہیں کر سکتی، شادی پیر بھی اُس سے نہیں کرتا بس خدمت۔۔۔۔)، سام (گائے بیل جیسے کسی کے پاس امانت رکھوائے جاتے ہیں ایسے ہی مرد یا عورت بھی تنازعے کے حل یا انتقام کے طور پر رکھی یا رکھوائی جاتی ہیں)۔
نتیجہ: اہلسنت احناف کے نزدیک قرآن و سنت کے مطابق عاقل بالغ عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے اور قرآن و احادیث کے تمام دلائل اس کی تائید کرتے ہیں۔ اسلئے والدین کو چاہئے کہ بالغ ہونے تک اپنے بیٹے اور بیٹیوں کودین سکھائیں تاکہ وہ بالغ ہوتے ہی نماز، روزہ، زکوۃ، حج کریں،والدین کی وفات کے بعد وراثت تقسیم کرنے کے قابل ہوں اور اپنا نکاح والدین کے مشورے کے ساتھ بااختیار طریقے سے کر سکیں۔
برکات: دین کی برکات لینے کے لئے ہمیں مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ہو گا اور یہ بہت آسان ہے، اگر ہر کوئی دین سیکھے، اپنے اپنے گھر میں دین سکھائے اور حق کی پیروی کرے۔