خلافت ابوبکر

خلافت ابوبکر

 

قرآن و سنت میں کہیں بھی کسی کی امامت کا نہیں فرمایا گیا اسلئے امامت کا عقیدہ منگھڑت ہے۔
پہلی بات: قرآن کی آیات کی شان نزول کا علم احادیث نبوی سے ہوتا ہے اور 14 اور 12 کے تبرا تقیہ بدا عقیدے والے اہلتشیع حضرات کے پاس نبی اکرم ﷺ کی احادیث کی کتب ہی نہیں ہیں تو قرآن کی تفسیر ہی نہیں کر سکتے۔
دوسری بات: نبی کریم ﷺ کے کونسے صحابی 14 اور 12 کے تبرا تقیہ بدا عقیدے والے تھے؟ کوئی نہیں۔ اسلئے قرآن کی تشریح میں امامت ہے نہیں اور نہ یہ عقیدہ نبی کریم ﷺنے سکھایا۔
تیسری بات: قرآن و سنت میں امامت کا ذکر ہے تو مولا علی نے عملی طور پر کب امامت کی اور کونسے 14 اور 12 کے تبرا تقیہ بدا عقیدے والے اہلتشیع حضرات ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے؟
چوتھی بات: اگر امامت کی نہیں اور قرآن و سنت پر مولا علی نے عمل نہیں کیا تو پھر مسلمان نہیں رہتے اسلئے 14 اور 12 کے تبرا تقیہ بدا عقیدے والے اہلتشیع حضرات کا عقیدہ امامت منگھڑت ہے۔
پانچویں بات: قرآن و سنت میں حضرت ابوبکر کی خلافت کا واضح حُکم نہیں لیکن قرآن و سنت سمجھنے والوں بشمول حضرت علی نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ مان کر بیعت کر لی، اسلئے خلافت حق ہے۔
چھٹی بات: حضرت علی نے اسلام بچانے کے لئے ایسا کیا کہ امامت کے لئے نہیں لڑے تو تب بھی اسلام خلافت والوں کی وجہ سے ہی پھیلا اور مولا علی خود چوتھے خلیفہ بنے۔
ساتویں بات: اگر نبی کریم ﷺ نے حکم دیا تھا کہ ہتھ یار نہیں اُٹھانے تو کونسی احادیث نبوی کی کتب ہیں 14 اور 12 کے تبرا تقیہ بدا عقیدے والے اہلتشیع حضرات کی ہیں، جس میں ایسا فرمایا گیا ہو؟
سوال: دین اسلام کے مقابلے میں ایک کالا دین کیوں بنایا اور کس نے محمد و آل محمد کا نعرہ لگا کر اپنی عوام کو گمراہ کیا؟
بیعت حضرت ابوبکر
بیعت حضرت ابوبکر کے لئے دلائل کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ امامت ہوئی ہی نہیں لیکن پھر بھی واضح ہے:
1۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد انصار نے اختلاف کیا تو حضرت عمر نے فرمایا: حضرت ابوبکر سے آگے بڑھنے پر کس کا دل خوش ہو گا تو لوگوں نے کہا: ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سے آگے بڑھیں۔ (سنن نسائی 778)
2۔ حضور ﷺ کی وفات کے دوسرے دن حضرت عمر نے واعظ کیا اور حضرت ابوبکر کو منبر پر بٹھایا، ایک جماعت سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت کر چکی تھی، اب باقی سب لوگوں نے بیعت کی۔(صحیح بخاری 7219)
3۔ سیدنا ابوبکر نے حضرت زبیر کے بارے میں پوچھا کہ وہ بھی یہاں دکھائی نہیں دے رہے۔ جب انھیں حضرت ابوبکر کا پیغام موصول ہوا تو وہ بھی ان کی بیعت کے لیے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔ سیدنا ابوبکر نے پہلے ان کے امتیازات بیان کیے اور پھر بیعت کا کہا۔ اس کے بعد یوں گویا ہوئے: اے رسول ﷲ کے پھوپھی زاد اور رسول ﷲ کے حواری! آپ مسلمانوں کی جمعیت کو نقصان تو نہیں پہنچانا چاہتے؟ حضرت زبیر نے بھی فوراً جواب دیا: اے خلیفہ رسول! ایسا تو کچھ بھی نہیں۔ پھر انھوں نے بھی آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔(الحاکم، المستدرک: 4514 و البیہقی، السنن 16538 )
4۔ حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ عنہما حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے پاس آئے تو سیدہ نے کہا: تم صحیح راہ کا انتخاب کرتے ہوئے پلٹ جاؤ۔ اس کے بعد یہ دونوں جب دوبارہ حضرت فاطمہ کے ہاں آئے تب دونوں حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔(أحمد بن حنبل، فضائل الصحابہ:364/1)
5۔ حضرت علی نے اپنے دور خلافت میں یہاں تک اعلان کروا رکھا تھا کہ جو بھی مجھے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنھما پر فضیلت دے گا میں اسے بطورِ سزا بہتان طراز جتنے کوڑے لگاؤں گا۔(ابن أبی عاصم، کتاب السنہ: 1219و أحمد بن حنبل، فضائل الصحابہ: 294،83/1)
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general