
بھوکا پیاسا اور بیوی سے صحبت
اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ (سورہ بقرہ 183) بالغ عورت اور مرد دونوں پر لازم ہیں۔
روزے کی شرائط میں یا روزہ رکھنے کے لئے لازم ہے کہ پہلا کام فجر کی اذان سے پہلے جو سائرن (اعلان) ہوتا ہے اُس وقت سے لے کر مغرب کی اذان سے پہلے کے سائرن (اعلان) تک بھوکا پیاس رہنا یعنی کوئی بھی شے اس کے پیٹ (معدہ) میں نہ جائے، طاقتور ہونے نہ دے، بندہ کمزوری محسوس کرے، اس کو روزہ رکھنا کہتے ہیں۔ دوسرا کام اگر شادی شُدہ نہیں ہے تو اپنے ہاتھ سے اپنی منی نہ نکالے اور اگر شادی شُدہ ہے تو بیوی کے ساتھ صحبت نہ کرے اس کو روزہ رکھنا کہتے ہیں۔
اصول: اب آپ سمجھ لیں کہ روزے میں نمازیں چھوٹ جائے اور بندہ قضا کر لے روزہ رہے گا۔ اگر فرض نمازیں چھوٹ جانے سے روزہ رہتا ہے تو تراویح ادا نہ کی تو تب بھی روزہ رہے گا۔
کھانا پینا: خوراک یا پانی جو جو معدے میں جائے تو اُس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ علماء نے سمجھایا کہ منہ، ناک، آنکھیں، پیشاب اور پاخانہ کے سوراخ کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح معدے سے ہے، اسلئے ان سوراخوں کے اندر پانی داخل نہ کیا جائے۔ بہتر ہے کہ سُرمہ بھی نہ ڈالا جائے۔ ویکس انہیلر بھی استعمال نہ ہو۔
انجیکشن: کچھ علماء کہتے ہیں کہ پٹھے یا رگ میں انجیکشن لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ پٹھے اور رگ کا ڈائریکٹ معدے سے نہیں ہے مگر بہتر یہی ہے کہ شدید ضرورت کے تحت یہ انجیکشن لگوائے جائیں کیونکہ روزے کا مقصد کمزور ہونا ہے اور ٹیکوں میں طاقت دینے والے اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ بیوی سے صحبت: نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عشاء پڑھتے ہی لوگوں پر کھانا، پینا اور عورتوں سے جماع کرنا حرام ہو جاتا، ایک شخص نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی اور اس نے روزہ نہیں توڑا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «علم الله أنكم كنتم تختانون أنفسكم» ”اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم اپنے آپ سے خیانت کرتے تھے“ (سورۃ البقرہ: 187) اور اس کے بعد رات کو عورت سے صحبت جائز ہوئی۔ (ابو داود 2313)
احادیث نبوی ﷺ
صحیح بخاری 1933: کسی روزہ دار کے گلے میں، ناک میں وضو کے دوران پانی چلا جائے، کسی کے منہ میں مکھی چلی جائے، کوئی بھولے سے بیوی سے صحبت کر لے یا بھولے سے کھا پی لے تو کوئی گناہ نہیں بلکہ اسے اللہ کریم نے کھلایا پلایا ہے۔
صحیح بخاری 1935: ناک میں (دوا وغیرہ) چڑھانے میں اگر وہ حلق تک نہ پہنچے تو کوئی حرج نہیں ہے اور روزہ دار سرمہ بھی لگا سکتا ہے۔
صحیح بخاری 1939: نبی کریم ﷺ نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا یعنی کہ خون نکلوایا اسلئے اگر کوئی بلڈ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
ابوداود 2367: جس نے قے (vomitting) کی اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا، اور نہ اس شخص کا جس کو احتلام (سوت ہوئے منی کا نکلنا) ہو گیا، اور نہ اس شخص کا جس نے پچھنا (خون نکلوایا) لگایا۔
ابوداود 2380: ہاں اگر اس نے قصداً جان بوجھ کر قے کی تو قضاء کرے۔
صحیح بخاری 1929: روزہ میں نہانا، باربار کُلی کرنا، زبان پر سالن رکھ کر چکھ کر تھوک دینا، صبح و شام مسواک کرنا سب جائز ہے، البتہ تھوک اندر نہ جانے دے۔
صحیح بخاری 1903: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (اس حدیث سے مُراد گناہ چھوڑنا ہے، روزہ نہیں)۔
غور و فکر: مندرجہ بالا بیان کے بعد، جن کاموں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(1) پھول یا مشک عنبر یا عطر سونگھنے سے (2) حجامت بنوانے سے (3) زکام میں رطوبت اندر لے جانے سے (4) کلی کے بعد منہ میں تری رہنے سے (5) ہونٹ پر زبان پھیرنے سے (6) گرد و غبار کا منہ میں خود بخود جانے سے (7) بدن یا بالوں میں تیل لگانے سے (
نہانے سے (9) خون دینے، نکلوانے یا ٹیسٹ کروانے سے (10) روزے کے دوران قے (اُلٹی) بار بار آئے چاہے منہ بھر کر آنے سے (11) احتلام ہو جانے سے(12) غیبت ، جھوٹ یا بہتان لگانا حرام ہے مگر ان تمام اعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
