
فدیہ نہیں دینا روزہ رکھنے کے لئے فدائی بننا ہے
پہلے قرآن کی آیات نازل ہوئیں “وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين” تو جو روزہ نہ رکھنا چاہتا وہ فدیہ دے دیتا اور روزہ نہ رکھتا۔ البتہ ان آیات سے اور احادیث سے فدیہ دینا منسوخ ہوا اور روزہ رکھنے کا حکم ہوا۔
سورہ بقرہ 184: فمن تطوع خيرا فهو خير له وأن تصوموا خير لكم ”پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزہ رکھنا ہی ہے۔
دوسرا سورہ بقرہ 185فمن شهد منكم الشهر فليصمه ومن كان مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر ”تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے کو پائے تو وہ اس کے روزے رکھے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے۔
كِتَاب الصَّوْمِ، باب 39: وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ صحیح بخاری 1949Q: ابن عمر اور سلمہ بن اکوع نے کہا کہ اس آیت کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا جو یہ ہے ”رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا لوگوں کے لیے ہدایت بن کر اور راہ یابی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے روشن دلائل کے ساتھ، پس جو شخص بھی تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا مسافر تو اس کو چھوڑے ہوئے روزوں کی گنتی بعد میں پوری کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالیٰ کی اس بات پر بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم احسان مانو، ابن نمیر نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ رمضان میں (جب روزے کا حکم) نازل ہوا تو بہت سے لوگوں پر بڑا دشوار گزرا، چنانچہ بہت سے لوگ جو روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکتے تھے انہوں نے روزے چھوڑ دیئے حالانکہ ان میں روزے رکھنے کی طاقت تھی، بات یہ تھی کہ انہیں اس کی اجازت بھی دے دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ پھر اس اجازت کو دوسری آیت «وأن تصوموا خير لكم» الخ یعنی ”تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم روزے رکھو“ نے منسوخ کر دیا اور اس طرح لوگوں کو روزے رکھنے کا حکم ہو گیا۔
ابوداود 2316: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آیت کریمہ «وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين» نازل ہوئی تو ہم میں سے جو شخص ایک مسکین کا کھانا فدیہ دینا چاہتا دے دیتا اور اس کا روزہ مکمل ہو جاتا، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «فمن تطوع خيرا فهو خير له وأن تصوموا خير لكم» (سورۃ البقرہ: ۱۸۴) ”پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزہ رکھنا ہی ہے“، پھر فرمایا: «فمن شهد منكم الشهر فليصمه ومن كان مريضا أو على سفر فعدة من أيام أخر» (سورۃ البقرہ: ۱۸۵) ”تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے کو پائے تو وہ اس کے روزے رکھے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے“۔
فدیہ کون دے سکتا ہے؟
جس کو قابل ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اب تم ساری زندگی روزہ رکھنے کے قابل نہیں ہو تو وہ ایک روزے کے بدلے میں ایک فطرانے کی رقم دے گا اور 30 روزوں کا فدیہ ہو گا 30 فطرانے کی رقم یعنی 400 کا دو کلو آٹا ہو تو 30روزوں کا فدیہ 12000ہو گا۔
(2) وہ بیمار جسے ڈاکٹر کہہ دے کہ صرف اس رمضان کے روزے نہ رکھو بعد میں رکھ سکتے ہو وہ ’’فدیہ‘‘ نہیں دے گا بلکہ بعدمیں روزے رکھے گا۔
(3) وہ بیمار جس کو علم نہیں تھا مگر’’فدیہ‘‘ دے دیا توروزے پھر بھی رکھنے پڑیں گے۔
(4) بیمار اگر گرمیوں کے روزے نہیں رکھ سکتا تو سردیوں میں روزے رکھے لیکن’’فدیہ‘‘ دینا جائز نہیں ہو گا۔
(5) اسی طرح مرنے والے کے اوپر روزہ یا نمازیں ادا کرنی باقی ہوں تو ایک روزہ یا ایک نماز کے بدلے میں ایک فطرانہ ادا کرنا ہو گا۔