
قضا اور کفارہ
جو شخص بغیر شرعی رخصت اور بیماری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو چاہے پھر وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے وہ اس رمضان کے روزے کا بدل نہیں ہو سکتے۔ (ترمذی 723)
قضا: کا مطلب ہے کہ ایک روزے کے بدلے میں دوسرے کسی ماہ میں ایک روزہ رکھنا۔
صحیح بخاری 1959: ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بادل تھا۔ ہم نے جب افطار کر لیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام (راوی حدیث) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضاء کا حکم ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضاء کے سوا اور چارہ کار ہی کیا تھا؟
صحیح بخاری 1951: اور ابوالزناد نے کہا کہ دین کی باتیں اور شریعت کے احکام بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ رائے اور قیاس کے خلاف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنی ضروری ہوتی ہے ان ہی میں سے ایک یہ حکم بھی ہے کہ حائضہ روزے تو قضاء کر لے لیکن نماز کی قضاء نہ کرے۔
نفلی روزے کی بجائے فرض کی قضا: سعید بن مسیب نے کہا کہ (ذی الحجہ کے) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں (اور ان کی قضاء ابھی تک نہ کی ہو) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضاء پہلے کرنی چاہئے۔ (صحیح بخاری 1950)
کفارہ: روزے میں جان بوجھ کر، خود بخود، سوچتے سمجھتے ہوئے، کھا پی لیا یا عورت سے صحبت کر لی تو ایک روزہ کی قضا کے ساتھ ساتھ، دو مہینے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔
صحیح بخاری 1936: ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ! میں تو تباہ ہو گیا، میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کر سکو؟ اس نے کہا نہیں، کیا لگاتار دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ کہا نہیں۔ تھوڑی دیر گذری کہ ایک بڑا تھیلا کھجوروں کا آیا تو آپ ﷺ نے اس کو بلا کر فرمایا: اسے لے لو اور صدقہ کر دو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم ﷺ اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جا سکے۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔ (صحیح مسلم 2595)
روزہ کی قضا اور کفارہ کے اصول
1۔ منہ کی راہ سے پیٹ اور دماغ میں ایسی دواء یا غذاء کا پہنچنا جس سے بدن میں طاقت پیدا ہو اس سے کفارہ لازم آئے گااور اگر ایسی چیز کھائی جس سے بدن میں طاقت پیدا نہ ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا مگر قضا لازم آئے گی مثلاً منہ کے راستے غذا یا کوئی دواء کھائی تو ’’ کفارہ‘‘ اور اگر کنکر پتھر نگلا تو’’ قضا‘‘۔
2۔جان بوجھ کر ایسی غذا کھانے سے جس کی طرف رغبت ہو تو کفارہ لازم آئے گا اور جس کی طرف رغبت نہ ہو اس کے کھانے سے قضا لازم آئے گی جیسے
(i) گوشت کھانے سے ’’کفارہ‘‘ اور جلا ہوا بدبودارگوشت کھانے سے’’قضا‘‘
(ii) بیوی کا چبایاہوا لقمہ کھانے سے’’ کفارہ‘‘ اوراپنے منہ کا نکال کر کھانے سے ’’قضا‘‘
(iii)قے آئی علم تھا کہ روزہ نہیں ٹوٹا مگر کھانا کھایا تو’’ کفارہ‘‘علم نہیں تھااور کھالیا تو’’ قضا‘‘
(iv) خربوزہ یا تربوز کھانے پر’’ کفارہ‘‘ اور اس کا چھلکاسڑا ہوا کھانے پر’’ قضا‘‘ وغیرہ وغیرہ
۳۔ عورت سے جماع میں رغبت ہوتی ہے اس لئے ’’کفارہ‘‘ اور اپنے ہاتھ سے منی نکالی تو’’قضا‘‘ ۔
اہم بات: اگر غلط کام کی عادت سے محبت ہو جیسے مٹی یاکنکر کھانا، سڑے ہوئے پھل یا اس کے چھلکے کھانا، ہتھ رسی یا مشت زنی کو شوق سے کرنا تو پھر مسئلہ ’’قضا ‘‘سے’’ کفارہ‘‘ میں بدل جائے گا۔