
رمضان المبارك اور غسل کے فرائض
سورة مائدة 6: وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْاؕ ترجمہ: اگرتم جنب ہو تو خوب پاک ہو جاؤ یعنی غسل کرو اور سورة بقرہ 222: یہاں تک کہ وہ حَیض والی عورتیں اچھی طرح پاک ہو جائیں۔
اسلئے غسل جنابت یا احتلام ہونے سے غسل کرنا لازم ہے۔ روزے میں احتلام ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا:
ابوداود 2376: جس نے قے کی اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا، اور نہ اس شخص کا جس کو احتلام ہو گیا، اور نہ اس شخص کا جس نے پچھنا لگایا۔
فرض: غسل کا ایک ہی فرض ہے یعنی سارے جسم پر پانی بہانا، ظاہر اور باطن کو دھونا اس میں ناک کی نرم ہڈی تک، ناک کے اندر کے بال اور اس پر چمٹی مٹی کو دھونا، منہ کے اندر کو دھونا یعنی کلی کرنا یا غرغرہ کرنا۔
غسل جنابت میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنا سنت ہے۔ رمضان کے اندر پریشانی ہوتی ہے مگر ان احادیث کو پڑھکر نہیں ہو گی۔
سنن ابی داود 2368: لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو“۔
سنن الترمذی 788: لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: ”کامل طریقے سے وضو کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی سرکنے میں مبالغہ کرو، إلا یہ کہ تم روزے سے ہو“۔