ٹیکس اور زکوۃ

ٹیکس اور زکوۃ

 

ہر مُلک میں ٹیکس (tax) لگتا ہے لیکن ٹیکس کے متعلق کچھ مختلف رائے ہیں جیسے:
1۔ اسلامی معاشرے میں ’’عوام‘‘ پر زکوۃ ہے لیکن ٹیکس کوئی نہیں ہے البتہ جنگ، قحط یاکسی اور ہنگامی صورت میں حکومت عوام پر ٹیکس لگا سکتی ہے۔
2۔ پاکستان میں زکوۃ گورنمنٹ کو اکٹھی نہیں کرنی چاہئے بلکہ عوام کو زکوۃ خود سوچ سمجھ کر اپنوں کو دینی چاہئے کیونکہ یہ اسلامی نہیں زیادہ ترسیکولر مُلک ہے البتہ یہاں مسلمانوں کو آزادی حاصل ہے۔
3۔ گورنمنٹ کاٹیکس لگانا بنتا ہے اور عوام کا ٹیکس دینا بنتا ہے کیونکہ یہی ٹیکس گورنمنٹ عوام کی صحت، جان و مال کی حفاظت ، سڑکیں، پُل وغیرہ بنانے پر لگائے گی۔
عوام علماء کرام سے پوچھ سکتی ہے
1۔ ملک میں اسلام نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کا کام نہیں کہ بینک میں رکھے گئے پیسوں کی زکوۃ کاٹے لیکن کیونکہ یہ زکوۃ بینکوں میں کاٹی جاتی ہے۔ پہلے اہل تشیع حضرات نے لکھ کر دیا تھا کہ ہم اپنی زکوۃ خود دیں گے اور اب اہلسنت و جماعت بھی اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیتے ہیں جس سے بینک ان کے پیسوں سے زکوۃ نہیں کاٹتے۔ اس لئے ہر کوئی اپنی زکوۃ خود اپنے رشتے داروں کو دے۔
2۔ بیمہ پالیسی، انشورنس، فکسڈ ڈیپازٹ، بچت اسکیم وغیرہ میں پیسہ رکھنا اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے قرضہ لینے کو علماء کرام نے ’’ناجائز‘‘ قرار دیا ہے کیونکہ یہ سُود میں آتا ہے۔البتہ درج ذیل سوال عوام کے ذہن میں آتے ہیں لیکن اپنی بساط کے مطابق ہر کوئی سُود سے بچنے کی کوشش کرے:
* اس معاشرے میں کون سا محفوظ کاروبارعورت(غیر شادی شُدہ، شادی شُدہ، بیوہ) کر سکتی ہے جو اس کے معاشی حالات بہتر کرے کیونکہ یہاں بھائی کو پیسے دئیے جائیں تو وہ واپس نہیں کرتا۔
* کیا عورت اور مرد اسلامی بینک کاری وغیرہ میں فکسڈ ڈیپازٹ کرا سکتے ہیں، اگر نہیں کرا سکتے تو جو مفتیان عظام اسلامی بینکاری کو جائز قرار دیتے ہیں اس پر عمل کیا جائے کہ نہیں؟
3۔ قسطوں پر چیزیں لینا جائز ہے لیکن اگر قسط ادا نہ کرنے پر رقم زیادہ کر دی جائے توجائز نہیں۔ اس طرح قسط ادا نہ کرنے پر چیز واپس لے لینا بھی جائز نہیں۔ ایسی لکی کمیٹی جائز نہیں جس میں کسی کی کمیٹی نکل آئی اور وہ باقی کمیٹی نہیں دے گا اور ایسی لکی کمیٹی سے موٹرسائیکل لینا بھی ناجائز ہے۔
4 ۔ پرائز بانڈ رکھنا علماء کرام نے ’’جائز‘‘ قراردیا ہے لیکن پرائز بانڈ کی پرچی لینا دینا ناجائز ہے۔
سود : کا نظام کانفرنسیں کرنے اور اس کے خلاف بولنے سے نہیں بلکہ یہ کام کریں (1) قرضِ حسنہ دے کر صبر کریں (2) لوگوں کی ضرورتیں پوری کریں (3)غیر شرعی رسم و رواج، تہوار اور دکھاوے پر پیسہ لگانا بند کریں (4) حکومت اور امیر لوگ عوام کے روزگار کا انتظام کریں اورعوام بھی محنت کرے۔
مختصر ضروریات زندگی
ضروریات زندگی جن پر زکوۃ نہیں لگتی، اس میں کم از کم ایک کمرے کا مکان چھوٹا یا بڑا بمعہ کچن، باتھ روم وغیرہ، خوراک، گرمی اور سردی کے کپڑے،کھانے کے برتن، چارپائیاں یا بیڈ، کرسیاں میزیں، بستر( اپنے لئے اور گھر میں آنے والے مہمانوں کیلئے)، علم والے کیلئے کتابیں (انٹرنیٹ، موبائل) فریج، واشنگ مشین، AC، اوون (oven)، بائیک، کار اور بجلی، سوئی گیس، پانی کے کنکشن وغیرہ سب شامل ہیں۔ ہرکوئی اپنے رشتے دار کو’’زکوۃ‘‘ دے کران کی ضروریات زندگی کو پورا کرسکتا ہے۔
ہر غریب آدمی جب امیر ہو جاتا ہے تو اس کی ضرورتیں بدل جاتی ہیں۔ اگر غریب کے پاس پیسہ آ جائے اور وہ AC وغیرہ کا بِل ادا کر سکتا ہو تو اپنی ضرورتیں بڑھا بھی سکتا ہے۔ اگر امیر آدمی غریب ہو جائے تواس کی خوراک، لباس اور بچوں کی تعلیم وغیرہ کا خرچ بھی زکوۃ کے مال سے اداکر سکتے ہیں۔
غور و فکر: کسی بھی نکاح پر ’’زکوۃ‘‘ کا مال دیا جا سکتا ہے مگر نکاح کے وقت میں پیلا جوڑا، تیل مہندی جیسی ہزاروں رسموں پر زکوۃ کا پیسہ نہیں لگانا چاہئے بلکہ ہر غریب زکوۃ بھی ضرورت کے مطابق لے۔
2۔ مال تجارت پر زکوۃ
زکوۃ تجارت کے مال پر ہوتی ہے جب کوئی چیز بہ نیت تجارت خریدیں گے تو وہ تجارت کے لئے ہو گی۔گھرمیں جو سامان ہے خواہ کسی قیمت کا ہو اس پر بھی زکوۃ نہیں ،اگر کوئی چیز گھر کے کام کے لئے خریدی اس پر زکوۃ نہیں ہو گی چاہے بعد میں بیچ بھی دی جائے۔
ہر وہ سامان جو تجارت کی نیت سے خرید ا گیا ہو توسال گذرنے پرتمام نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، ڈیپازٹس، سونا چاندی اور مالِ تجارت وغیرہ سب کا حساب کر کے ’’زکوٰۃ‘‘ ادا کرنا ضروری ہے۔
کارخانہ دار: کارخانہ کوئی بھی ہو، اس کی زمین، عمارت، مشینری، مزدوروں کی ضرورت کے اوزار ( خواہ وہ مالک کے ہوں یا مزدوروں کے )، ان پرزکوۃ ہر گز نہیں لگتی۔ البتہ کارخانے کے مالک کو اپنے تمام مال ( نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز)کے ساتھ کارخانے میں موجود خام مال، تیار مال اور مارکیٹ میں کریڈٹ پر دئے ہوئے تمام مال کا سال کے بعد حساب کر کے زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
مقروض مسلمان: ہر مسلمان اور خصوصاً تاجر حضرات جن کا اکثر مارکیٹ میں لین دین (قرض دینا اور لینا) جاری رہتا ہے۔اس لئے زکوۃ دینے سے پہلے جو ’’اُدھار‘‘ لینا ہے تواس کو اپنے سارے مال میں جمع کریں اور اگر ’’اُدھار‘‘ دینا ہے تو اس کو مال سے نکال دیں، پھرتمام ’’مال‘‘ (نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، سونا چاندی اور مالِ تجارت) کا حساب کر کے ’’زکوۃ‘‘ دی جائے۔
لمبی مدت کے قرض اور کمیٹیاں
ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض، بعض صنعتی اور تجارتی قرض او ر گھر یا مارکیٹ میں ڈالی ہوئی کمیٹیاں فوراً ادا نہیں کرنی ہوتیں بلکہ وہ پانچ یا دس سال کی مدت تک ماہانہ یا سالانہ ادا کی جاتی ہیں۔ ایسے’’ قرضے‘‘ یا’’کمیٹیاں‘‘ جو آرام سے ادا کی جا رہی ہوں، اس کے علاوہ سارے مال( نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز) میں سے زکوۃ ادا کرنا ہو گی۔
مکان، دکان، فلیٹس اور پلاٹوں پر زکوۃ
1۔ ذاتی استعمال کے مکان پر زکوۃ نہیں لگتی۔ اسی طرح ذاتی مکان کے لئے خریدے ہوئے پلاٹ پربھی زکوۃ نہیں لگتی۔ وہ مکان یا پلاٹ یا دکانیں یا فلیٹس جو کرائے پر دئے ہوں ان پر بھی زکوۃ نہیں لگتی البتہ سارے سال کا کرایہ اور باقی (نقد رقم، بینک اکاؤنٹ، بانڈز، ڈیپازٹس، سونا چاندی اور مالِ تجارت) وغیرہ سب کا اکٹھا حساب کر کے’’ زکوۃ‘‘ دی جائے گی۔
2۔ ایسے مکانات، پلاٹس، دکانیں یا فلیٹس جو کاروباری اور تجارتی مقاصد کیلئے ’’ٹھیکیدار‘‘ بناتے ہیں یعنی نفع کمانے کی غرض سے ان سب کی موجودہ قیمت (rate) پر ’’زکوۃ‘‘ ہے، اگر پیسے پھنس جائیں تو جس وقت رقم مل جائے، اس وقت ’’زکوۃ‘‘ ادا کر یں۔
3۔ بینک یا حکومت کی بچت اسکیموں میں جمع اصل رقم پر زکوۃ واجب ہے کیونکہ بینک کا سود شرعاً حرام ہے اور زکوۃ تو طیب مال پر واجب ہے۔
3۔ جانوروں کا نصاب
یہ تین قسم کے جانور اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ کو 2 سال کے لئے جنگل میں’’مفت‘‘ گھاس اور پتے کھا کر موٹے تازے ہو نے کے لئے چھوڑنا تاکہ ان سے ’’دودھ‘‘ حاصل کیا جا سکے اور ’’بچے‘‘ لئے جائیں تو ایسے جانوروں کو سائمہ کہتے ہیں اوران پر زکوۃ لگتی ہے لیکن شہر میں پیسے کی گھاس خرید کر جو جانور پالے جاتے ہیں وہ جانور سائمہ نہیں ہوتے۔
اونٹ گائے بکری کے علاوہ گھوڑے یا کسی اور جانور پر’’زکوۃ‘‘ فرض نہیں ہے البتہ بھینس، دنبہ، بھیڑ وغیرہ ایک ہی نوع اور قِسم سے ہیں اس لئے ان پر بھی زکوۃ ہو گی۔
بوجھ اُٹھانے یا ہل جوتنے والے جانوروں کو اگر جنگل میں چرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے تو پھر بھی ’’سائمہ ‘‘ نہیں ہوتے۔ اس وقت شہر یا گاؤں میں ایسے جانور موجود نہیں ہوں گے۔ اگر کوئی ایسے جانور رکھتا ہو تو علماء کرام سے پوچھ کر ان کی زکوۃ دے۔
زرعی زمین یعنی کھیت کی پیداوار پرعُشر لگتا ہے
زمین کی تمام پیداوار پر عُشرلگتا ہے چاہے وہ میوہ جات، پھل، ترکاری ہو یا غلہ مثلاً گیہوں، جو، باجرہ، چاول، گنا، پھول، خربوزہ، آم، ککڑی، بینگن وغیرہ، سب کی پیداوار میں سے دسواں حصہ راہ خدا میں دیا جائے۔ اس میں سونے چاندی جیسے نصاب کی قید کوئی نہیں، کم ہو یا زیادہ، سال میں ایک بار پیداوار ہو یا کئی بار ہو، جب بھی پیدوارا ہو تو تمام پیداوار کا’’دسواں‘‘ حصہ زکوۃ دینا فرض ہے۔ جب تک عُشر ادا نہ کرے یا عُشرنکال کر علیحدہ نہ کر دے، اس وقت تک نہ خودکھائے اورنہ کسی غیر کو کھلائے۔
بچہ، پاگل، بے وقوف، مقروض کوئی بھی ہو، ان کی زمین (کھیت) کی پیداوار پر عُشر یعنی دسواں حصہ زکوۃ کا نکالنا پڑے گا۔ وہ کھیت جو ندی نالوں یا بارش کے پانی سے پیداوار دیتے ہوں تو ان پر دسواں حصہ ہے اور جو ڈول وغیرہ سے پانی کھینچ کر پیداوار دیں تو اس کی پیداوار پر بیسواں حصہ ہے۔ اگر پانی خرید کر آبپاشی کی جائے تو اس پانی کی پیداوار پر بھی بیسواں حصہ زکوۃ کا ادا کیا جائے گا۔ نہر کا پانی بھی حکومت سے خرید ا جاتا ہے اس لئے اس پر بھی بیسواں حصہ دینا ہے۔
ذاتی کاوشیں: دوستوں کو ایصال ثواب، میلاد، صدقہ وغیرہ کے مروجہ نظام سے ہٹ کر، اس طرح سے منانے کا حُکم دیا کہ جس سے پیسہ ضائع نہ ہو اوردوستوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوں ۔جیسے:
* میلاد کے پیسے اکٹھے کر کے جن دوستوں کے پاس گھر نہیں تھے، ان میں سے چند ایک کو مکان بنا کر دئے تاکہ نبی کریم ﷺ کے میلاد کی خوشی میں غریبوں کی ’’مدد‘‘ کا انداز دوسرے بھی اختیار کریں۔
* پڑھنے والے بچوں کوMBA ,MS, MCSوغیرہ کروایا اور ساتھ میں ان کو’’ امامت‘‘ کے قابل بھی بنایا۔ محنت کرنے والے مزدور دوستوں کو رکشے، مشینیں وغیرہ لے کر دیں اور دینی مسائل بھی سکھائے۔
* قربانی اپنے فوت ہوئے والدین، اولیاء کرام اور انبیاء کرام کی طرف سے کرنا جائز ہے لیکن اگر زندوں کی طرف سے قربانی کی جائے یعنی اپنے غریب رشتے داروں اور دوستوں کی طرف سے قربانی کا ایک حصہ ڈالا جائے، ان کو گوشت کا پورا حصہ دیا جائے اور وہ اپنے غریب رشتے داروں میں تقسیم کریں تو بہتر ہے کیونکہ اس عمل سے ہمارے آقا کریمﷺ کو زیادہ خوشی ہو گی۔اس طرح عمل کر کے بہت فائدہ محسوس ہوا۔
* اگر ہو سکے تو قربانی اپنے گاؤں یا ایسی جگہ جہاں غریب لوگ رہتے ہوں کرنی چاہئے تاکہ گوشت ان غریبوں میں تقسیم کیا جائے۔
اپنے معاشرے میں زکوۃ (صدقہ و خیرات) اس طرح لگائیں کہ مسلمان کو فائدہ ہو تاکہ وہ بھی دوسرے مسلمان بھائیوں پر لگانے کا حوصلہ رکھے ، اس سے دین اسلام کو فائدہ ہو گا۔اللہ کریم قبول و منظور فرمائے۔ امین
We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general