حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ
حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، قبیلہ کندہ کا سردار جن کو حجر الخیر اور حجر بن الادبر بھی کہا جاتا ہے۔بعض حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو صحابی اور بعض تابعی کہتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ قادسیہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ جمل و صفین میں شامل تھے۔ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کوفہ سے تھے جو کہ سازشوں کا گڑھ تھا اور اسلئے بنیادی طور پر حضرت عثمان اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھما کے خلاف تھے۔ ان پر الزام ہیں:
1۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے دور میں کوفہ کے امیر مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ، صحابی رسول، خطبہ دیتے توحضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ شور، تشدد اور نازیبا الفاظ استعمال کرتے۔
2۔ اگر گورنمنٹ کی طرف سے عوام کو وظائف کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی تو حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے خلاف احتجاج کر کے پریشان کرتے مگر آپ صبر کرتے۔
3۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ بیت المال سے کچھ مال دارالخلافہ بھیج دیا جائے تو وہاں پر بھی سواریوں کی لگام پکڑ کر برا بھلا کہنے والے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تھے۔
4۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ 50ھ میں وفات پا گئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابی سفیان کو کرمان اور فارس کا گورنر بنایا، پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے، پھرمشرقی علاقوں کے آزاد حکمران بن گئے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں نہیں تھے، حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زیاد بن ابی سفیان اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کروا دی)کو کوفہ اور بصرہ کا گورنر بنایا۔
5۔ حضرت زیاد بن ابیہ کے خطبہ کے دوران حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ ہتھیار لگا کر آئے اور کنکریاں بھی گورنر کو ماریں۔ حکومت کے خلاف زبان درازی بھی کی، اس ساری کاروائی کو گورنر نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کیونکہ حضرت زیاد ابن سفیان بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔
6۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو اُس کے ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے گواہوں سمیت دمشق بھیج دو۔انہوں نے مندرجہ ذیل چارج شیٹ کے ساتھ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ، اُس کے ساتھی اور گواہوں (صحابی اور تابعی) کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا:
۱) حجر بن عدی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں نکالتے ہیں اور باغی ہیں۔
۲) امیر وقت کے ساتھ محاربہ (جنگ) کرتا ہے بلکہ سخت مخالفت کرتے ہیں۔
۳) خلیفہ وقت کو نہیں مانتے بلکہ آل ابی طالب کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں مانتے۔
فیصلہ: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو 51 ھ ”عذرا“ کے مقام پر چارج شیٹ کے مطابق گواہوں سے باز پُرس کر کے قتل کی سزا دی۔ بالکل اسی طرح حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے عبداللہ اور عبدالرحمن جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے خلاف بولتے تھے ان کو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی مصعب بن زبیر نے قتل کروایا۔
7۔ اہلتشیع کی کتابوں میں بھی مذکور ہے کہ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی سمجھایا، اُس کے بعد حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تو اُن کو بھی برا بھلا کہنے والے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تھے، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر بھی ان کو بیعت توڑنے کا مشورہ دینے والے اور گورنمنٹ کے خلاف چال چلنے کے لئے کہنے والے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تھے، اس پر حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنھما کے الفاظ تاریخ میں حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے خلاف ملتے ہیں۔
8۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو معاف کروانے کے لئے قاصد بھیجا مگر قاصد کے پہنچنے سے پہلے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کر وا دیا ہوا تھا۔
ایک دفعہ مدینہ پاک میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے ملاقات کے دوران حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے متعلق بات ہوئی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ جن لوگوں نے ان کے خلاف گواہی دی انہوں نے قتل کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ان کے شر و فساد سے خوف کھایا، اسلئے قتل کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ اے معاویہ تمہاری بردباری حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کے وقت کہاں گئی تھی تو آپ نے فرمایا کہ قوم میں آپ جیسی خیر خواہ شخصیت میرے پاس موجود نہیں تھی اسلئے واقعہ پیش آیا۔
9۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس کے بعد بھی خوشگوار دینی تعلقات استوار رہے۔ اگر کوئی کہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سُنا کہ عنقریب عذرا کے مقام پر بعض لوگ قتل کئے جائیں گے تو اللہ تعالی اور آسمان والے ان کی وجہ سے غضبناک ہوں گے تو یاد رکھیں کہ یہ روایات اسی طرح بے سند، منقطع اور ضعیف روایت ہے جیسے جنگ جمل کے دوران کتے بھونکنے والی روایت ہے۔
10۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کی روایت کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تو یاد رکھیں کہ یہ ابو مخنف تاریخی ڈرامہ ساز کی بات ہے جس کا کوئی یقین نہیں کیا جا سکتا۔
تجزیاتی رپورٹ
1۔ حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ صحابی یا تابعی کوئی بھی تھے، یہ مسئلہ صحابہ کے درمیان ہے تو اہلسنت نے خاموشی کا حکم دیا ہے کیونکہ دونوں قرآن و سنت کے مطابق عظیم شان والے ہیں اور بہتر سمجھتے ہیں کہ کیا کرنا تھا۔
2۔ اہلتشیع بے بنیاد مذہب اگر تاریخی واقعات کو بنیاد بنا کر اہلسنت کو جھوٹا ثابت بھی کر دیتا ہے تو اُس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اُس کی احادیث تواتر سے ثابت ہی نہیں ہیں، فقہ جعفر جھوٹی ہے، اسلئے وہ آہستہ آہستہ تفسیقی اور تفضیلی پیروں کے ساتھ ملکر اہلسنت بننے کی کوشش کریں گے اور ایک وقت آئے گا کہ وہ اپنی سب کتابوں کا انکار کر دیں گے۔
3۔ اسکی بنیادی وجہ یہی ہو گی کہ خلافت عثمانیہ کے بعد رافضیت و خارجیت کے ذریعے اہلسنت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں اہلسنت کے علماء نے بکاؤ مال کا کردار ادا کیا ہے۔
4۔ دیوبندی اور بریلوی علماء چار کفریہ عبارتوں کا اصولی اختلاف قوم کو بتاتے تو عوام گمراہ نہ ہوتی اور اب بھی خرابی کی جڑ دونوں جماعتوں کی لڑائی ہے۔