خود کلامی
دین پر عمل: زندگی میں وہ بندہ دین پرکامیابی سے چل سکتا ہے جو دنیاوی رزق کو اپنی مجبوری یا کمزوری نہ سمجھتا ہو ورنہ بہت سے مسلمان رزق روزی کے دھندے سے باہر نکل نہیں پاتے اور دین پر عمل ریٹائرمنٹ یا بڑھاپے میں کرنا چاہتے ہیں اور اس سے پہلے دین کو دنیا داری کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور دین کو صرف بڑھاپے کا ساتھی سمجھتے ہیں۔
مشورہ: اپنے گناہ یا برائی کو ظاہر کر کے کسی کو گواہ نہیں بناناچاہئے کیوں کہ اللہ کریم ستار العیوب ہے اگر آج ہمارے گناہ پر پردہ ڈال رکھا ہے تو وہ حشر میں بھی ہمارے گناہ کسی پر بھی ظاہر نہیں ہونے دے گا۔ اس لئے کسی پر اپنے گناہ ظاہر کر کے گواہ نہیں بنانا چاہئے۔
سنی سنائی بات: سنی سنائی بات کرنا یا آگے پھیلانا مومن کی شان نہیں۔ سنی سنائی بات کی تحقیق کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔اگر سنی سنائی بات پھیلانا اور بتانا چھوڑ دیں تو کروڑوں فضول میسج بند ہو جائیں گئے۔ سنی سنائی بات سنانا بند کر دینے سے غیبت، چغلی، جھوٹ،بہتان، لغویات اور گندی باتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔سنی سنائی جھوٹی باتوں اور افسانوں سے دین پر اصلی رنگ کی بجائے جذباتی اور افسانوی نقلی رنگ چڑھ جاتاہے۔
گندی ذہنیت: معاشرے کی اندرونی گھٹیا ذہنیت کا علم ایسے کاموں سے ہوتا ہے جیسے سکول، کالج، مسجد، مدرسہ، ہسپتال کے ٹائلٹ کے اندر کے دروازے پر گندی تصویریں، گندی گالیاں یا گندے جملے لکھے جاتے ہیں اور جب سکول یا مدرسہ سے آ کر اولاد گالی نکالے جسکے مفہوم کابھی اس کو علم نہ ہو اورپوچھنے پر پتا چلے کہ ٹائلٹ کے اندر کے دروازے پر کسی کے بیٹے یا بیٹی نے برائی کی تبلیغ کی ہے اور اس مسئلے کا حل ایک نے نہیں بلکہ سب نے سوچ کر نکالنا ہے۔
سوال: اللہ کریم بااختیار ہے اگر چاہے تو کیاکوئی بندہ بھی کفر کر سکتا ہے؟
جواب: ہرگز نہیں کر سکتا۔اس بات سے ہی تو بندے کا اختیار ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کریم نے بندے کوعلم، عقل اور اختیاردیا ہے لیکن وہ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر کے گمراہی اور کُفرخرید لیتا ہے جس پر سزا کا دارومدار ہے۔
غریب و امیر: غریب سے امیر ہونے کا کوئی وظیفہ نہیں ہوتا۔ غریب امیر کی اور امیر غریب کی آزمائش ہوتا ہے۔ غریب سے پوچھو کتنی دولت ملنے پر تو اپنے آپ کو امیر سمجھے گا اور امیر سے پوچھیں تو وہ بھی اپنے آپ کو غریب کہتا نظر آئے گا۔دولت دنیا میں مقابلے کی جڑ ہے اور مقابلہ فساد کی وجہ ہے اس لئے پیٹ کسی کا نہیں بھرتا سوائے اس کے جو مقابلہ کرنا بند کر دے۔
مہذب انسان: مہذب انسان وہ نہیں ہوتا جس کے اندر شر، شرارت، شیطان اور غلاظت نہ ہو بلکہ مہذب انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے شر، شرارت، شیطان اور غلاظت سے دوسروں کو گندہ نہ کرے اور اپنے اندر کی نفاست، خلوص، اجلا پن سے دوسروں کو اپنی محبت میں رنگ کرنبی کریمﷺکا بے دام غلام بنا دے۔
کیوں: نیکی گناہ کو اور گناہ نیکی کو کھا جاتا ہے لیکن ہمیشہ گناہ کو نیکیوں سے زیادہ وزنی سمجھا جاتا ہے جس سے نیک اعمال کا سفر وقتی طور پر رُک جاتا ہے اور اگر اللہ کریم کی رحمت نہ ہو تو بندہ اپنے آپ کو شیطان سمجھنے لگ پڑتا ہے۔
رکاوٹ: اتحاد امت میں رکاوٹ علماء اور جماعتیں ہیں۔ بریلوی علماء دیوبندی علماء سے پیار سے نہیں کہتے کہ دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں اس کو کفریہ مان لیں۔ دیوبندی بریلوی علماء کو پیار سے سمجھائیں کہ تم نے علمی طور پر نہیں مگر عملی طور پر مساجد کی عوام کو بدعتی بنایا ہے کیونکہ مستحب اعمال کو فرض سمجھ کر کرتے ہیں، ہم سے مطالبہ کرتے ہو تو اپنی عوام کو کیا علم دیا ہے۔
حقیقت: دیوبندی اور بریلوی دونوں اہلسنت عقائد کے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ کچھ اہلسنت علماء سعودی عرب سے مل گئے اور کچھ اہلسنت علماء ایران کے ایجنڈے پرآ گئے۔ عوام کو جاہل بنایا گیا ہے، اب تماشہ لگا ہے دنیا میں اور آخرت میں تماشہ سب بنیں گے جو حضورﷺ کی امت کو جوڑ نہیں رہے بلکہ جوڑنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔