تہجد اور نیند
1۔ اللہ کریم نے حضورﷺ کو ارشاد فرمایا ”اور رات کے کچھ حصے میں تہجد کرو، یہ خاص تمہارے لئے زیادہ ہے(بنی اسرائیل-۹۷)۔ تہجد کی نماز حضورﷺ پر فرض تھی اور عام عوام کے لئے نفل ہے۔
2۔ کچھ علماء کرام فرماتے ہیں کہ تہجد کے لئے عشاء کی نماز کے بعد سونا ضروری ہے اور عام طور پر ”ضروری“ کا لفظ فرض یا واجب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ شرط تہجد کے لئے کس حدیث سے لی گئی۔
پہلی بات: البتہ تہجد کا وقت عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور فجر کی اذان سے پہلے پہلے تہجد کے نفل ادا کئے جا سکتے ہیں۔
دوسری بات: نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی ہر رات جب ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو فرماتے ہیں: اس وقت کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اس کی پکار کا جواب دوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے کہ میں اُسے بخش دوں (بخاری و مسلم)
کیا کسی حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو بندہ سوئے بغیر اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں نفل ادا کرے گا، اُس کی دُعا اللہ کریم نہیں سُنے گا؟
تیسری بات: کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہ تہجد نماز سونے سے پہلے بھی پڑھ سکتا ہے کیونکہ سورہ مزمل میں اس نماز سے متعلق تخفیف کی آیت سے یہ بات نکلتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے اسی بناء پر فرمایا ”تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہ اُٹھ سکے گا، اسے چاہئے کہ سونے سے پہلے اپنی نماز وتر (طاق) کر لے، لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ یقینا اُٹھے گا، اسے یہ نماز رات کے آخری خصے میں ہی ادا کرنی چاہئے۔ اسلئے کہ آخری شب کی قرات روبرو ہوتی ہے اور وہی افضل ہے (مسلم)
چوتھی بات: کچھ علماء فرماتے ہیں کہ عشاء کے ساتھ جو وتر ادا کئے جاتے ہیں وہ دراصل تہجد کی نماز ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کی بنیاد پر یہ ایک رعایت کے طور پر عشاء کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں۔
پانچویں بات: حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ عشاء کے فوراً بعد دو رکعتیں نفل ادا کرے کیونکہ اگر صبح اذان سے پہلے آنکھ کُھل گئی تو تہجد ادا کر لے ورنہ یہ دو رکعتیں کافی ہو جائیں گی۔
أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ هَذَا السَّهَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَإِنْ قَامَ مِنْ اللَّيْلِ وَإِلَّا كَانَتَا لَهُ (سنن دارمی کتاب الصلاۃ باب فی الرکعتین بعد الوتر ح ۱۵۹۴)
ذاتی بات: یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہر بندہ اپنی آسانی سے جب مرضی رات کو نفل ادا کر لے تو یہ کچھ نہ کرنے سے بہتر ہو گا۔ اسلئے جو مسلمان رات کو عشاء کی نماز کے آخر میں دو نفل ہیں وہ تہجد کی نیت سے ادا کر سکتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو سونے سے پہلے وتر اور نفل ادا کر لے یہ اُس سے بھی بہتر ہے، تیسرا وہ ہے جو رات کو سونے کے بعد کسی وقت یا آخری وقت میں نوافل ادا کرتا ہے تو یہ ان سب سے بہتر ہے۔چوتھا وہ ہے جو رات کو ڈیوٹی پر ہے، اسلئے رات کو آخری وقت میں فجر کی اذان سے پہلے اللہ کریم کی بارگاہ میں کھڑا ہو جائے تو یہ اُس کی ہر رات شب برات ہی ہو گی۔ ان شاء اللہ
تہجد کی نیت: کم سے کم دواور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت ادا کی جا سکتی ہیں۔ ان رکعتوں میں کوئی بھی سورت پڑھی جا سکتی ہے۔ ہر رکعت کی نیت اللہ اکبر کہنے سے پہلے دل میں اتنا کہنا کہ دو رکعت نفل تہجد واسطے اللہ واسطے۔ تہجد کے نفل ادا کرنے سے فرض نہیں بن جاتے جب وقت ملے، آنکھ کھلے، ادا کر لیں۔
اتحاد امت: دعا کریں کہ بریلوی اور دیوبندی عوام اپنے علماء سے پوچھے کہ ہم مسلمان اکٹھے کیوں نہیں ہو سکتے۔ اگر دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں رکاوٹ ہیں تو توبہ کر کے جیت جاتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں۔ بریلوی عوام بھی سمجھے کہ مستحب اعمال اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، میلاد، عرس، ایصال ثواب اگر کوئی اہلسنت نہیں کرے گا تو کوئی گناہ نہیں بلکہ اس کو فرض سمجھ کر کرنے والا بدعتی اور مستحب اعمال نہ کرنے والے کو وہابی یا دیوبندی کہنے والا اہلسنت نہیں ہو سکتا۔