خلافت عباسیہ
1۔ بنو امیہ 132ھ میں ختم ہوئی اور سلطنت عباسیہ یعنی حضورﷺ کے چچا کی نسل جو بنو امیہ کے خلاف کھڑی ہوئی اور آخرکار ابوالعباس السفاح نے ایرانی ابو مسلم خراسانی کی مدد سے بنو امیہ کا خاتمہ کیا اور بعد میں ابوالعباس کے بھائی ابوجعفر المنصور نے ابو مسلم کو قتل کروادیا۔
بنو امیہ کا دارالخلافہ دمشق کو فتح کرنے کے بعد لاکھوں مسلمان اموی عوام کو قتل کیا گیا اور یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ابو العباس السفاح نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سمیت تمام اموی حکمرانوں کی قبریں کھود کر بے حُرمتی کی بلکہ جلایا تک گیا۔
خلافت عباسیہ کے مندرجہ ذیل خلفاء کا نام، عرصہ ھجری اور عیسوی سال کے مطابق ہے:
1۔ ابوالعباس السفاح (132 – 136ھ)(750- 754ء)
2۔ ابو جعفر المنصور (136- 158ھ) (754- 775ء)
3۔ محمد المہدی (158- 169ھ) (775- 785ء)
4۔ موسیٰ الہادی (169ھ- 170ھ) (785- 786)
5۔ ہارون الرشید (170- 193ھ) (786- 809ء)
6۔ امین الرشید (193ھ – 198ھ) (809- 813ء)
7۔ مامون الرشید (198- 218ھ) (813 – 833ء)
8۔ المعتصم باللہ (218 – 227ھ) (833 – 842ء)
9۔ الواثق باللہ (227 – 232ھ) (842 – 847ء)
10۔ المتوکل علی اللہ (232 – 247ھ) (847 – 861ء)
11۔ المنتصر باللہ (247 – 248ھ) (861 – 862ء)
12۔ المستعین باللہ (248 – 252ھ) (862 – 866ء)
13۔ المعتز باللہ (252 – 255ھ) (866 – 869ء)
14۔ المہتدی باللہ (255 – 256ھ) (869 – 870ء)
15۔ المعتمد باللہ (256 – 279ھ) (870 – 892ء)
16۔ المعتضد باللہ (279 – 289ھ) (892 – 902ء)
17۔ المکتفی باللہ (289 – 295ھ) (902 – 908ء)
18۔ المقتدر باللہ (295 – 320ھ) (908 – 932ء)
19۔ القاہر باللہ (320 – 322ھ) (932 – 934ء)
20۔ راضی باللہ (322 – 329ھ) (934 – 940ء)
21۔ المتقی باللہ (329 – 333ھ) (940 – 944ء)
22۔ المستکفی باللہ (333 – 334ھ) (944 – 946ء)
23۔ المطیع باللہ (334 – 363ھ) (946 – 974ء)
24۔ الطائع باللہ (363 – 381ھ) (974 – 991ء)
25۔ القادر باللہ (381 – 422ھ) (991 – 1031ء)
26۔ القائم باللہ (422 – 467ھ) (1031 – 1075ء)
27۔ المقتدی بامر اللہ (467 – 487ھ) (1075 – 1094ء)
28۔ المستظہر باللہ (487 – 512ھ) (1094 – 1118ء)
29۔ المسترشد باللہ (512 – 529ھ) (1118 – 1135ء)
30۔ راشد باللہ (529 – 530ھ) (1135 – 1136ء)
31۔ المقتفی لامر اللہ (530 – 555ھ) (1136 – 1160ء)
32۔ مستنجد باللہ (555 – 566ھ) (1160 – 1170ء)
33۔ المستضی باللہ (566 – 575ھ) (1170 – 1180ء)
34۔ الناصر لدین اللہ (575 – 622ھ) (1180 – 1225ء)
35۔ الظاہر بامر اللہ (622 – 623ھ) (1225 – 1226ء)
36۔ المستنصر باللہ (623 – 640ھ) (1226 – 1242ء)
37۔ مستعصم باللہ (640 – 656ھ) (1242 – 1258ء)
تجزیاتی رپورٹ
1۔ بنو عباس نے دریائے دجلہ کے کنارے ”بغداد“ شہر کو آباد کر کے اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ بنو عباس کی حکومت حضرات ابوبکر، عمر،عثمان و علی رضی اللہ عنھم کی طرح خلافت راشدہ نہیں تھی بلکہ اموی حکومت کی طرح تھی جس میں لائق و نالائق حکمران آتے رہے۔خلافت عباسیہ صدیوں (132سے 656ھ یعنی 750 سے 1258ء) تک پھیلی خلافت ہے جسے ہلاکو خاں منگول نے بغداد اُجاڑ کر ختم کیا۔
2۔ قرآن و سنت کے مطابق فقہی علماء امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی، حنبلی اور محدثین امام بخاری و مسلم و ترمذی، ابن ماجہ، ابو داود بھی اسی دور کے ہیں۔ اہلتشیع کی کوئی حدیث یا فقہ کی کتاب اس دور میں نہیں آئی بلکہ اہلتشیع ہمیشہ سے اسلام کے خلاف رہے ہیں۔ اللہ کریم سب کو ہدایت دے کیونکہ کسی کا اپنا مذہب، فرقہ، مسلک و جماعت حق کی تلاش میں بدلنا مشکل ہے۔
3۔بنو عباس نے بنو امیہ کا نام و نشان مٹا دیا اور اُس کے بعد اموی حکومت قائم نہیں ہو سکی اور عباسیہ خلافت بھی ختم ہوئی اور خلافت عثمانیہ آئی اور اس کے بعد اب سعودی عرب ہے مگر سعودی عرب میں بادشاہت ہے وہ خلافت کے حقدار نہیں ہیں کیونکہ مسلمانوں کی داد رسی سعودی عرب نے کبھی نہیں کی۔ اللہ کریم کی ایسی ہی سنت ہے کہ دن بدلتا رہتا ہے اور سمجھداروں کو آنکھیں کھول کر تدبر و تفکر سے چلنے کا حکم ہے۔
4۔ سعودی عرب نے خلافت عثمانیہ، چار مصلوں کے خلاف ایسا پراپیگنڈہ کیا کہ تاریخ مٹا دی گئی کہ عام و خاص یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کس شاندار طریقے سے چار ائمہ کرام خانہ کعبہ میں امامت کرواتے، جمعہ کیسے ہوتا، حج کا خطبہ کون دیتا تھا۔ بس اتنا کہہ دیا کہ بدعت و شرک تھا مگر یہ نہیں بتایا کہ بدعت و شرک کیا تھا۔ اگر مصلہ ایک ہی کرنا ہے تو پاکستان کے اہلحدیث، سلفی، توحیدی، محمدی کو بھی سعودی، وہابی یا ایک نام اور ایک کام ہونا چاہئے۔
5۔ دیوبندی اور بریلوی خلافت عثمانیہ والے ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا۔ دیوبندی اور بریلوی کی چار کفریہ عبارتوں پر توبہ کے مسئلے نے عوام کو فرقہ واریت میں پھنسا رکھا ہے جس پر خارجی و رافضی سپورٹ کر کے پاکستان میں اتحاد امت ہونے نہیں دیتے حالانکہ اہلتشیع کوئی مذہب نہیں اور اگر دیوبندی وہابی علماء کے ساتھ ہیں تو دیوبندیت کی موت ہو چُکی۔