Secularism (سیکولرازم)

سیکولرازم


(1) سیکولرازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے دخلی ہے۔ کیمبرج انگلش ڈکشنری کے مطابق ”سیاسی و معاشرتی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت کا نام سیکولرزم ہے۔

(2) یہ نظریہ کہ مذہب اور مذہبی خیالات و تصورات کوارادتا دنیاوی امور سے حذف کر دیا جائے۔ امریکن ہری ٹیج ڈکشنری کے مطابق ”اجتماعی معاملات مذہب کو شامل کیے بغیر چلانے کا نام سیکولرزم ہے“۔

تحریک احیاءالعلوم (Renaissance)

چودہویں صدی عیسوی میں اٹلی سے تحریک احیاءالعلوم کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پھر یہ تحریک پورے یورپ میں پھیلتی چلی گئی۔ مذہبی طبقے نے بھی شدت سے مقابلہ کیا لیکن جدید ذہن کا اعتماد حاصل نہ کر سکنے کی بدولت جلد ہی بازی ہار گیا۔ اختیارات کی ڈور جدید طبقے کے ہاتھ میں آ گئی۔ جس نے مذہبی معاملات کو انفرادی حد تک محدود کر دیا۔ انفرادی مذہبی معاملات میں آزادی دے دی گئی لیکن ریاستی معاملات میں مذہب کے یکسر نکال باہر کیا گیا۔

سیکولر نظام کی ابتدا

سیکولر اور سیکولرازم کی اصطلاح پہلی مرتبہ 18ویں صدی کے ایک انگریز مفکر اور دانشور ’’جارج جیکب ہولی اوک‘‘ نے وضع کی۔ جیکب ہولی اوک برطانیہ کے شہر برمنگھم کے ’’میکنکس انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں پڑھاتا تھا۔ مشہور خیالی اشتراکیت پسند رابرٹ اووین کا ہم نوا ہونے کے جرم میں اسے ادارےسے نکال دیا گیا۔اس زمانے میں لندن سے روشن خیالوں کا ایک رسالہ’’ندائے عقل‘‘ شائع ہوتا تھا، جیکب ہولی اوک بھی اسی رسالے سے منسلک ہوا۔ 1841ء میں اس رسالے کے ایڈیٹر کو مسیحی اصولوں سے انحراف کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا ، تو ہولی اووک اس رسالے کا مدیر مقرر ہوا۔ ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ اسے (ہولی اوک) کو بھی منطقی دلائل پر مبنی ایک تقریر کرنے کی پاداش میں چھ ماہ قید کی سزادی گئی، قید سے رہائی کے بعد ہولی اوک ترقی پسنداور سائنسی خیالات کی ترویج کے لیے تقریریں کرتا اور رسالے لکھتا رہا۔1851ء میں اس نے لندن میں ’’سنٹرل سیکولر سوسائٹی ‘‘ کے نام سے ایک علمی وادبی انجمن قائم کی ہولی اوک کا موقف تھا :

1۔انسان کی سچی رہنما سائنس ہے۔

2۔اخلاق مذہب سے جدا ایک قدیم حقیقت ہے۔

3۔علم وادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے ۔

4۔ہر شخص کو فکر اور تقریر کی آزادی ملنی چاہیے۔

5۔ ہم سب کو دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دعویٰ: سیکولرازم یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ اس دنیاوی خوشی کے علاوہ اور کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، البتہ ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہےجہاں انسانی سوچ اور فکر آزاد ہو جس کی بناپر انسان مظاہرِ قدرت اور کائنات کی تخلیق اور یہاں موجود فطرت کے کرشمات پر غورو فکر کرکے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

پادری: قرونِ وسطیٰ میں رومن کتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے، ایک وہ پادری جو کلیساکے ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے۔ دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے کلیسا کی اصطلاح میں آخرالذکر کو سیکولرپادری کہا جاتا تھاوہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے اور وہ جائیداد بھی جسے کلیسا فروخت کر دیتا تھا۔ آج کل سیکولرازم سے مراد ریاستی سیاست یا نظم ونسق کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے‘‘۔(نویدِ فکرصفحہ69)۔

جمہوریت: جمہوریت اپنی فطرت میں ایک سیکولر نظامِ حکومت ہے اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں یورپ میں اس کے فروغ نے آگے چل کر ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کی جس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں آزمائے گئے سیاسی نظاموں میں سے جمہوریت ہی بہتریں طرزِ حکمرانی ہے۔ جس طرح سیکولرازم حریت پسندی، شخصی آزادی سوچنے سمجھنے کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح جمہوریت بحیثیت سیاسی نظام سیکولر نظریات کی بنیاد پر ریاست اور معاشرے کے قیام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بھی ایک سیکولر معاشرے، آئین اور سیاسی ثقافت لازم ہیں۔

سیکولر فکر رکھنے والی عوام کی اقسام

1۔ ہر وہ بندہ جو کسی بھی دین کا انکار تو نہیں کرتا مگر اُس کا کوئی اپنا دین نہیں ہوتا، اسلئے ہر دین والے سے دوستی رکھتا ہے مگر اُس کی اپنے مذہب کی سچائی پر کوئی تحقیق نہیں ہوتی۔

2۔ ایسے مسلمان جو نام کے مسلمان ہوں اور ان کے والدین و استاد نے ان کو مذہب کی تعلیم نہ دی ہو، اسلئے وہ جس ماحول میں جاتے ہیں وہ اُسی ماحول کو قبول کر لیتے ہیں۔

3۔ ایسے لوگ جو خود کو قوم کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں، کسی بھی حیثیت (status)کا بُت ان کے اندر پیدا ہو جاتا ہے، اپنے طور پر خود کو ٹھیک سمجھتے ہیں لیکن علم نہ ہونے کی وجہ سے دین کو ڈھانے میں مددگار ہوتے ہیں، یہ لوگ زیادہ کام خراب کرتے ہیں۔

4۔ایسے لوگ جو یہ آواز لگاتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات عصرِ حاضر میں ضروری نہیں ہیں، فرسودہ ہیں، قابلِ اعتبار نہیں ہیں، لہذا عالمی قانون کو مسلمان تسلیم کرے، اسلئے کہ معاذ اللہ وہی مسلمانوں کے لئے شریعتِ اسلامیہ کے مقابل زیادہ نفع بخش اور مفید ہے۔

5۔ وہ لوگ جو اپنی مرضی سے ہر کام کو حلال اور حرام قرار دیتے رہتے ہیں اور ان کو اپنے اس گناہ کی سنگینی کا احساس بھی نہیں ہوتاکہ کہہ کیا رہے ہیں اور کر کیا رہے ہیں۔

6۔ وہ لوگ جو دین پر عمل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دینی شعائر مثلاً داڑھی، ٹوپی، کرتہ وغیرہ کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں اور دیندار کو کم عقل تصور کرتے ہیں۔

7۔ ایسے لوگ جو کبھی کمیونزم، کبھی سوشلسٹ، کبھی لبرل، کبھی سیکولر یعنی جو سمجھ میں آئے اس پر عمل کرتے ہیں ان کے پاس دین کے دلائل کوئی نہیں ہوتے۔

8۔ ایسے لوگ جو سیکولرازم اور جمہوریت، حقوقِ انسانی، آزادی نسواں،آزادئی رائے، دین اور سیاست میں تفریق جیسے اصطلاحات (لفظوں) سے متاثر ہوتے ہیں، جن کو آجکل مغربیت زدہ مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں، اسلام کو مانتے ضرور ہیں مگر دینی علم سے دوری یا کمی کی وجہ سے ان خوشنما اصطلاحات سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

سیکولرازم کیسے عام ہو رہا ہے

1۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے عوام کا ذہن بدلنا اور جو کچھ اس میڈیا کے ذریعے دکھایا جا رہا ہے عوام اس کو اپنی زندگی میں لاگو کرے گی کیونکہ مساجد و مدارس میں وہ رنگینی نہیں ہے جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دکھا سکتی ہے۔

2۔ اسلام کوئی خونی مذہب نہیں ہے لیکن پڑھی لکھی عوام کو اسکول اور کالجز میں اسلام کے متعلق غلط پڑھایا جاتا ہے، اس لٹریچر اور سلیبس بنانے اور پڑھانے والوں کو تجاویز دیں کہ اسلام کے اصل حقائق سے مسلمانوں کو روشناس کروائیں ورنہ ہماری نسلیں وہی پڑھیں گی جو پڑھایا جائے گا۔

3۔ قرآن و احادیث کے بارے میں پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے، اسلئے مُنکر احادیث بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ اتنے سال بعد احادیث وجود میں آئیں، اسلئے ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اہلحدیث حضرات بھی موجود ہیں جو صحیح احادیث پر عمل کرنے کا نعرہ لگاتے ہیں اور یہ نہیں بتاتے کہ اُس کے علاوہ جو احادیث کی کُتب ہیں کیا اُس پر عمل ناجائز ہے؟ اسلئے اگر وہ انکار کرتے ہیں تو وہ بھی مُنکر احادیث ہیں۔ کیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ صحیح احادیث ہیں اور باقی احادیث کی کتابوں پر عمل نہ کرنا۔

4۔ ہمارا عقیدہ غیب کی باتوں پر ایمان لانا بھی ہے جیسے جنت، دوزخ، فرشتے، ارواح، نیکی، ثواب، برکت، رحمت وغیرہ۔ اسلئے یہ باتیں مشاہدے میں نہیں آ سکتیں لیکن اس کااثر اسطرح محسوس کریں کہ دُنیا کے198ممالک ہیں تو 42 بڑے ممالک معاشی نظام میں عُمرکا قانون (Umer Law) کی شقوں پر عمل کرتے ہیں، یہ اسلام کی بہت بڑ ی کامیابی ہے۔

5۔ ہمارے ہاں جنسیت، مادیت، فیشن پرستی، عشق بازی، حیا سوزی کے واقعات پر مبنی ڈرامے اور فلمیں دکھائے جاتے ہیں، اس طرح ہمارے بچوں کی غلط ذہنی پرورش ہو رہی ہے۔ عوام یہ سب کچھ دیکھنا چاہتی ہے اسلئے میڈیا بھی یہ دکھا کر پیسہ کماتا ہے اور دین اسلام کے احکام کو سمجھانے پر عوام پیسہ لگانا نہیں چاہتی۔

6۔ اسلام کی اپنی ثقافت کوئی نہیں ہے اسلئے ہر کوئی اپنی ثقافتی رنگ میں اس کو رنگ سکتا ہے ۔ توحید کے مقابلے میں روشن خیالی، جدید اسلام، لبرل ، انسانیت جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو کہ سراسر اسلام کے مخالف ہیں۔

7۔ مسلمان کو دہشت گرد ثابت کیا جاتا ہے حالانکہ مسلمانوں کے بچے لے کر دہشت گرد تیار کرنا آسان ہے کیونکہ پیسہ ہماری ضرورت ہے اسلئے ہم بک جاتے ہیں ورنہ اسلام میں لڑائی ہمیشہ اصولوں پرہوتی ہے۔

8۔ شراب، جوا، سود، لاٹری، بولی والی کمیٹی، انعام والی کمیٹی، فکسڈ ڈیپازٹ وغیرہ ہمارے معاشرے میں اسلئے زیادہ ہو گئے ہیں کہ عوام کسی کو بھی پیسہ دے تو وہ لے کر بھاگ جاتا ہے کیونکہ قانون و انصاف نہیں ہے، اسلئے اپنا پیسہ واپس لینے کے لئے پھر بدمعاش پیسے دے کر ہائر کئے جاتے ہیں۔ اسلامی سزائیں دینے کی اجازت نہیں ہے اسلئے بُرائی بڑھے گی اور اس کا تدارک کرنا مُشکل ہے۔

9۔ اسلام اور مسلمانوں نے دین پر کیا احسان کیا اب عوام وہ نہیں پڑھتی بلکہ یہ پڑھتی ہے کہ جدید استعمال کی چیزیں ہمیں کون دے رہا ہے مگر یہ بھی تحقیق نہیں کرتی کہ جدید استعمال کی چیزیں بنانے پر کیا اسلامی مُلکوں پر پابندی تو نہیں۔اگر غور کریں تو مسئلہ سمجھ میں آ جائے گا۔

فتوی: علمائے اسلام اور فقہائے عظام نے سیکولر ازم کو ایک مستقل مذہب قرار دیا ہے، جس کو ’’دہریت‘‘ کہا جا سکتا ہے، لہذا وہ کُفر صریح ہے اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے حالانکہ ایک بے نمازی کو بھی سزا ملنی چاہئے لیکن یہاں نہیں دی جاسکتی اسلئے ہر کوئی بے نمازی، شرابی، چور، سود خور، زانی دھڑلے سے ہنس کر کہتا ہے کہ گناہ ہو گیا ہے تو کوئی بات نہیں کیونکہ مجھے اللہ کریم کی بندگی اور نبی کریم کے امتی ہونے سے تو نہیں نکال سکتے۔ اگر اس کو سزا نہیں تو پھر کسی کو بھی فتوی دیتے جائیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اسلئے جب تک ہم اپنی مساجد، مدارس، خانقاہیں، پیر، مزار وغیرہ ٹھیک نہیں کر لیتے تو کوئی امید نہ رکھیں کہ دینِ اسلام مضبوط ہو جائے گا۔

مسلمان اورمفاد

مسلمان کا مذہب اگر اسلام ہے تو اُس کو ہر حال میں صابر و شاکر رہنا پڑے گا اور اپنی ساری توانائیاں دین کو پھیلانے میں لگانی ہوں گی۔ اگر اُس کا ’’مفاد‘‘ دین کی بجائے کسی اور کام میں ہو گاتو وہ مذہب کو اپنے ’’مفاد‘‘ کے لئے قربان کر دے گا۔اسلئے اپنا ایمان بچانے کیلئے ہر مسلمان نے اپنی ذات و جماعت کے ساتھ حکمت و دانائی کے ساتھ جنگ کرنی ہے تاکہ اسلام کو فائدہ ہو۔

اس دور میں کوئی علمی دلائل سے کافر نہیں ہو رہا بلکہ عیسائی عورتیں ہمارے غریب طبقے میں آٹا ، دال، چاول، گھی، تیل فراہم کر کے اُن کو عیسائی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، غریبوں کو صرف روٹی چاہئے اسلئے وہ اُن کے دین کو پسند کرنے لگتے ہیں یا اُس میں داخل ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح بہت سے لوگ بیرون مُلک جانے کے لئے قادیانی جماعت کا رُخ کر لیتے ہیں اور اُن کے عقائد پر آ جاتے ہیں ۔ اسی طرح بہت سے لوگ بیرون مُلک عورتوں سے نکاح کرتے ہیں تاکہ پاسپورٹ مل سکے اور باہر کے مُلک کی شہریت حاصل کر سکیں۔

اسکول و کالج کی پڑھائی میں بھی یہ مفاد ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ نوکری بھی اس علم کے ساتھ ملتی ہے ورنہ نہیں ملے گی ، اسلئے عوام اسکول و کالج کی پڑھائی پڑھے گی اور ویسی ہی ہو جائے گی جیسے پڑھانے والے نے پڑھا دیا ورنہ پیسہ کمانے کے لئے علم ضرور حاصل کریں مگر دین کوسمجھنے کیلئے تحقیق بھی کریں۔

اسی طرح عامل ٹائپ لوگ ہمارے دلوں میں خواہش کو پورا کرنے کی ہوس پیدا کرتے ہیں کہ محبوب آپ کے قدموں میں ہو گا، نوکری مل جائے گی، گھر کے مسائل حل ہو جائیں گے تو عام عوام اُسی چکر میں اپنا ایمان تک بیچ دیتا ہے، اسلئے کئی مسلمان عیسائی حضرات کے ‘‘چرچ‘‘ میں جا کر دعائیہ شفائیہ عبادت میں شامل ہوئے، اُن کی بیماری دور ہو گئی یا مسئلہ حل ہو گیا تو عیسائیت قبول کرلی۔

کوئی بھی نیک کام کیا جائے تو سارے ساتھ دینے کی بجائے یہ پوچھیں گے کہ آپ کا یہ کام کرنے میں مفاد کیا ہے، اگر مفاد بتا بھی دیا جائے تو ساتھ اسلئے نہیں دیں گے کہ اُن کی اپنی ذات و جماعت کی شناخت ختم ہو جائے گی، اسلئے بریلوی ، دیوبندی اور اہلحدیث حضرات سے عرض ہے کہ اپنا اپنا اختلاف بتا دیں تاکہ وہ دور کر دیا جائے تو مسلمان ایک ہو جائیں، اس پیج پر مسلمان بنانے کا ’’مفاد‘‘ ہے تاکہ اللہ کریم کے حضور کامیاب ہو سکیں۔

اتحاد امت: اس پیج پر اتحاد امت کے لئے ایک فارمولہ سمجھنے میں ہر مسلمان کی مدد چاہئے تاکہ ادھر ادھر کی بحث میں وقت ضائع نہ ہو کیونکہ قرآن و احادیث تبدیل نہین ہو سکتا اسلئے دیوبندی علماءیہ بتائیں کہ اگر بریلوی عوام کو دیوبندی بنانا ہے تو بریلوی کن کن غیر شرعی اعمال یا کُفریہ عقائد سے توبہ کرے اور وہ عقائد ان کی کس عالم کی کتابوں میں لکھے ہیں، کسی بھی مزار یا میلاد کرنے والی عوام کا حوالہ نہیں دینا۔ اگر دیوبندی کو بنانا ہے تو بریلوی علماءیہ بتائیں کہ دیوبندی کن کن غیر شرعی اعمال یا کُفریہ عقائد سے توبہ کرے اور وہ عقائد ان کی کس عالم کی کتابوں میں لکھے ہیں۔اہلحدیث جماعت بھی یہ بتائےکہ بریلوی اور دیوبندی خود بخود قرآن و احادیث پڑھ کر اہلحدیث بنے جائیں گے یا کسی امام کی پیروی کریں کرنا لازمی ہے۔ اگر کسی کی پیروی کی ضرورت نہیں تو سارے لبرل (liberal) عوام اپنے مطلب کی احادیث پڑھ رہی ہے تو کیا وہ بھی اہلحدیث ہے؟

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general