بیت المقدس
1۔ انسان اس دُنیا میں وجود رکھتے ہیں جس کو اللہ کریم نے بنایا ہے۔ دُنیا کا نقشہ بدلتا رہتا ہے جیسے پاکستان مُلک کا نام دُنیا کے نقشے پر نہیں تھا مگر اب ہے۔ اسلئے یہ نقشے مٹتے اور بنتے رہیں گے مگر اصل کام اللہ کریم کی بندگی کرنا ہے اور اسلئے اللہ کریم نے عوام کو سمجھانے کے لئے انبیاء کرام بھیجے اورزیادہ تر انبیاء کرام موجودہ یروشلم (القدس) میں آئے۔
2۔ یروشلم یا القدس مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں یعنی تینوں کے نزدیک مقدس ہے کیونکہ ایک ہی جگہ پر یہودیوں کا کنیسہ (عبادت گاہ)، عیسائیوں کا گرجا گھر اور مسلمانوں کی مسجد اقصی (قبلہ اول) موجود ہے۔ حرم کے صحن میں تاریخی چٹان پر سنہری گنبد والی ہشت پہلو عمارت کو اموی خلفاء نے تعمیر کروایا جسے قبتہ الصخرہ (قبہ کا معنی گنبد اور صخرہ چٹان یعنی چٹان کے اوپر گنبد) کہتے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں حضورﷺ معراج کی رات براق پر گئے اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔
3۔ یہودی حضرات کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد نہیں بلکہ ہیکل سلیمانی بنائی تھی، اسلئے مسجد اقصی کو اپنے مذہبی رنگ کے مطابق ہیکل سلیمانی بنانا چاہتے ہیں۔ حرم کی ایک دیوار کو دیوار گریہ کہتے ہیں جہاں آ کر یہودی روتے ہیں اور گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔اسلام سے پہلے زیادہ تر مذہبی لڑائیاں عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان لڑی گئی ہیں اور اسی دوران حضور محمد ﷺ نبی کریم بن کر مبعوث ہوئے۔
4۔ حضورﷺ نے اسی قبلہ (direction) کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کی، بیت المقدس سے معراج کے لئے تشریف لے گئے اور تین مساجد مسجد حرم، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کی طرف سفر کرنا فضیلت قرار پایا، اسلئے مسلمانوں کے لئے یہ مقام مقدس ہے۔
5۔ 17ھ میں مسلمانوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوتا ہے، اُس کے 475سال بعد492ھ (1099ء) کو عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد 583ھ (1187ء)کو صلاح الدین ایوبی نے 88 سال بعد بیت المقدس دوبارہ فتح کر لیا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد 1917ء میں انگریزوں نے یہودیوں کو بیت المقدس میں آباد ہونے کا اعلان کیا اور 1948میں یہودیوں نے اپنے ملک کا اعلان کیا مگر 2020 میں بھی ابھی تک ساری دنیا سے اپنے ملک کو تسلیم نہیں کروا سکا بلکہ کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان وجہ تنازع ہے۔
6۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمان اتنے پریشان نہ ہوں کیونکہ قومیں اتنی جلدی تباہ نہیں ہوتیں بلکہ صدیوں کے بعد تباہ ہوتی ہیں، اچھے حکمرانوں کا نام رہ جاتا ہے، عوام تو ہر تحریک میں ایندھن کا کام کرتی ہے جس نے جلنا، کُڑھنا اور مرناہے مگر قرآن و سنت کے مطابق عمل کر کے دکھانا پھر بھی ہر ایک مسلمان کی انفرادی جدو جہد ہے۔ ابھی ہر جینے والے نے بہت کچھ دیکھنا ہے اور کچھ جینوں والوں نے اپنی زندگی میں کچھ کر جانے کا عزم کر کے اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہے۔
7۔ ہر مسلمان قرآن و سنت کے خلافت نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مشرک ہے تو مسلمان نہیں اور اگر بدعتی ہے تو گمراہ ہے۔ کسی بھی دور میں کسی بھی اہلسنت علماء کرام نے بدعت و شرک نہیں سکھایا۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں ساری دنیا ایک اہلسنت تھی اورچار ائمہ کرام کے ماننے والے حرمین شریفین میں فتاوی دیتے تھے۔ سعودی عرب کے وہابی علماء آل سعود کے ساتھ آئے جنہوں نے 625سالہ سلطنت عثمانیہ کے علماء کرام کو بغیر علمی مذاکرات کے بدعتی و مشرک کہہ کر حرمین شریفین پر قابض ہو گئے۔
8۔پاکستان میں مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم روکنے کے لئے اور ایک اہلسنت بنانے کے لئے مذہبی جماعتوں سے ایک ایک سوال ہے:
سوال: دیوبندی اور بریلوی علماء بتا دیں کہ کیا دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، والی نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا اور کیا دیوبندی اور بریلوی دونوں کا اصولی اختلاف چار کفریہ عبارتیں نہیں ہیں؟
سوال: اہلحدیث حضرات بالکل صحیح احادیث کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں، البتہ اُن سے صرف ایک سوال کا جواب درکار ہے کہ ”صحیح احادیث“ کے مطابق کس دور میں کس ”ایک“ نے اہلحدیث جماعتوں کو صحیح احادیث کی کتابوں سے ”صحیح احادیث“ سے نماز سکھائی اور وہ صحیح احادیث کا علم حضورﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجماعین کے بعد تابعین کے دور میں چار ائمہ کرام کو بھی نہ ہو سکا؟