Ghusal Ya Nahana (غسل یا نہانا)

غسل یا نہانا

سورہ المائدہ آیت 6 "اگر تم جنبی ہو تو غسل کرو”۔ نہانا تو جسم کی بدبُو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے مگر جب عورت اور مرد جنبی ہو جائیں یعنی منی (گاڑھا پانی جس کے دھبے یا نشان کپڑوں پر لگ جاتے ہیں) اُچھل کر نکل آئے اور انسان کی خواہش نفسانی دم توڑ جائے تو اُس پر غسل لازم ہے۔ اگرمرد کو جریان یا عورت کو لیکوریا کی بیماری ہو تو اُس پر غسل نہیں بلکہ وضو ہے۔ اسلئے غسل کی صورتیں یہ ہیں:

۱) رات کو نیند کی حالت میں پیشاب والے سوراخ سے گاڑھاپانی (منی) نکل آئے اور کپڑوں پر نجاست (منی) کے دھبے یا نشان نظر آئیں جسے ”احتلام“ کہتے ہیں، اگر نشان نہیں ہیں تو غسل نہیں۔
۲) اپنے ہاتھ(مشت زنی، ہتھ رسی، ایک ہاتھ سے نکاح، کھلونا) یا اس طرح کے کسی بھی انداز سے جب اپنی ”شرم گاہ“ سے کھیلنے پر گاڑھا پانی لذت کے ساتھ کود کر (منی) نکل آئے تو غسل کریں۔
۳) لڑکا لڑکے کے ساتھ یا لڑکی لڑکی کے ساتھ، مرد عورت کے پچھلے سوراخ کو استعمال کرے جو کہ گناہ و حرام کام ہے مگر اُس سے طلاق نہیں ہوتی مگر غسل کرے۔
۴)میاں بیوی اپنی جسمانی و نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے صحبت کریں تو ایک دوسرے میں گُم (joint) ہوتے ہی غسل کرنا پڑے گا چاہے ابھی انزال یا اختتام کو نہ پہنچے ہوں اور یہ عمل غیر شادی شدہ بھی کریں گے توان کے لئے یہ عمل حرام(زنا) ہے لیکن ”غسل“ان کو بھی کرنا پڑے گا۔

فارمولہ: منی اور مذی میں فرق یہ ہے کہ جب پانی(منی) اُچھل کر جھٹکے سے نکل کر نفسانی شوق کو پورا کردے تو اس پر”غسل“کرنا پڑتا ہے اوراگر گندہ خیال آنے پر شہوت بڑھ جائے اور لیسدار پانی (مذی) شرم گاہ سے نکلے تونماز کے لئے ”وضو“ کرنا پڑتا ہے، البتہ منی اور مذی کا کپڑا بھی دھونا ہو گا۔

۵) عورت کے لئے غسل کی دوصورتیں یہ ہیں کہ (1) خون حیض، ماہواری (Menses) اور (2) بچہ پیدا ہونے کے بعد خون رُکنے پر بھی غسل کرنا ہوتا ہے:

(1) عورت کو جب ماہواری آتی ہے تو عورت بالغ ہو جاتی ہے، اگر خدانخواستہ نہ بھی آئے تو 13سال کی عمر تک لڑکی بالغ ہو جاتی ہے جس پر نماز روزہ فرض ہو جاتا ہے۔ بعض عورتوں کو ایک ماہ میں دو دفعہ بھی ماہواری ہوتی ہے، البتہ حیض تین دن رات سے کم اور دس رات دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس مدت سے کم یا زیادہ ہو تو اس بیماری کو ”استحاضہ“ کہیں گے۔ استحاضہ میں عورت کی شرم گاہ کے اندر کی کوئی رگ زخمی ہو جاتی ہے جس سے خون آتا ہے۔استحاضہ کے خون میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض کے خون میں بدبو ہوتی ہے۔استحاضہ والی عورت سے مردصحبت بھی کر سکتا ہے اورعورت نماز روزہ کرے گی مگر ہر نماز کے لئے ”وضو“ نیا کرے گی۔
اسلئے عورت کو نماز روزہ کرنے کے لئے دھیان رکھنا ہو گا کہ دو دن خون آیا پھر بند ہو گیا، پھر چھٹے دن خون آیا اور بیچ کے تین دن پاک رہی لیکن نمازیں ادا کرتی رہی تو ایسی عورت کا یہ عرصہ حیض کا تھا البتہ نمازیں پڑھنے پر گناہ گار نہیں ہو گی۔ اسی طرح حیض نہیں تھالیکن دو دن خون آنے سے نمازیں نہیں پڑھیں تو ان نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی کیونکہ کچھ عورتوں کے مخصوص دن بدل بھی جاتے ہیں اور ان کو اپنے مزاج اور عادت کے مطابق ”حیض“اور ”استحاضہ“ میں فرق کرنا ہو گا۔

اسلئے عورت کو نماز روزہ کرنے کے لئے دھیان رکھنا ہو گا کہ دو دن خون آیا پھر بند ہو گیا، پھر چھٹے دن خون آیا اور بیچ کے تین دن پاک رہی لیکن نمازیں ادا کرتی رہی تو ایسی عورت کا یہ عرصہ حیض کا تھا البتہ نمازیں پڑھنے پر گناہ گار نہیں ہو گی۔

اسی طرح حیض نہیں تھا لیکن دو دن خون آنے سے نمازیں نہیں پڑھیں تو ان نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی کیونکہ کچھ عورتوں کے مخصوص دن بدل بھی جاتے ہیں اور ان کو اپنے مزاج اور عادت کے مطابق ”حیض“اور ”استحاضہ“ میں فرق کرنا ہو گا۔

(2) عورت کو بچہ پیدا ہونے پر جو خون آتا ہے اس کو نفاس کا خون کہتے ہیں، یہ خون پانچ منٹ میں بھی بند ہو سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت40دن تک ہوتی ہے، 40دن کے بعد اس خون کونفاس کا نہیں

بلکہ”استحاضہ“ کہتے ہیں۔خون پانچ منٹ، چار دن، دس دن یا 40دن کے بعد یا جس وقت بند ہو جائے، اسی وقت سے عورت غسل کر کے نماز، روزہ کرے اور مرد سے صحبت ”جائز“ ہے۔ حیض یا نفاس کے عالم میں عورت شادی بیاہ پر جا سکتی ہے، اگر کمزوری محسوس نہیں کرتی۔

حل: جس مرد یا عورت کا مسلسل خون (بواسیر، نکسیر، استحاضہ)، مسلسل پھنسی پھوڑے سے پیپ، مسلسل پیشاب، مسلسل ہوا گیس وغیرہ، 2رکعت یا 4رکعت”نماز“پڑھتے وقت بھی نہ رُکے تواس کو ”معذور“کہتے ہیں اور جب تک یہ”معذوری“ہے اگر ظہر کے وقت وضو کیاتو عصر تک وضو رہے گا اور عصر کا وضو کیا تو مغرب تک رہے گا۔ اسی ایک وضو سے فرض نماز، قضا نماز، نفل، قرآن کی تلاوت، سجدہ تلاوت کرتا رہے البتہ ”معذوری“ کی وجہ سے نہیں بلکہ وضو توڑنے والی کوئی اور صورت (پیشاب، پاخانہ،قے، اُلٹی،مذی، نماز میں ہنسنا،خون کا نکل آنا، ہوا کا نکل جانا وغیرہ)ہو تو دوبارہ وضو کریں۔یہ بھی یاد رہے کہ معذور مسلمان کو امام نہیں بنانا چاہئے اور امام کو اس طرح کی بیماری میں امام بننا نہیں چاہئے کیونکہ بیماری کا علم امام کو ہو گا عوام کو نہیں۔

آسانی: اسی معذوری میں نماز کے لئے ”پاک“ کپڑا پہنا لیکن نماز سے فارغ ہونے سے پہلے وہ کپڑا بھی ”ناپاک“ ہوگیا تو اس کو بغیر دھوئے نماز پڑھ سکتے ہیں۔

ممانعت: جس پر غسل ضروری ہو، اس کیلئے قرآن پاک کو پکڑنا، پڑھنا اور چھونا منع ہے۔ اگر قرآن پاک پکڑنا پڑے تو پاک کپڑے سے پکڑ کر ادھر ادھر رکھ سکتے ہیں۔ مسجد میں جانا منع ہے لیکن کسی مدرسے یا مرکز میں جا سکتے ہیں۔حائضہ اور نفاس والی عورت اگر ٹیچر بھی ہو توکسی کو قرآن پاک نہ پڑھائے، البتہ کلمہ طیبہ، درود پاک وغیرہ پانچ وقت مصلے پر بیٹھ کر کر سکتی ہے کوئی گناہ نہیں۔

وقت: بہتر یہی ہے کہ جنابت کاغسل جلد کر لیا جائے لیکن اگرعشاء کے بعد غسل کی حاجت ہوئی تو نماز فجر سے پہلے تک ناپاک رہے تو کوئی گناہ نہیں لیکن اگرنماز فجر قضا ہوگئی تو سخت گناہ گار ہیں۔

اجازت: حیض اور نفاس والی عورت کھانا پکا سکتی ہے، بچے کو دودھ پلا سکتی ہے، صاف ستھرا رہنے کے لئے نہا بھی سکتی ہے، میاں بیوی آپس میں دل لگی کر سکتے ہیں لیکن صحبت نہیں کر سکتے اور اگرکوئی اپنی بیوی سے حیض میں صحبت کر لے تو غریب آدمی”توبہ“ کرے اور امیر آدمی کچھ ”صدقہ“ بھی کرے۔

غسل سنت: ہر فضیلت والے دن اور رات میں غسل کرنا بہترہے اورنبی اکرمﷺ نے جمعہ یاعیدین کی نماز کیلئے غسل کرنے کا فرمایا ہے۔ غسل کرنے کے بعد نبی کریمﷺ وضو نہیں کرتے تھے۔

آسان طریقہ: جب بھی نہائیں یہ 3فرض پورے کر لیں غسل ہو جائے گا(1) منہ بھر کرکلی (غرغرہ کرنا) (2) ناک کی ہڈی تک پانی ڈال کرجمی ہوئی مٹی صاف کرنا (3) سارے بدن کو مَل مَل کر ایسے دھونا کہ کوئی بال بھی خشک نہ رہے۔ روزے کی حالت میں صرف تیسرا(3) فرض ادا کرنا ہے لیکن غرغرہ اور ناک میں اندر تک پانی نہیں ڈالنا۔

سُنت طریقہ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد مکمل وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے، پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور پھر پاؤں دھو لیتے۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الحيض، باب صفة غسل الجنابة، 1 : 253، رقم : 316)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے : نیت کرے۔ بسم اللہ سے ابتداء کرے۔ دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے۔ استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔ پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اگر ایسی جگہ کھڑا ہے۔ جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں کو آخر میں غسل کے بعد دھوئے۔ تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔ پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے۔ اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔ پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔ وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے۔

مسئلہ: غسل کرنے سے پہلے دونوں ہاتھ دھو کر جسم پر لگی”گندگی“صاف کر کے فرش پر پانی بہا دیں، اس کے بعد اگر جسم اور فرش پرسے چھینٹے اُڑ کر بالٹی میں بھی پڑ جائیں تو پانی ناپاک نہیں ہو گا۔

اہم: سارے جسم کو دھونا ضروری ہے، اس لئے ناک میں جمی مٹی اور ہاتھوں میں لگا ہوا آٹا، ناک کان کی بالیاں اور نیل پالش وغیرہ اتار کر ”غسل“ کریں البتہ جو رنگ یاقلعی کا کام کرتا ہے اور رنگ ہاتھوں وغیرہ پر اسطرح جَم گیا ہو کہ اتارنے پر زخم بن جائے گاتو معافی ہے۔ایسی اشیاء جیسے مہندی یا تیل بالوں اور جسم پرلگا ہولیکن پانی اس کے باوجود جسم اور بالوں کی جڑوں تک پہنچ جاتاہے،اس سے غسل ہو جاتا ہے۔ عورتوں کی چوٹی گُندھی ہوئی ہو تو کھولنے کی ضرورت نہیں بلکہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچائے، اگر بال کُھلے ہوئے ہوں یا گُیسو چوٹی سے علیحدہ گُندھے ہوئے ہوں تو ان کو کھول کر غسل کرے۔

پاک: اسکو پاکی کہتے ہیں، اسی طرح مسلمان ایک دوسرے کو کافر، بدعتی و مُشرک کہنے سے پاک ہو سکتے ہیں جب میلاد، عرس، ایصالِ ثواب، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام پر بحث چھوڑ کو اپنی پہچان کروائیں کہ قرآن و سنت پر چلنے والے اہلسنت کون تھے اور کس شیطان نے مسلمانوں کو آپس میں کافر، بدعتی و مشرک کہلوا کر ناپاک کیا ہے۔ اسلئے ان سوالوں کا جاننا لازمی ہے:

سوال: دیوبندی اور بریلوی جماعتوں کو یہ بتانا ہو گا کہ دیوبندی یا بریلوی بننا لازم نہیں ہے بلکہ کیا دیوبندی اور بریلوی دونوں جماعتیں خلافت عثمانیہ، چار مصلے، اہلسنت علماء کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) کے متفقہ عقائد پر میلاد و عرس منانے والے اہلسنت نہیں ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مشرک کہا اور جن کا آپس میں اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتیں ہیں۔

سوال: اہلحدیث حضرات تقلید کو بدعت و شرک کہتے ہیں اور خود بھی مقلد ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہلحدیث جماعت نماز روزے کے سب مسائل ”صحیح احادیث“ کے مطابق کرتے ہیں مگر اس ساری جماعت کو کس ایک نے کس دور میں صحیح احادیث کے مطابق دین سکھایا حالانکہ صحابہ کرام کے دور کے بعد تابعین و تبع تابعین سمیت چار ائمہ کرام کو صحیح احادیث کا علم نہیں تھا تو سکھانے والے کا نام بتا دیں۔

سوال: اہلتشیع حضرات اہلبیت کا نام لے کر صحابہ کرام کو برا بھلا نہ کہیں بلکہ ثابت کریں کہ اُن کا قرآن و سنت سے کیا تعلق ہے کیونکہ قرآن و سنت کو اکٹھا کرنے والے صحابہ کرام ہی تھے، یہ گھر والے اور در والے کی تفریق پیدا کرنے والے مُجرم ہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general