Mehfil e Sama ki Haqiqat

  محفلِ سماع کی حقیقت

 

کانوں سے سُننے کی طاقت کو ”قوت سماعت“ کہتے ہیں اورغور سے آواز سُننے والے کو سامع کہتے ہیں جیسے نمازِتراویح میں حافظِ قرآن کی قرآت کو”سامع“ غور سے سُنتا ہے تاکہ  غلطی پکڑ سکے۔ حضور ﷺ کی حدیث کو سُن (سماع) کر بیان کرنے والا، اُس حدیث کا راوی ہوتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ اسلام کی آواز پر پرندوں کو وجد ہو جاتا، اسلئے سماع سے مراد وہ وجد، حال، جذبہ اور کیفیت ہے جو”سامع“ بناوٹ اور ریاکاری سے نہیں کرتا بلکہ اُس کے بس میں نہیں ہوتی۔

۔ 2قرآن کی تلاوت کرنے والے اور سُننے والوں پروجد کا طاری ہونا، حضورﷺ کی حدیث سُننے اور سُنانے والے پر جو کیفیت پیدا ہو اور اسی طرح حضورﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور اولیاء کرام کے سچے واقعات سُن کر جو حال، وجد اور کیفیت محسوس ہو ان سب کو”سماع“ کہا جائے گا۔

۔ 3سچا شعریا کسی بھی قول کو باربار دہرانے کو قوالی کہتے ہیں اوراس پر جو جذبہ یا حال حاضرین پر پیدا ہو اسکو محفل سماع کہتے ہیں۔ صوفی یا پیر حضرات جو شریعت کے مطابق طریقت میں دلچسپی رکھتے ہیں، اُن میں چشتیہ سلسلہ محفلِ سماع کا قائل ہے، البتہ نقشبندیہ سلسلے والے کہتے ہیں کہ ہم پر وجد و حال قرآن اور سُنت سُن کر آتا ہے، اسلئے ہمیں محفلِ سماع کی ضرورت نہیں ہے۔

۔ 4محفلِ سماع تب جائز ہے جب سننانے والا”قوال“ مرداور سُننے والے بھی اللہ کریم کی یاد میں بیٹھے ہوں، اُس محفل میں کوئی لڑکا (جس کی داڑھی نہیں آئی) یا عورت نہ ہو، بے ہودہ اورکسی کا مذاق اُڑانے والا کلام نہ ہو، مزامیر جیسے سارنگی طبلہ وغیرہ نہ ہو۔ (سیر الاولیاء)

۔ 5ایک آدمی نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کہ آپ کے آستانے کے کچھ درویشوں نے مجمع میں چنگ و رباب اور دیگر مزامیر کے ساتھ رقص (دھمال) کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ ایسے درویشوں نے شریعت کے خلاف عمل کرکے گناہ کمایا ہے۔درویشوں نے آ کر کہا جناب ہم اسطرح محفل سماع میں گُم ہو گئے کہ معلوم ہی نہیں ہوا کہ کیا کیا کر دیا۔ آپ نے جواب دیا اس طرح تو ہر کوئی اپنے گناہ کی یہی دلیل دے گا۔(سیرالاولیاء)

۔6 کچھ لوگ امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ساز ایجاد کئے حالانکہ حضرت مولانا فخر الدین زراوی خلیفۂ محبوب الہی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے میں رسالہ کشف القناع عن اصول السماع لکھا تھاجس میں لکھتے ہیں کہ ہمارے مشائخ اس تہمت مزامیر سے مبرا ہیں وہ تو صرف قوال کی آواز ہے، ان اشعار کے ساتھ کے کمال صنع خداوندی جل و علا، باقی وارثان انبیاء و مرسلین علیہ الصلوۃ والسلام اجمعین ضرور ان بہتانوں سے منزہ ہیں۔ (فتاوی رضویہ جلد 24)

اصطلاحات: تصوف کی اصطلاحات کا جس کو علم نہیں وہ صوفی نہیں یعنی وجد، حال، قال، قبض، بیسط، زلف، یار، رخسار وغیرہ کے تصوف میں کیا معنی ہیں جس کو ان کا علم نہیں اس کو قوالی سننا جائز نہیں۔

جائز: کچھ علماء ملی نغمے، ساز پر چلنے والی نعتوں، کلچرل موسیقی، فوجی ترانوں کو جائز قرار دیں گے حالانکہ بخاری 5590: میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زناکاری، ریشم کا کپڑا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال سمجھیں گے۔۔۔

محفلِ گناہ: محفلِ سماع کی شرائط کے مفقود ہونے کی وجہ سے موجودہ دور کی محفل ”محفلِ سماع“ نہیں بلکہ محفلِ گناہ ہے۔ ان محافل میں کوئی عارف باللہ نہیں ہوتا کہ عارفانہ کلام سمجھ سکے، کئی جگہوں پر جیسے ہی میوزک بند ہوا، سب کاجعلی رقص ختم، جام کی بوتلیں کُھل گئیں یا کھانا کھانے کو مل گیا تو یہی ان کا سماع یعنی گناہ ہے۔

اسلئے قوالی، وجد، رقص، طبلہ، سارنگی وغیرہ پر بحث سے پہلے ثابت کریں کہ راحت فتح علیخاں صاحب، عابدہ پروین صاحبہ، نصرت فتح علیخاں اور زیادہ تر رافضی مرد و عورت قوالی کو جدید میوزک سے پیش کر رہے ہوں ان کا سُننا عام و خاص کے لئے کب جائز ہے اور کیا اب یہ گانے کی قسمیں نہیں ہیں؟

سوال: ایک اللہ والے سے کسی نے پوچھا کہ موجودہ دور کی قوالی جائز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ مسجد میں قوالی ہو سکتی ہے، کہنے لگا نہیں تو فرمانے لگے جو عمل مسجد میں نہیں ہو سکتا وہ جائز کیسے ہو سکتا ہے؟ اسلئے اگر کوئی کہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے تو بے شک بد روح کی غذا ہے اور پاک روح کی غذا قرآن و سنت ہے۔ چند مثالیں غور سے پڑھیں:

۱۔ ہم جتنا مرضی عوام کو عذاب کی بات سُنا لیں لیکن جنہوں نے موسیقی سُننی ہے انہوں نے کب منع ہونا ہے، البتہ یہ دیکھا گیا ہے کہ مرگ کے وقت سب کلمہ پڑھتے ہیں مگر کوئی نہیں کہتا مجھے گانا سُناؤ میں رب سے ملنے جا رہا ہوں میری روح کی غذا گانا ہے۔

۲۔ کوئی بہت ہی سخت قسم کا یا بدبخت قسم کامسلمان ہو گا جو بیماری میں بھی اللہ توبہ نہ کرے بلکہ کہے گانے ہی سُناؤ، شراب ہی پلاؤ، جاؤ ہسپتال میں مُجرا ہی کراؤ۔ زیادہ تر آنکھوں سے آنسو بہاتے یہی کہیں گے مرنے لگا ہوں کوئی صدقہ خیرات کرو، کوئی میری موت میں آسانی اور بخشش کی دعا ہی کرو۔

۳۔ ایک کہنے لگا مولوی صاحب ساری دُنیا گانے سُنتی ہے، مولوی صاحب کہنے لگے اے میرے بھائی، اگر تم مجھے بھی گانا اور فلمیں دیکھتے ہوئے دیکھ لو تو سمجھ لینا کہ میں غلط ہوں لیکن قرآن و احادیث میں گانے سُننے کا کوئی حُکم نہیں ہے۔

۴۔ ایک کہنے لگا مولوی صاحب قیامت کی نشانیاں ہیں کہ زنا، سود، شراب، چوری، گانے بجانے زیادہ ہو جائیں گے تو مولوی صاحب نے بڑا شاندار جواب دیا کہ تم قیامت کی نشانی بننا چاہتے ہو تو بن جاؤ، مجھے اُن لوگوں میں شمار کرو جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ جب تک ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا اس دُنیا میں ہے قیامت نہیں آئے گی۔

اہلسنت : دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔

البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟

تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہوا ہے۔

موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)

اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general