Nazar Ka Lagna( Bad Nazar Ka Asar)

بد نظرکا اثر، مجھ پر، ہر گز نہیں کیونکہ
.مجھ پر، نبی کی نظرکا اثر، ہمیشہ رہتا ہے

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بد نظر کا اثر ہوتا ہے اور سورہ قلم 51 کی تفسیر بھی یہی ہے کہ حضور ﷺ کے دور میں کافر دعوی کر کےنظر لگاتے تھے اور انہوں نے حضور ﷺ کو بھی تیز نظروں سے گھورا مگر اللہ کریم کے حُکم سے کوئی اثر نہ ہوا۔
سُورت یُوسف 67 میں سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کونظر بد سے بچنے کےلئے توکل علی اللہ کے ساتھ مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی نصیحت کی۔

صحیح مسلم 5701 نظر لگنا حق ہے۔ مسلم 5725 سیدہ ام سلمہ، رسول اللہ نے ایک لڑکی کو دیکھا ان کے گھر میں جس کے منہ پر جھائیاں تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس کو نظر لگی ہے اس کو دم کرو۔ مسلم 5726 بچوں کو بھی نظر لگ جاتی ہے۔

پہلی بات: اللہ کریم کے حُکم سے حسد کرنے والوں اور جان بوجھ کر نظر لگانے والوں کی نظر بد لگتی ہے۔ اسی طرح اللہ کریم کے حُکم سے نیک بندوں کی نظر بھی لگتی ہے۔ نظربد لگنے سے بیماری، رزق میں گھاٹا وغیرہ ہو سکتا ہے۔ اچھی نظر یا دُعا سے بیماروں کو شفا اور رزق میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

صحیح مسلم 5707: جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ اپنا داہنا ہاتھ اس پر پھیرتے پھر فرماتے: ‏‏‏أَذْهِبِ الْبَاسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقَمًا یعنی ”دور کر دے بیماری کو اے مالک لوگوں کے اور تندرستی دے، تو شفا دینے والا ہے، شفا تیری ہی شفا ہے، ایسی شفا دے کہ بالکل بیماری نہ رہے“

صحیح مسلم 5714: سیدہ عائشہ، جب گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ اس پر معوذات قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر پھونکتے پھر جب آپ بیمار ہوئے اس بیماری میں جس میں وفات پائی تو میں آپ پر پھونکتی اور آپ ہی کا ہاتھ آپ پر پھیرتی کیونکہ آپ کے ہاتھ مبارک میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی۔

صحیح مسلم 5719: جب کوئی بیمار ہوتا یا اس کو کوئی زخم لگتا تو رسول اللہ اپنی کلمہ کی انگلی کو زمین پر رکھتے اور فرماتے: بِاسْمِ اللهِ، تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، لِيُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا یعنی ”اللہ کے نام سے، ہمارے ملک کی مٹی، ہم میں سے کسی کی تھوک کے ساتھ، اس سے شفا پائے گا، ہمارا بیمار، اللہ تعالیٰ کے حکم سے۔

دوسری بات دُعا کرنے سے، دَم کرنے سے، دعائیں لینے سے، نیک اعمال سے، اپنے اوپر معوذات پڑھ کر دم کرنے سے، توکل علی اللہ کرنے سے، رب پر یقین کرنے سے، کسی سے دم کروانے سے، اللہ کریم کے حُکم سے شفا ہو جاتی ہے۔ لازمی بات نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ یہی کہیں کہ ہم کو کسی کی نظر لگ گئی ہے بلکہ یہ بھی کہنا چاہئے کہ اللہ کے سوا کوئی ہمیں آزما نہیں سکتا اور جب جیسے وہ چاہے گا شفا ہو جائے گی اور رزق کُھل جائے گا۔ تیسری بات مٹی پر تھوک لگا کر دینے سے بھی شفا ہو جاتی ہے۔

صحیح بخاری 5896: ام سلمہ کے پاس حضور ﷺ کے بال مبارک تھے، بیماروں کوبال پانی میں بگھو کر، پانی بیمار کو دیا جاتا۔ ابن ماجہ 3509 سیدنا عامر بن ربیعہ نے سیدنا سھل بن حنیف کے جسم کو دیکھ کر تعریف کی تو وہ وہیں گر پڑے تو رسول اللہ نے عامر بن ربیعہ کو غسل کرنے کا فرمایا تو عامر نے وضوء کیا، اپنے دونوں گھٹنوں اور اپنی کمر سے نیچے کے حصے کو دھویا، اور اپنے دونوں ٹانگوں کو پہلوؤں سے دھویا،تو رسول اللہ نے حکم فرمایا کہ ﴿وہ پانی سھل پر ڈال دِیا جائے﴾ یعنی وضوء اور دُھلائی میں استعمال کیے جانے والا جوپانی عامر کے جسم سے چھو کر نیچے آیا، اُس پانی کو سھل رضی اللہ عنہ ُ کے سر کی پچھلی طرف سے اُن پر ڈالا جائے، تو سھل لوگوں کے ساتھ اس طرح واپس گئے جیسے کہ انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ صحیح مسلم 5702 اگر تم سے کہا جائے کہ غسل کر کے پانی دو تو پانی دو۔

دُعا: دوسروں کو ان الفاظ سے مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہ، تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ،اللَّهُمَ بارِك فِيهِ، بارَك َاللهُ فِيهِ، اللَّهُمَ بارِك عَلِيهِ، بارَك َاللهُ فِيکَ، بارَك اللّٰہُ عَلِيکَ دعا دیا کریں اور خود سُورت الفاتحہ، آیت الکرسی، سُورت البقرہ، اور معوذتین کی قرأت کے ساتھ دم کر کے صحیح البخاری3371، صحیح مُسلم 7053، سُنن الترمذی 3768، مُسند أحمد 15859، سُنن أبو داؤد 3895، 5069 میں لکھے اذکار پڑھتے رہیں۔

شفاء: قرآن، نماز، روزہ، صدقات، دُعا دینے، دُعا لینے، دم درود، تعویذ دھاگے، شہد، کلونجی، پُچھنے لگوانے وغیرہ کسی وقت اور کسی بھی عمل سے ہو سکتی ہے۔ دوسرا آزمائش کسی بھی وقت کسی بھی عمل سے ہو سکتی ہے اور اصل راستہ مقام رضا اور توکل علی اللہ ہے۔

جنتی: پریشانی جہالت، دو نمبر پیر، قانون واصول کے خلاف کام کرنے، شریعت کو نہ جاننے اور اس پر عمل نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے ورنہ مسلمان اتنا سمجھدار تو ہے کہ صحیح بخاری 5705 ستر ہزار حساب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے اور یہ ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بدفالی نہیں کرتے، نہ منتر سے جھاڑ پھونک کراتے ہیں اور نہ داغ لگاتے ہیں بلکہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ "

ذاتی تجربہ: شریعت پر چلنا چاہئے، ذکر و اذکار کرنے چاہئیں۔ آج تک نہ تو بد نظر، نہ جادو، نہ الا بلا، نہ ان دیکھی چیزوں سے واسطہ پڑا ہے۔ بیماری آئے یا رزق میں گھاٹا ہوا تو اس کو اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھِی۔ کبھی کسی پیر کے پاس تعویذ لینے نہیں گئے بلکہ اپنے اپ کو، اپنی اولادوں کو، اپنے دوستوں کو سب کو توکل کے راستے کی دعوت دی اور کہا کہ تعویذ بچوں کے لئے، تعلیم جوانوں کے لئے اور توکل مریدوں کے لئے ہے جن کا ارادہ قُرب خداوندی میں رہنے کا ہے۔ اسی طرح سمجھایا کہ دیوبندی، بریلوی، وہابی یا شیعہ نہیں بننا بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔

اہلسنت: دیوبندی اور بریلوی ایک مکتبہ فکر کے ہیں کیونکہ دیوبندی و بریلوی دونوں خلافت عثمانیہ والے اہلسنت ہیں جن کو سعودی عرب کے وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک کہا، البتہ دیوبندی اور بریلوی کا اصولی اختلاف دیوبندی علماء کی چار کفریہ عبارتوں کا ہے۔ البتہ سعودیہ کے وہابی علماء کے ساتھ دیوبندی علماء اور اہلحدیث علماء اس وقت تقیہ بازی کر رہے ہیں حالانکہ اگر دونوں جماعتیں وہابی علماء کے ساتھ متفق ہیں تو پاکستان میں ان کے عقائد و اعمال پر ایک ہو جائیں مگر ایک سوال کا جواب دے دیں کہ بدعت و شرک کس کتاب میں کس اہلسنت عالم نے سکھایا؟

تحقیق: ہم خلافت عثمانیہ والے عقائد پر ہیں جن کو وہابی علماء نے بدعتی و مُشرک بغیر ریفرنس کے کہا، اسلئے ہم نے دیوبندی، بریلوی، وہابی یا اہلتشیع نہیں بلکہ قرآن و سنت پر چلنے والا مسلمان بننا ہے۔ چار مصلے اجماع امت اہلسنت اہلسنت

مکار: اہلتشیع حضرات کے پاس پنجتن (حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین) کی احادیث کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ امام جعفر کا قول ان کے لئے حدیث ہے البتہ وہ بھی اہلسنت کی کتابوں کا چربہ ہے یعنی چوری کیا ہے۔

موازنہ: اہلسنت کی صحاح ستہ سے پہلے 81 چھوٹی بڑی احادیث کی کتابیں ملتی ہیں اور صحاح ستہ کے محدثین نے تبع تابعین علماء سے روایات لیں جنہوں نے تابعین علماء سے سُنا تھا اور تابعین نے صحابہ کرام سے سُنا تھا اور صحابہ کرام نے حضور ﷺ سے سُنا تھا : امام محمد بن اسماعیل (194 ۔ 256 بخاری)، امام مسلم بن حجاج (204 ۔ 261)، امام ابو داؤد (202 ۔ 275)، امام محمد بن عیسی (229 ۔ 279 ترمذی)، امام محمد بن یزید (209 ۔ 273 ابن ماجہ)، امام احمد بن شعیب (215 ۔ 303 نسائی)

اہلتشیع کے پاس بارہ امام کی زندگی تک کوئی ریکارڈ نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق کی ”احادیث“ کی کتابیں (1) الکافی ابو جعفر کلینی 330ھ نے یعنی امام جعفر صادق سے 180 برس بعد (2) من لا یحضرہ الفقیہ جو محمد بن علی ابن یایویہ قمی 380ھ تقریباً 230سال بعد (3) تہذیب الاحکام اور (4) استبصار جو محمد بن طوسی 460ھ تقریباً 310 برس بعد لکھی گئی ہیں۔

بے بنیاد: صحابہ کرام، اہلبیت، بارہ امام سب کا دین ایک ہے مگر اہلتشیع کی بنیاد پنجتن نہیں ہیں، بارہ امام نہیں ہیں، صحابہ کرام نہیں ہیں۔ کون ہیں یہ اہلتشیع؟؟ اہلتشیع بے بنیاد دین ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

Aik Ummat Banno
Logo
Enable registration in settings - general