
دعا، اعتبار اور قبولیت
ہر مذہبی عوام اپنے اپنے طریقے اور مذہبی کتابوں کے مطابق دُعا کرتے ہیں۔ ہر مسلمان جماعت بھی اپنے رب سے دُعا کرتی ہے کیونکہ دُعا بندے اور اللہ کریم کے درمیان ایک واسطہ ہے، ایک تعلق ہے، ایک اعتبار ہے، ایک رشتہ ہے، اس اُمید کے ساتھ کہ میرا اللہ اس کائنات کا مالک ہے جو چاہے کر سکتا ہے، اس خیال کے ساتھ کہ میرا رب میرا نقصان نہیں کر سکتا اور اس جذبے کے ساتھ کہ میں اُس رب کو مانتا ہوں جو سب کچھ کر سکتا ہے مگر اُس رب کو نہیں مانتا جو کچھ نہیں کر سکتا۔
اکثر دُعائیں رزق، اولاد اور صحت کے متعلق ہوتی ہیں۔ البتہ دعا یہ ہونی چاہئے کہ یا اللہ مجھے رزق دے مگر میں اس سے دُنیا داروں سے مقابلہ نہ کروں بلکہ سب کچھ وہاں لگے جہاں میری اور رسول اللہ ﷺ کی امت مسلمان بنے۔ یا اللہ اولاد بیٹا دے یا بیٹی دے مگر دونوں کو ایمان دے اور نبی کریم ﷺ کے دین کو زندہ کرنے والے بنیں لیکن بیٹا ہونے پر بیٹی سے نفرت کا اظہار نہ کروں۔ یا اللہ صحت دے تاکہ تیری عبادت اچھے طریقے سے کر سکوں۔
یہ بھی یاد رہے کہ فلسفہ امیری و غریبی نہیں ہے بلکہ فلسفہ نیکی و بدی ہے، اسلئے 24 گھنٹے خیر میں گذارنے کی کوشش کرنی ہے۔ اسی طرح فلسفہ صبر و شُکر بھی ہےجو غریبی، بیماری، بیٹی ہونے پر یا اولاد نہ ہونے پر یا دُعا قبول نہ ہونے پر لوگوں کی باتیں سُن کر صبر کی صورت میں کیا جائے گا اور اُس پر جو اجر دنیا یا آخرت میں مل سکتا ہے وہ ہماری سوچ سے اعلی ہو گا۔ یہ ایک دوست نے سوال پوچھے تھے:
1 ۔ دعا کی قبولیت
1دُعا کی قبولیت کا علم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اللہ کریم پر ہے جب چاہے دے، جو مانگا ہے اُس کے بدلے میں کچھ اوربہتر دے، اگر نہ دے تو جنت میں دعا کے بدلے میں درجہ بلند کر دے۔ اسلئے یہ اعتبار اور ایمان کی بات ہے۔
2۔ کیسے پتا چلے گا کہ دعا قبول ھوٸی یا نھیں
3۔ دعا قبول نہ ھونے کی وجہ
دعا کی قبولیت میں ہی بیان کر دیا ہے کہ اس کا علم نہیں ہو سکتا جیسے کنجری نے کتے کو پانی پلایا ، اللہ کریم نےاُس کو بخش کر کے اُس سے گناہ کی طاقت چھین لی اور اُس کو نیک بنا دیا۔ اسلئے بندے کو علم نہیں ہو سکتا کہ کس عمل سے کیا کام بنا ہے۔ دوسری بات دُعا بھی ایک عمل ہے اور 24 گھنٹوں میں جو بھی نیک یا بد اعمال کرتے ہیں، اُس پر جزا یا سزا، برکت یا بے برکتی، رحمت یا لعنت ملتی رہتی ہے۔ اسلئے اپنے اعمال اور دُعا کے مقصد و نیت پر توجہ دیں۔
4۔ دعا کا کوٸی مخصوص ٹاٸم ھے یا کسی بھی ٹاٸم مانگی جاسکتی ھے؟
احادیث میں مختلف اوقات میں دُعا مانگنے پر قبولیت کا حضور اکرم ﷺ نے بتایا ہے مگر اصل یہی ہے کہ دُعا اُسی وقت ہوتی ہے جب ضرورت یا بندہ تکلیف میں ہو، اسلئے دُعا کا کوئی وقت نہیں کیونکہ اللہ کریم ہر وقت دُعا قبول کرتا ہے۔
5۔ نماز کہ بعد دعا کیوں ضروری ھے؟
نماز کے بعد دُعا بالکل ضروری نہیں ہے بلکہ جب ضرورت ہو صبر مانگ لیں اور جب نعمت میں ہوں تو رب کا شکریہ ادا کر دیں۔
6۔ دعا مانگنے کا کوٸی طریقہ (شریعت میں)
حضور ﷺ نے جو دُعائیں احادیث کی کتابوں میں مانگی ہیں اور جس طریقے سے مانگی ہیں وہ ہر کوئی مانگ سکتا ہے۔ اس کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے کہ رویا جائے تو ملے گا، نیکی کرو تو ضرور ملے گا۔
7۔ دعا میں حضور اکرم صل اللہ علیہ وصلم , اھل بیت , صحابہ کرام , شھداء کرام اور اپنے پیر و مرشد کا واسطا یا وسیلہ دینا کس حد تک درست ھے؟
ترمذی 3578 اور ابن ماجہ 1358 کے مطابق اہلسنت علماء کے نزدیک جائز ہے۔
8۔ جنازہ کے بعد کی دعا
اصول یہ ہے کہ دُعا ہر وقت مانگ سکتے ہیں، نفل مکروہ وقت چھوڑ کر جب مرضی پڑھ سکتے ہیں۔ درود ایک دُعا جب مرضی نبی کریم کے لئے کر سکتے ہیں۔ ایصال ثواب جب مرضی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح جنازے کے بعد صفیں توڑ کر دعا مانگ سکتے ہیں مگر کثیر تعداد میں جاہلوں نے دیوبندی و بریلوی علماء کی لڑائی کی وجہ سے اس کو فرض قرار دے دیا جس پر ان کو بدعتی کہا جاتا ہے اور جو نہیں مانگتا اُس کو وہابی کہا جاتا ہے۔ یہ جاہلیت ہر جماعت میں موجود ہے کہ اصول نہیں بتاتے بلکہ عوام گمرہ ہو چُکی مگر کسی کو تکلیف بھی نہیں ہے۔
9 .والدین کے حق میں دعا
والدین کے حق میں دُعا ضرور کرنی چاہئے جیسے ہم حضور اکرم ﷺ کے لئے اذان کے بعد مقام محمود کی دعا کرتے ہیں اور الھم صلی علی محمد پڑھکر اللہ کریم سے نبی کریم ﷺ پر رحمت بھیجنے کی دعا کرتے ہیں۔
10۔ دعا اگر قبول نہ ھوتی ھو تو کیا کٸا جاۓ۔
(کیوں کہ آج کل کے جاھل لوگ کھتے ھیں کہ علماء کرام اور مولوی سچے ھیں تو ان کی دعاٸیں قبول کیوں نھیں ھوتیں)
اجتماعی دُعا: پورے پاکستان کے لئے دعا کا مطلب ہے کہ پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی دُعا، اس دُعا سے پہلے حُکمران کو شریعت نافذ کرنا ہو گی تاکہ سزائیں دی جا سکیں ورنہ کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، سرمایہ دارانہ نظام ختم نہیں ہو سکتا اور ایسی دُعائیں قبول نہیں ہوتیں اور اگر قبول ہو جائیں تو حکمران بدل جائیں گے جس پر کام وہی کریں گے۔
انفرادی دُعا: انفرادی طور پر ہر نیکو کار رحمتوں و برکتوں میں رہتا ہے اور اُس کا ایمان بھی بڑھتا ہے اور اُس کے ساتھ رحمتیں اور برکتیں بھی رہتی ہیں۔ اسلئے وہ گلہ و شکوہ کی زبان بند رکھتا ہے۔
مختلف دُعائیں
1۔ حج کرنے گیا تو شدید ترین دُعا صرف ایک تھی کہ یا اللہ ہر دیکھنے والا، چاہنے والا، پیار کرنے والا، ساتھ چلنے والا جنت میں جائے،ان میں سے کوئی بھی جہنم میں نہ جائے۔
2۔ بھائی شدید ترین بیمار ہو گیا، ایسا لگا کہ اب مر جائے گا، دُعا کی کہ یا اللہ اس کی موت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ موت اس وقت دینا جب یہ ایمان کی حالت میں ہو۔اللہ کریم نے صحت عطا کر دی۔
3۔ والد صاحب بیمار ہوئے، دو نفل پڑھے اور دُعا کی کہ یا اللہ تیرا فرمان ہے کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو، اسلئے نفل پڑھ لئے ہیں تیری مہربانی، میرے والد صاحب کو شفا دے یا صبر عطا فرما دے۔ اللہ کریم نے اُن کو اپنے پاس بُلا لیا، سب کو صبر آ گیا۔
4۔ نکاح کے وقت میں یہی دُعا تھی کہ یا اللہ اپنا ایمان بچانے اور ایک عورت کو ایمان دینے کے لئے نکاح کرنے لگا ہوں، اولاد عطا کرنا اور ان تحفوں کی تربیت کرنے کی ہمت بھی عطا کرنا۔
5۔ حضورﷺ کی یہ دُعا بڑی پسند تھی جو اکثر مانگی کہ یا اللہ مجھے لوگوں کی نظر میں بڑا اور اپنی نظر میں چھوٹا کر دے۔ اسلئے شہرت اور پیسے کی بجائے گمنامی پسند ہے۔
6۔ ایک ولی کامل نے فرمایا کہ جب بھی کوئی چھوٹا بڑا نیکی کا کام کرنا تو شریعت کے مطابق کرنا اور کرنے سے پہلے اللہ کریم کو دل میں ٹیلیفون کرنا کہ یا اللہ تیرے لئے کرنے لگا ہوں۔ اسلئے ہر کام کرتے وقت دل میں پہلے اللہ کریم کو ٹیلیفون کرتا ہوں پھر کام شروع کرتا ہوں۔
7۔ حضورﷺ کے روضہ اطہر پر دُعا مانگی کہ یا اللہ حکمت، دانائی، رقت قلبی عطا فرما اور میرے الفاظ اتنے آسان اور سادہ فرما دے کہ عوام کو آسانی سے سمجھ آ سکیں۔ وہ نورفراست عطا فرما جس میں خوش فہمی اور غلط فہمی نہ ہو بلکہ حقیقت سمجھنے کی صلاحیت ہو۔
8۔ بزرگان دین کو اپنے گھر سے دُعا اور ایصالِ ثواب کر دیتا ہوں، اُس کا کثیر فائدہ دیکھا۔ البتہ جب بھی کسی بزرگ کے دربار پر گیا تو اُن کو سلام پیش کیا اور اللہ کریم کے حضور عرض کی کہ یا اللہ جیسے انہوں نے دین کا کام کیا مجھے بھی کرنے کی توفیق عطا فرما۔
9۔ حضورﷺ نے جو دُعائیں مانگی، اُن کو عربی میں یاد کرنے کی کوشش کی، عربی میں یاد نہ ہوئی تو اپنی زبان میں ہی مانگ لیا۔
10۔ یا اللہ مرنے سے پہلے پہلے میری بخشش فرما دینا یعنی میرے سارے گناہ معاف ہو چُکے ہوں، جہاں جہاں گناہ کئے ہوں وہاں سے نشانات ختم ہو چُکے ہوں، کراما کاتبین نے جو برائی لکھی ہو وہ بخشش کی وجہ سے مٹ گئی ہو، جن کے ساتھ برا کیا ہو ان کے دل سے نقوش مٹ گئے ہوں اور ان کو تو اُس کے بدلے میں اچھا صلہ دے چُکا ہو، جو ہاتھ پیروں نے کل قیامت والے دن گواہی دینی ہے وہ اچھے گواہ بن چُکے ہوں، قبر میں نیک عمل کی روشنی مل جائے۔
11۔ یا اللہ رحمتیں ہمارے ساتھ کر دے ۔ یا اللہ برکتیں ہمارے ساتھ کر دے۔
12۔ رب کریم سے لمبی چوڑی دعائیں نہیں مانگی جاتیں بلکہ جیسے کسی دوست سے کہنا ہو کہ کیا 500روپیہ مل سکتا ہے۔ اسطرح اللہ کریم کے آگے عرض کر دینا چاہئے یا اللہ یہ مشکل مجھے تنگ کر رہی ہے اور میری عبادت میں خلل ڈال رہی ہے، اس کا حل شریعت کے مطابق عطا فرما دے۔
13۔ شدید ترین دعا اور خواہش ہے کہ نبی کریم نے جو رب ھب لی امتی فرمایا، اُس میں اللہ کریم مجھے شامل فرما لے۔
14۔ اسلئے اس پیج پر یا اس پیج کے بند ہونے پر کسی بھی پیج پر دُعا کے ساتھ ایک ہی مشن ہو گا کہ یا اللہ رسول اللہ کی امت کو قرآن و سنت پر ایک کر دے۔ ان کو توبہ کی توفیق دے تاکہ کل قیامت والے دن سب کو بے ایمان کرنے پر جماعتوں کے ساتھ ساتھ ہم سب کو عذاب نہ ہو اور ہم سب اکٹھا کرنے کی کوشش کریں:
تعلیمات اور شخصیات: عوام شخصیات پر گرمی و سردی دکھاتی ہے اور عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ دو مذاہب ہیں ایک یزیدی اور دوسرا حیسنی حالانکہ سوال یہ ہے کہ یزید اور سیدنا حسین کس دین پر تھے جو قرآن و سنت پر نہیں وہ یزید ہے اور جو قرآن و سنت پر ہے وہ سیدنا حسین ہیں۔ اہلتشیع کے پاس حضور، مولا علی، سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن و حسین کی کوئی احادیث کی کتابیں، احادیث اور تعلیم نہیں، اسلئے مسلمان نہیں۔
اہم بات: دیوبندی اور بریلوی کی تعلیم ایک ہے اور اسلئے اب سعودی عرب کے وہابی علماء نے دیوبندی پر بدعتی و مشرک ہونے کا الزام لگا کر پابندی لگائی ہے۔ اب دیوبندی جو اپنے مفاد کے لئے ان کے ساتھ تھے، اہلسنت میں آتے ہیں تو ثابت کریں کہ وہابی المہند کتاب کے مطابق خارجی ہیں یا نہیں؟ دیوبندی علماء کی چار عبارتوں پر کفر کا فتوی لگا یا نہیں۔ اب وہابیت کا دفاع کرنا ہے یا اپنے اکابر کے عقائد اہلسنت کا؟
سوال: اہلحدیث پرسعودیہ اسلئے پابندی نہیں لگاتا کہ یہ وہابی ہیں مگر رافضیوں کی طرح تقیہ بازی ہے کہ پاکستان میں یہ غیر مقلد ہیں اور سعودی عرب میں مقلد حنبلی کے روپ میں حالانکہ وہابی غیر مقلد ہی ہیں اور تھے۔ سعودی اور اہلحدیث کبھی ثابت نہیں کر سکتے کہ بدعت و شرک کسی عالم نے سکھایا ہو۔ اپنا فارمولہ بتائیں کہ تقلید کو بدعت و شرک کس مجتہد نے کہا، کس نے کہا کہ اب صحیح احادیث کے مطابق میری تقلید کر کے اتباع رسول کرو۔
اتحاد امت: مسلمان بریلوی و دیوبندی کی اہلسنت تعلیم پر اکٹھا ہو سکتے ہیں، اُس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پیری مریدی، دم درود، تعویذ دھاگے، اذان سے پہلے درود، نماز کے بعد کلمہ، جمعہ کے بعد سلام، قل و چہلم، تیجہ، دسواں، ذکر ولادت، میلاد، عرس ، یا رسول اللہ مدد کے نعرے کچھ بھی نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں سوائے اس کے کہ جن احادیث کی بنیاد پر یہ سب کچھ جائز قرار دیا ہے۔ اُس کا انکار نہ کریں اور اپنا اصول بتائیں۔